السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ نے جو کچھ منتقد میں لکھا ہے کہ... " السنة لا تنسخ بالقرآن " اس معنی کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبارت " تنسخ " ہونی چاہیے۔ شائد کاتب کے قلم سے سہو ہو گیا ہو کہ " لا تنسخ " لکھ دیا۔ اگرچہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول " لا تنسخ " بھی ہے، چنانچہ قاضی ابو الطیب، طبری، شیخ ابو اسحاق شیرازی، سلیم رازی اور امام الحرمین نے بیان کیا ہے۔ لیکن جمہور کا قول ہے کہ سنت قرآن سے منسوخ ہو جاتی ہے۔ اور امام شافعی کا ایک قول یہ بھی ہے، چنانچہ مذکورہ جماعت نے ان سے نقل کیا ہے۔ اور سلیم نے کہا کہ اکثر فقہاء اور متکلمین کا یہی قول ہے، اور سمعانی نے کہا یہی حق کے قریب ہے اور صیرفی نے اس کا جزم کیا اور منع ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
بلکہ شرع میں متعدد مقامات پر قرآن سے سنت کا منسوخ ہونا وارد ہوا ہے، انہیں مقامات میں سے قول باری تعالیٰ ہے:
٭﴿قَد نَرىٰ تَقَلُّبَ وَجهِكَ فِى السَّماءِ... ﴿١٤٤﴾... سورة البقرة
ہم آپ کا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
٭ علي هذا القياس، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے جو صلح کی تھی کہ ان کی عورتیں انہیں واپس کر دیں گے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے منسوخ ہو گیا: فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ ۔۔۔ (سورة الممتحنة: 10) ان (عورتوں کو) کفار کی طرف مت لوٹاؤ۔
٭ اور شراب کی حلت اس آیت: إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ ۔۔۔ الخ ۔۔۔ (سورة المائده: 90) ۔۔۔ الخ، سے منسوخ ہوئی۔
٭ اور مباشرت کی حرمت اس آیت: فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ ۔۔۔ (سورة البقرة: 187) یعنی پھر ان سے منسوخ ہو گئی۔
٭ اور عاشوراء کا روزہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۔۔۔ یعنی جو تم میں یہ مہینہ پائے تو اس کے روزے رکھے ۔۔۔ سے منسوخ ہوا۔
اور اس کی بہت سی امثال ہیں، انتہی ([1])
[1] اور یہ اصول کا مسئلہ ہے اس کی تفصیل اصول فقہ کی کتب سے دیکھنی چاہیے۔ تفصیل۔ ارشاد الفحول لامام الشوکانی۔ سنت کی بحث کا مطالعہ کریں۔ (جاوید)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب