السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز جمعہ کے جواز کے لئے تمام وہ شرائط جو کتب فقہ میں مذکور ہیں ان کی کوئی سند ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمعہ کی نماز دوسری فرضی نمازوں کی مثل ہے۔ جو ان کی شروط ہیں مثلا بدن، لباس اور جگہ وغیرہ پاک ہو، اسی طرح اس نماز میں بھی وہی شروط ہیں۔ اور اس کے پہلے دو خطبوں کا شروع ہونا ایک اضافی امر ہے۔ نیز اس نماز کی دوسری نمازوں سے مخالفت کی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز میں دوسری نمازوں سے اضافی شرط مثل، امام اعظم، مصر، جامع اور عدد مخصوص وغیرہ کو شرط ٹھہرانے کے لئے کوئی سند صحیح نہیں۔ اس لئے کہ اس کے مستحب ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کا واجب ہونا تو ازخود ہے لیکن شرطیت ایک دوسری چیز ہے، بلکہ دو شخصوں کا ایسی جگہ جہاں ان کے سوا کوئی اور موجود نہ ہو جمعہ کا ادا کر لینا ان سے واجب کو ساقط کر دیتا ہے اور اگر ان میں سے ایک نے بھی خطبہ پڑھ لیا تو سنت پر عمل کیا اور اگر نہ پڑھا تو خطبہ ایک سنت ہی ہے یعنی واجب نہیں ہے، بلکہ اگر نماز جمعہ میں جماعت کے واجب ہونے کی دلیل وارد نہ ہوتی، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جمعہ کو بغیر جماعت ادا کرنا کبھی ثابت ہوتا تو ایک آدمی کا بھی جمعہ کو ادا کر لینا دوسری نمازوں کی طرح کافی ہو جاتا لیکن حضرت طارق بن شھاب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
الجمعة حق واجب علي كل مسلم في جماعة ([1])
"جمعہ کا باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔"
اور اس سے جماعت کا وجوب ثابت ہوتا ہے دوسرے مذاہب کے نزدیک جمعہ کی شرائط میں سے جو شرطیں عمدہ ہیں وہ (1) عدد مخصوص (2) مصر جامع ہیں اور اس مسئلہ میں وسیع اختلاف پایا جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں باعتبار عدد معین کے پندرہ مذاہب ذکر کئے ہیں، اور کہا پندرھواں مذہب یہ ہے کہ بلاقید جماعت کثیر ہو۔ اور امام سیوطی نے امام مالک سے اسی کو نقل کیا اور امید ہے کہ دلیل کی رو سے یہی آخری مذہب قوی ہو۔ ([2])
امام شوکانی ([3]) نے کہا کہ: جس طرح تنہا ایک شخص کے لئے جمعہ کے صحیح ہونے کی کوئی سند نہیں اسی طرح اَسی (80) یا تیس (30) یا بیس (20) یا نو (9) یا سات (7) اشخاص کی شرط کی بھی کوئی سند نہیں۔ اور جس نے کہا دو آدمیوں کے ساتھ جمعہ صحیح ہے اس کی دلیل حدیث اور اجماع سے عدد کا وجوب ہے اور کسی عدد مخصوص کی شرط کا دلیل سے ثابت نہ ہونا اور سب نمازوں میں دو کی جماعت کا صحیح ہونا نیز جمعہ اور بقیہ جماعتوں کا یکساں ہونا اور اس عدد یا اس عدد کے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کے عدم انعقاد کا مروی نہ ہونا ہے، اور میرے نزدیک یہی قول راجح ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ شارع نے جماعت کا اطلاق دو اور دو سے زیادہ پر کیا ہے اور باقی تمام نمازیں باتفاق علماء دو سے منعقد ہو جاتی ہیں، اور جمعہ بھی ایک نماز ہے تو جب تک کوئی دلیل بقیہ نمازوں کے خلاف خاص کرنے والی نہ ہو، کسی حکم سے مختص نہ ہو گی۔ نیز جو عدد دوسری نمازوں میں معتبر ہے اس کو جمعہ میں معتبر نہ سمجھنے کی کوئی دلیل نہیں۔ ([4])
(مولانا) عبدالحق (جو کہ قدمائے اھل حدیث سے ہیں) کہتے ہیں کہ:
جمعہ کے عدد میں کوئی حدیث ثابت نہیں اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: کسی حدیث سے عدد مخصوص کی تعیین ثابت نہیں، انتہی۔ اور جو احادیث عدد مخصوص کے اعتبار پر دلالت کرتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں اور حفاظِ حدیث نے جب ان میں کلام کی ہے تو وہ استدلال کے لائق نہ رہیں، اور ان سے حجت قائم نہ ہوئی، علي هذا القياس مصر جامع کے شرط نہ ہونے پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جمعہ ادا ہونے کے بعد پہلا جمعہ موضع جواثی میں (جو بحرین کے ملک میں ہے) عبدالقیس کی مسجد میں پڑھا گیا۔ (بخاری) اور جواثی ایک گاؤں کا نام ہے جو بحرین کی بستیوں میں سے ہے اور ظاہر یہ ہے کہ عبدالقیس نے اس جمعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر قائم نہ کیا ہو گا۔ اور صحابہ کی عادت تھی کہ نزول وحی کے زمانہ میں کسی چیز کی مشروعیت کا ازخود اذن نہیں مانگتے تھے اور اسے اپنی طرف سے مشروع نہیں ٹھہرایا کرتے تھے، پس اگر یہ جمعہ جائز نہ ہوتا تو اس کے بارے میں قرآن کریم ضرور نازل ہوتا۔ چنانچہ حضرت جابر اور ابو سعید رضی اللہ عنہما نے عزل (یعنی انزال باہر کرنا تاکہ حمل نہ ٹھہرے) کے جواز پر اس سے استدلال کیا کہ انہوں نے زمانہ نزول وحی میں عزل کیا اور اس کی ممانعت نہ آئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث (جو کہ موقوف ہے):
لا جمعة ولا تشريق الا في مصر جامع ([5])
جمعہ اور عید کا مصر جامع کے سوا پڑھنا درست نہیں۔
کو امام احمد نے ضعیف قرار دیا اور کہا کہ اس کا مرفوع ہونا درست نہیں۔ اور ابن حزم نے اس کے موقوف ہونے پر جزم کیا ہے اور یہ موقوف، مرفوع، حکمی بھی نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔ سو اس سے حجت قائم نہ ہو گی۔
ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ:
حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بحرین والوں کو لکھا کہ تم جس جگہ بھی ہو جمعہ ادا کیا کرو۔ ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا، اور یہ بستیوں اور شہروں کو شامل ہے۔ اور بیہقی نے لیث بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: ([6])
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اہل مصر اور مضافات کے رہنے والے ان کے حکم سے جمعہ ادا کیا کرتے تھے اور ان میں ایک جماعت صحابہ کی بھی موجود تھی۔ اور امام عبدالرزاق نے صحیح سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
وہ مکہ اور مدینہ کے مابین گاؤں والوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تھے اور معیوب نہ جانتے تھے۔ اور صحابہ کے اختلاف کے وقت مرفوع کی جانب رجوع کرنا ہی لازمی ہے اور اس باب میں اور بھی روایات ہیں۔
سو جب بستیوں میں جمعہ پڑحنا ثابت ہو گیا تو امام اعظم ([7]) (یعنی بادشاہ) کی شرط بے اصل ہو گئی، کیونکہ بادشاہ بستیوں میں نہیں رہا کرتا اور علی ھذا القیاس مسجد بھی شرط نہیں۔ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور بقیہ علماء بھی یہی فرماتے ہیں، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور یہی قول قوی ہے۔
اور اہلِ تواریخ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میدان میں جمعہ پڑھنا مروی ہے۔ ابن سعد نے بھی اس کو روایت کیا۔ اور اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف مسجد میں جمعہ ادا کرنا مسجد کے شرط ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ واللہ اعلم
[1] (ابوداؤد البانی حدیث 1067۔ نیل الاوطار 3/241)
[2] (نیل الاوطار 3/246)
[3] نیل الاوطار 3/247
[4] فتح الباری 8/286/389
[5] نصب الرایہ 2/195، محلی 5/125، المغنی 2/331، نیل 3/248، ابن شیبہ 2/101، البیہقی 3/179 مصنف عبدالرزاق 3/167
[6] ابن شیبہ 2/102 محلی 2/50 المغنی 2/331 معرفۃ السنن والاثار للشافعی 4/323 تلخیص الحبیر 1/54
[7] عن ابى حنيفة، والليث و زفر و محمد بن حسن اذا كان ثلاثة رجال والامام رابعهم صلوا الجمعة ولا تكون باقل، محلی 5/46 ان سب سے روایت ہے کہ اگر تین مقتدی اور چوتھا امام ہو تو جمعہ پڑھنا چاہیے اس سے کم پر نہیں ہے۔ (جاوید)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب