سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) ربا (سود) کی تخصیص چھ اشیاء میں

  • 23992
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1693

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ربا صرف ان چھ چیزوں سے خاص ہے جن کی تصریح وارد ہے یا عام ہے، اور اگر عام ہے تو عموم کی کیا تاویل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل حدیث، اصحاب ظواہر کے ایک گروہ اور ظاہریہ کے نزدیک یہ انہیں چھ چیزوں کے ساتھ خاص ہے جن کی تصریح منقول ہے اور وہ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہیں:

سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور اور نمک (مسلم) وہ کہتے ہیں کہ اخبار اور احادیث کی کتابوں میں صرف انہی چھ چیزوں کا ذکر موجود ہے سو ربا انہیں میں منحصر ہو گا، اور اسی کو سید علامہ محمد بن اسماعیل امیر یمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ترجیح دی ہے اور سبل السلام میں کہا کہ: ہم نے ایک مستقل رسالہ میں جس کا نام "قول مجتبی" رکھا ہے اس بارے میں علیحدہ کلام کیا ہے۔

اور جمہور ان چیزوں کے علاوہ دوسری اشیاء میں بھی ربا کو ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی علت میں جو شریک ہے وہ حکم میں بھی ان کے مثل ہے۔ لیکن مجھ کو چونکہ کوئی منصوص علت نہیں ملی اس کے استنباط میں بڑا اختلاف ہے کہ دیکھنے والے کو ظاہریہ کے مذہب کی تقویت کا باعث معلوم ہوتا ہے تو جس کسی کا فہم ظاہر حدیث کے موافق ہو اس پر بھی کوئی ملامت نہیں، کیونکہ علمائے متقدمین و متاخرین میں سے ایک جماعت ان کے ساتھ ہے، لیکن عبادۃ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے ربا کے انہیں چھ چیزوں میں منحصر ہونا سمجھا جائے، ہاں! اگر سیاق عبارت کو افادہ حصر پر دال سمجھا جائے تو ممکن ہے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ شارع علیہ السلام کا انہیں چھ چیزوں کے ذکر پر اکتفا کرنا اس خیال سے ہو کہ اس زمانہ میں عموم بلوی اور کثرت وجود ربا انہیں میں تھا۔ اور چونکہ ان اشیائے ستہ کے علاوہ کا ان کے ساتھ ملحق نہ ہونا بھی صحت کو نہیں پہنچا اس لئے ان کے غیر ان کے ساتھ ملحق کر لینا (تاکہ اس غیر کا حکم اتفاق جنس کی صورت میں کمی و بیشی، ادھار کی حرمت، اختلاف جنس اور اتفاق ملت کی صورت میں صرف ادھار کے حرام ہونے میں انہیں اشیاء کی طرح ہو) بھی بلاوجہ نہیں، علی الخصوص جبکہ محض قیاس نہ ہو بلکہ روایات بھی اس پر دلالت کریں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو چیز تولی جائے اور ایک نوع سے ہو برابر برابر لین دین کیا جائے اور جو پیمانہ سے ناپی جائے اس کا بھی یہی حکم ہے، اور جب مختلف دو جنسیں ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں (دارقطنی 3/19، بزار عن عبادۃ و انس رضی اللہ عنہما) لیکن اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ربیع بن صبیح ہے، اور ایک (نقاد) جماعت نے اس کی تضعیف کی، اور ابوزرعہ نے اس کی توثیق کی اور حافظ نے تلخیص میں (اس کی جرح و تعدیل) سے سکوت اختیار کیا۔

اور اس کی مؤید صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بمنزلہ (درخت کے اوپر کے پھل کو کٹے ہوئے پھل سے بیچنا) کے منع ہونے سے متعلق، اور جو مسلم میں ہے درخت کے اوپر پھل کا اندازہ کرنے میں، جس سے انگور اور زبیب میں ربا کا ثبوت ملتا ہے اور یہ ان چھ چیزوں سے عام ہے۔ اور منجملہ الحاق کے دلائل سے، گوشت کا جانور کے بدلے منع ہونا ہے جبکہ ([1]) عرایا میں رخصت ہے اس لئے محققین علماء جیسا کہ صاحب و مصفیٰ وغیرہ نے اسی کی طرف میلان کیا۔ اور یہ اس میں شک نہیں کہ یہ دلائل اسباب میں قطعی نصوص نہیں خاص کر جبکہ سند ہی ضعیف ہے۔ انتہائی درجہ یہ ہے کہ: یہ قیاس کی تائید کے قابل ہیں اور متقی وہ ہیں کہ مباح کو حرام میں واقع ہونے کے خوف سے ترک کر دیں۔ ([2])


[1] عرایا جمع ہے عریۃ کی (یعنی عاریہ) رخصت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:

ایک شخص نے کسی کو اپنے باغ میں سے کھجور کا ایک یا زیادہ درخت، ھبہ کر دئیے ان کی متوقع آمدنی پانچ وسق (ساڑھے سات سو کلو) خشک کھجور سے زائد نہیں ہے اب جسے درخت ہبہ کئے گئے ہیں وہ ان سے تازہ کھجور حاصل کرنے کے لئے وقتا فوقتا آتا ہے اس کے بار بار آنے سے ہبہ کرنے والے کے لئے یا جسے درخت ہبہ کئے گئے ہوں اسے باغ میں پہنچنے میں کسی قسم کی تنگی پیدا ہوتی ہے چنانچہ اور اس تنگی سے بچنے کے لئے اس آدمی کو اس بات پر آمادہ کر لیتا ہے کہ وہ ہبہ شدہ درختوں کی متوقع آمدن کا اندازہ لگا کر اس کے برابر اتری ہوئی خشک کھجور لے لے تو بیع جائز ہے (منھاج المسلم للشیخ ابی بکر الجزائرہ) (خلیق)

[2] مسلم المساقاۃ/1211 حدیث مصابیح السنۃ 2/317 شرح وقایہ مترجم 3/27

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:327

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ