السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علم نجوم سیکھنے کا کیا حکم ہے اس کی مذمت میں احادیث کی صحت کیسی ہے؟ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، امام فخر الدین رازی کے لئے کفر کی نسبت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے نجوم کی پرستش میں ایک کتاب لکھی ہے اور ابن قتیبہ کی کتاب مختلف الحدیث سے اس کی تکفیر نقل کی ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس علم کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا حرام ہے جیسے جادو کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا دونوں برابر ہیں۔ نیل الاوطار میں ہے کہ جس طرح جادو کا سیکھنااور اس پر عمل کرنا حرام ہے اسی طرح علم نجوم کا سیکھنا اور اس میں کلام کرنا حرام ہے۔ ابن رسلان نے شرح سنن میں کہا ہے کہ: علم جس کا اہل نجوم دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حوادث و واقعات جو ابھی تک رونما نہیں ہوئے اور آئندہ زمانہ میں واقع ہوں گے، وہ منع ہے۔ اور ان کا خیال ہے کہ ستاروں کا اپنے راستوں پر چلنے اور ان کا علیحدہ ہونے سے اس معرفت کو پا لیتے ہیں، اور یہ اس علم کی تحصیل ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے علم کے لئے اختیار کیا ہے۔ لیکن ستاروں کا اتنا علم جس سے زوال اور قبلہ کی جہت نیز کتنا وقت گزر گیا اور کتنا باقی ہے یہ اس میں داخل نہیں جس سے نہی وارد ہوئی ہے، البتہ بارش کا نزول، برف باری، ہوا چلنا اور پھلوں کے تغیر و تبدل کی خبر کرنا منع ہے، انتہی۔
لیکن حق یہ ہے کہ اس علم کا نماز کے اوقات کی معرفت برسوں اور مہینوں کے حساب کے لئے سیکھنا بھی بدعت ہے۔ صاحب سبل السلام نے کہا: دنوں، مہینوں اور برسوں سے چاند کی منزلوں کے حساب سے اوقات مقرر کرنا بدعت ہے اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، انتہی۔
قرآن کریم اور صحیح بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ستارے صرف تین چیزوں کے لئے ہیں:
1۔ آسمان دنیا کی زینت کے لئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَد زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنيا بِمَصـٰبيحَ ... ﴿٥﴾... سورة الملك
بےشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا۔
2۔ ان شیاطین کے مارنے کے لئے جو مستقبل کے واقعات سننے کے لئے آسمان کے قریب جاتے ہیں چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَجَعَلنـٰها رُجومًا لِلشَّيـٰطينِ... ﴿٥﴾... سورة الملك
اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنایا
3۔ خشکی اور دریا میں راستہ پانے کے لئے، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَعَلـٰمـٰتٍ وَبِالنَّجمِ هُم يَهتَدونَ ﴿١٦﴾... سورة النحل
اور بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں۔
اور جو ان فوائد کے سوا اور فوائد تلاش کرے وہ حلاوتِ ایمان سے محروم ہے۔
حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا جس نے ستاروں میں ان کے سوا اور فائدے سوچے تو اس نے اپنے حصے کو بھلا دیا اور اپنا نصیب برباد کیا اور اس چیز کے پیچھے پڑا جو اس کو درکار نہیں اور جس کا اس کو علم نہیں اور جس کو جاننے سے پیغمبر اور فرشتے عاجز ہیں۔ حضرت ربیع رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اسی کی مثل مروی ہے، اتنا اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کی موت و پیدائش اور کسی کی روزگاری کو ستاروں سے منسلک نہیں کیا، خدا پر بہتان باندھتے ہیں اور بہانہ ستاروں کا بنا لیتے ہیں۔ اخرجہ رزین۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے علم نجوم کا کوئی ایسا باب حاصل کیا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمایا تو اس نے جادو کی ایک شاخ حاصل کی۔ نجومی کاہن ہے اور کاہن جادوگر ہے اور جادوگر کافر ہے۔ اخرجہ رزین۔ (مشکوٰۃ البانی 2/1296 طبع کراچی 394)
اس سے یہ ظاہر ہوا کہ نجومی کافر ہے۔ اور ایک روایت میں ہے جس نے ستاروں کا کوئی علم سیکھا اس نے جادو کی ایک شاخ حاصل کر لی جس قدر زیادہ لے گا اسی قدر زیادہ ہو گا۔ (احمد ابوداؤد۔ ابن ماجہ۔ و سکت عنہ المنذری) و ابوداؤد و رجال اسناده ثقات ۔ اور معنی یہ ہے کہ علم نجوم سے جس قدر زیادہ حاصل کرے گا اسی طرح ہے جیسا کہ جادو سے زیادہ حاصل کیا۔
نیل الاوطار میں ہے: اور یہ بات تو معلوم ہے کہ جادو حرام ہے اور اس سے زیادہ کا حصول حرمت میں مزید شدت ہے سو اسی طرح علم نجوم سے زیادہ سیکھنا ہے (ابوداؤد 4/226، ابن ماجہ 2/305 البانی احمد 1/311 نیل 7/192)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کوئی گرہ لگائی پھر اس میں پھونکا تو اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا اور جس نے کسی شئے سے تمسک کیا اسی کی طرف سونپا گیا۔ (اخرجہ نسائی، سلفیہ 2/164)
اور صفیہ بنت ابی عبید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے روایت کرتی ہیں کہ جو نجومی کے پاس گیا اور اس سے کچھ پوچھا اور اس کے کہنے کو سچ جانا تو اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم 4/1751، مصابیح السنہ 3/255، نیل 7/190) اور عراف کی تفسیر نجومی سے کرتے ہیں اور یہ سب احادیث صحاح میں موجود ہیں اور رازی فقیہ متکلم، اصولی، شافعی المذہب ہے اور اس کے احاطہ بالعلوم سے یہ ثابت صحاح میں موجود ہیں۔
اور رازی فقیہ، متکلم اصولی، شافعی المذہب ہے اور اس کے احاطہ بالعلوم سے یہ بات دور نہیں کہ اس نے علم نجوم میں کوئی کتاب تصنیف کی ہو لیکن یہ بات کہ اس نے کتاب میں ستاروں کی پرستش کی طرف دعوت دی ہو، نہایت بعید معلوم ہوتی ہے، یہ بات تو یقینی ہے کہ اس کا مصنف رد و قدح کا محل ہے اور اکابر محدثین نے علم کلام اور فلسفہ میں اس کے خوض کو ناپسند کیا ہے۔ شیخ عبدالحق دہلوی رسالہ "مرج البحرین" میں رقمطراز ہیں کہ: بعض (ماہرین) کشف نے جو کہ آنحضرت کی معنوی صحبت سے مشرف ہوئے فخر رازی کی حقیقت سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: " ذلك رجل معاتب " یعنی وہ ایسا شخص ہے جو معتوب ہے۔ اور ابن سینا کے بارے میں فرمایا: " رجل أضله الله علي علم " یعنی وہ ایسا شخص ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کر دیا۔ اور شہاب الدین مقتول کے بارے میں فرمایا " هو من متبعيه " یعنی وہ ابن سینا کے تابعداروں میں سے ہے۔ اور کہتے ہیں کہ وصل المقصود اور وصل الی المقصود میں فرق ہے، پہلے جملے کا استعمال وہاں کرتے ہیں جہاں انسان مقصود کو پہنچ جائے، اور دوسرا وہاں جہاں مقصود کے قریب پہنچ جائے۔
غرضیکہ اہل اسلام اور (ماہرین) علم کلام کا فلسفیات میں خوض کرنا گو اہل زیغ کے رد و ابطال اور اہل حق کے فائدہ کی خاطر ہوا لیکن اس کے ضمن میں ان کو بھی بڑا نقصان ہوا جو کہ عقائد کے تذبذب، دین کے قواعد کی سستی اور شک تردد کے دروازہ کھلنے کا سبب بنا۔ ایسا شخص تو کم ہی ہو گا جو علم کلام میں خوض و غلو کے بعد حیرت کے بھنور سے نکلا ہو اور یقین کی پونجی نہ کھو بیٹھا ہو ہاں! جسے اللہ تعالیٰ بچا لے تاہم ایسا بہت کم ہوا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب