سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) ھنڈوی کا حکم

  • 23993
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1071

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم اور حدیث شریف کی رو سے ہنڈوی کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں صریح نص تو موجود نہیں اسی لئے اس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے چنانچہ دلیل کے نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد اور استنباط پر عمل کرنا لازم ہے۔

میں کہتا ہوں کہ: جب فقہاء کرام رحمہم اللہ نے اس مسئلہ میں بنظر غائر جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ انواع معاملات میں سے قرض کے تحت داخل ہے اور اس میں قرض خواہ کا نفع ہے کیونکہ اس سے مقصود کسی شخص کی معینہ رقم لے کر دوسرے شہر میں کسی خاص شخص کو پہنچا دینے سے رستے کے خوف سے امن ہی مطلوب ہے اور یہ نفع قرض پر حاصل ہوا جبکہ قرض پر نفع لینا ربا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث:

كل قرض جر نفعا فهو ربا ([1])

رواہ حارث بن اسامہ مرفوعا۔ یعنی جو قرض نفع کھینچ لائے وہ ربا ہے۔ اگرچہ یہ ضعیف ہے اور اس کے وہ شواہد بھی جو بیہقی کی کتاب المفرد اور بخاری کی تاریخ میں منقول ہیں وہ بھی ضعیف ہیں لیکن اہل علم کا اسے قبول کر لینے سے اس کو تقویت حاصل ہو گئی اور اہل علم نے بموجب اس حدیث کے ھنڈوی کی کراہت کا حکم لگایا ہے جس سے فقہاء کی اصطلاح میں سفتجہ (ھنڈی دینا) کہتے ہیں اور اس کی جمع سفاتج ہے۔ اسی طرح ھدایہ شرح وقایہ، مصفی اور انوار وغیرہ میں مذکور ہے۔ اور کراھت سے مراد کراہت تحریمی ہے، چنانچہ اطلاق کے وقت یہی سمجھا جاتا ہے اور یہ معاملہ اس ملک میں تین طرح سے مروج ہے:

1۔ جس قدر مبلغ ہو اس کو اسی قدر بغیر کسی کمی و بیشی کے تحریر کیا جائے اس صورت میں کوئی ربا نہیں۔

2۔ مبلغ کم وصول کریں لیکن ادائیگی زیادہ کریں۔

3۔ زیادہ لے کر کم لکھیں اور دونوں صورتیں لینے اور دینے میں صریح ربا ہیں۔

اور اس سے بچنے کی یہ تدبیر ہے کہ اگر ہنڈوی سو 100 روپیہ کی کریں اور دس دوپیہ ھنڈوان (بنانے کا خرچ) آتا ہے تو چاہئے کہ مہاجن (سوہوکار، سوداگر) کو سو روپیہ سے دو روپیہ کم دے اور روپیہ کے پیسے خرید کر بارہ روپیہ مہاجن کے ہاتھ بیچ دے اس صورت میں اختلاف جنس کے باعث یہ معاملہ بلاشبہ درست ہو جاتا ہے۔

اس پر صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر پر عامل مقرر فرمایا تو وہ شخص آپ کے پاس اچھی کھجوریں لایا، آپ نے فرمایا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ اس نے کہا نہیں حضرت، خدا کی قسم ہم تو ان کا صاع، دوسری کھجوروں کے دو صاع دے کر لیا کرتے ہیں اور کبھی دو صاع، تین صاع دے کر لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح مت کرو یعنی ایک چیز کو اسی کے ہم جنس سے کمی و زیادتی سے خریدنا ربا ہے بلکہ ملی جلی کھجوروں کو ایک دفعہ داموں کے بدلے بیچ کر ان داموں سے اچھی کھجوریں خریدا کرو تاکہ ربا لازم نہ آئے اور موزونات (تولی جانے والی چیزوں) میں بھی اسی طرح فرمایا، یعنی تمر تو مکیلات میں سے ہے لیکن یہ حکم مکیلات ہی سے مخصوص نہیں بلکہ موزونات (جو ترازو سے وزن کی جاتی ہیں جیسے سونا چاندی وغیرہ) کا بھی یہی حکم ہے۔ اور اس شخص کا نام سواد بن غزیہ تھا۔ چنانچہ محلی نے دارقطنی سے نقل کیا اور خطیب نے مبھمات میں ذکر کیا جبکہ بعض نے کہا وہ مالک بن صعصعہ ہے۔ ([2])

اس سے معلوم ہوا کہ غیر جنس درمیان میں آنے سے کمی و بیشی حلال ہو جاتی ہے پس اگر مہاجن سو (100) روپیہ کی ہنڈوی میں پانچ روپیہ واپس کر دے جس کو ہندی میں "پھرت" کہتے ہیں تو چاہیے کہ نوے (90) روپے نقد دے اور دس کے بدلے پانچ روپے کی پیسے دے۔

شاہ رفیع الدین دھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ علماء نے ہنڈوی کی کراہت دور کرنے کے لئے ایک تجویز لکھی ہے کہ:

پہلے ساھوکار کو ہنڈوی کی شرط کے بغیر قرض دے دے، اس کے بعد کہے کہ فلاں شہر میں فلاں آدمی کے پاس یہ قرض ادا کر دے اور ساھوکار یہ مضمون لکھ کر اسے دے دے اس لئے کہ ہنڈوی کی کراہت اسی وجہ سے ہے کہ اس قرض سے نفع لے لیا، یعنی رستے کے خوف سے امن حاصل ہو گیا، اور جس صورت میں صاحب قرض کی منفعت مشروط ہو تو ربا کا شبہ ہے، سو منفعت مشروع ہی نہیں تو ربا کا شبہ بھی نہ رہا، انتہی۔


[1] السنن الکبریٰ، بیہقی 5/350، کتاب المعرفۃ 7/169، فتح الباری 4/399، شرح مسلم 11/21

[2] کذا فی تلخیص الحبیر 3/8

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:330

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ