سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) دوزخیوں کا ہمیشہ دوزخ میں رہنا

  • 23989
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1561

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دوزخیوں کا ہمیشہ دوزخ میں رہنے سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد مدت دراز تک (مقید) رہنا ہے: جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی سے منقول ہے، یا پھر ہمیشہ عذاب میں ایسا مبتلا رہنا کہ عذاب کا نہ کبھی وقفہ اور نہ دوزخ سے کبھی رہائی ہو سکے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوزخیوں کے لئے لامتناہی عذاب:

دوزخیوں کا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا یہ معنی ہے کہ ان سے عذاب کبھی منقطع نہ ہو گا۔ چنانچہ کلام اللہ کی ظاہری آیات سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل اور جمہور علمائے اسلام کے مذہب سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ عذاب لامتناہی اور بغیر کسی انقطاع کے ہو گا جو کہ آیات ذیل سے ظاہر ہے:

1) ....﴿وَما هُم بِخـٰرِجينَ مِنَ النّارِ ﴿١٦٧﴾... سورة البقرة

"اور وہ آگ سے نکلنے والے نہیں۔"

2) ....﴿كُلَّما أَرادوا أَن يَخرُجوا مِنها مِن غَمٍّ أُعيدوا فيها ...﴿٢٢﴾... سورة الحج

"جب کبھی وہاں غم سے نکلنا چاہیں گے، تو پھر اس میں دھکیل دئیے جائیں گے۔"

3) ....﴿لا يُقضىٰ عَلَيهِم فَيَموتوا وَلا يُخَفَّفُ عَنهُم مِن عَذابِها ...﴿٣٦﴾... سورة الفاطر

"اور نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ وہ مر جائیں (اور عذاب سے چھوٹیں) اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔"

4) ....﴿وَلا يَدخُلونَ الجَنَّةَ حَتّىٰ يَلِجَ الجَمَلُ فى سَمِّ الخِياطِ ...﴿٤٠﴾... سورة الاعراف

"اور نہ وہ لوگ کبھی جنت میں جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے۔"

5) ....﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها...﴿٩٣﴾... سورة النساء

"اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔"

6) ....﴿ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَإِنَّ لَهُ نارَ جَهَنَّمَ خـٰلِدينَ فيها أَبَدًا ﴿٢٣﴾... سورة الجن

"اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں ان کے لئے دوزخ کی آگ (تیار) ہے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔"

ان آیات کے علاوہ مزید دوسری آیاتِ کریمہ میں بھی مفہوم پایا جاتا ہے۔

نیز صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يجاء الموت في صورة كبش املح فيوقف بين الجنة والنار ويقال يا اهل النار خلود فلا موت (مسلم 4/2188 (اختصارا))

"موت کو ایک سفید اور سیاہ رنگت کے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور جنت و دوزخ کے مابین کھڑا کر کے پکارا جائے گا، اے جنت والو! (تمہیں یہاں) ہمیشہ رہنا ہے اور موت نہیں آئے گی، اور اے دوزخ والو! (تمہیں بھی یہاں) ہمیشہ رہنا ہو گا اور موت نہیں آئے گی۔"

اور اسی طرح قتل وغیرہ جیسے کبیرہ گناہوں کی سزا میں بھی صحیح احادیث سے " في نار جهنم خالدا مخلدا فيها ابدا " کے الفاظ ثابت ہیں۔ ان تمام آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو دوزخ میں لامتناہی اور دائمی عذاب ہو گا۔ جس آیت یا حدیث سے اس کے مخالف مفہوم ذہن میں آتا ہو اس کے معنی میں تاویل کی گئی ہے جیسا کہ آیت ذیل سے مترشح ہے:

﴿خـٰلِدينَ فيها ما دامَتِ السَّمـٰو‌ٰتُ وَالأَرضُ إِلّا ما شاءَ رَبُّكَ ...﴿١٠٧﴾... سورة هود

"ہمیشہ اسی دوزخ میں رہیں گے جب تک (آخرت کے) آسمان و زمین قائم رہیں گے مگر جن لوگوں کو تیرا مالک چاہے گا۔"

یعنی اس آیت شریفہ کا ظاہری مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا عذاب منقطع ہو گا اور ان کے عذاب کی کوئی انتہاء بھی ہے۔ چنانچہ صرف استثناء " إِلَّا " اس پر دلالت کرتا ہے۔

کفار سے انقطاع عذاب کی توجیہات:

ابن حجر ہیثمی مکی، زواجر ج 2/281 میں لکھتے ہیں کہ علماء نے اس کی بیس توجیہات بیان کیں ہیں۔ ان میں سے بعض آسمانوں اور زمین کے ہمیشہ رہنے کی مدت سے مقید کرنے کی حکمت ذکر کرتے ہیں اور بعض استثناء اور اس کے معنی کی حکمت کا عندیہ دیتے ہیں، پھر منجملہ اُن بیس وجوہ کے دو تین وجوہات بیان کیں ہیں، اور قاضی القضاۃ محمد بن علی شوکانی نے تفسیر فتح القدیر ج 3/552 میں استثناء مذکور کے بیان میں گیارہ وجوہ ذکر کیں اور کہا یہ وہ اقوال ہیں جن پر ہمیں اہل علم کے اقوال سے وقوف حاصل ہوا ہے ان میں سے بعض پر اعتراض کئے گئے ہیں اور ان کے جواب بھی دئیے گئے ہیں، میں نے ان کو ایک مستقل رسالہ کی شکل میں جو کہ بعض اہل علم کے سوال کے جواب میں تالیف کردہ ہے، واضح کر دیا ہے، انتہی۔

لیکن ۔۔۔ اس فقیر کو اس رسالہ پر اطلاع نہیں ہوئی، اللهم ارزقنا ۔ اور ان کی تفسیر سے دوام کا قول ہی ظاہر ہے۔ اور جہاں آیت کے یہ معنی ذکر کئے "وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اس دوام کے لئے نہ انقطاع ہو گا اور نہ ہی انتہا" کہا، اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر جو کہ امام بیہقی نے کتاب " البعث والنشور " میں فرمان باری تعالیٰ: " إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ " کے تحت بیان کی ہے، سے تقویت ملتی ہے وہ فرماتے ہیں: سو بےشک تیرے رب نے چاہا کہ یہ لوگ ہمیشہ دوزخ میں اور یہ ہمیشہ ([1]) جنت میں رہیں۔

امام ابن جریر طبری نے بھی اس آیت کے بیان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے آگ سے مشروط رکھا کہ ان کے چہروں کو کھائے۔ اور ابو الشیخ نے سدی سے اس آیت کی تفسیر میں کہا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے وہ حکم آیا جس نے اس آیت کو منسوخ کر دیا سو اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں یہ آیت نازل فرمائی:

﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَروا وَظَلَموا لَم يَكُنِ اللَّهُ لِيَغفِرَ لَهُم وَلا لِيَهدِيَهُم طَريقًا ﴿١٦٨﴾... سورة النساء

"بےشک جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا انہیں اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز نہ بخشے گا اور نہ انہیں کوئی راہ دکھائے گا۔"

﴿وَأَمَّا الَّذينَ سُعِدوا فَفِى الجَنَّةِ خـٰلِدينَ فيها ما دامَتِ السَّمـٰو‌ٰتُ وَالأَرضُ إِلّا ما شاءَ رَبُّكَ ...﴿١٠٨﴾... سورة هود

"اور جو لوگ نیک بخت ہوں گے وہ ہمیشہ اسی جنت میں رہیں گے جب تک جنت کے آسمان و زمین قائم رہیں گے مگر جن کو تیرا پروردگار چاہے۔ یہ ایسی بخشش ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ (کبھی آ کر نہ ہوئی)

سو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے وہ حکم آ چکا جس نے اس آیت کو منسوخ کر دیا جو مدینہ میں نازل ہوا:

﴿وَالَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ سَنُدخِلُهُم جَنّـٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها أَبَدًا لَهُم فيها أَزو‌ٰجٌ مُطَهَّرَةٌ وَنُدخِلُهُم ظِلًّا ظَليلًا ﴿٥٧﴾... سورة النساء

"اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے۔"

تو ان کے لئے ہمیشہ کا رہنا واجب کر دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کے معانی اور فرمان حمید کی مراد دوسروں کی نسبت زیادہ تر واقف ہیں، ان کی تفسیر دوسروں کو تفسیر سے مقدم اور تسلیم کرنے کے لائق ہے اور اس کی مؤید حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت مرفوع حدیث جو کہ ابن مردویہ کے نزدیک ثابت ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ بعض بدبختوں کو آگ میں سے نکال کر جنت میں داخل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور ابن جریر اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے آیت فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا ۔۔۔ الخ پڑھ کر کہا کہ ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: بعض لوگ آگ میں سے نکلیں گے اور ہم یہ نہیں کہتے جیسا کہ اهل حروراء  (ایک موضع کا نام ہے جہاں سے خارجی " خذلهم الله " پیدا ہوئے) کہتے ہیں کہ جو شخص آگ میں داخل ہوا وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔

اور ابن ابی حاتم نے آیت ﴿ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ﴾ کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ: ہر جنت کے لئے آسمان اور زمین ہے۔

اور یہ روایات نصوص میں محل نزاع ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ: آسمان و زمین کے دوام سے مراد، آخرت کے آسمان و زمین کی ہمیشگی مراد ہے جسے فنا نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان " الَّذِينَ شَقُوا " گنہگار مومنوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ اور کلمہ "ما" ﴿إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ﴾میں "من" کے معنی میں ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اہل توحید شافعین کی شفاعت اور اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بدولت آگ سے رہائی پائیں گے۔ چنانچہ صحیح متواتر دلائل جن سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اس پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ ہر عموم (جیسا کہ ﴿ لَّابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا ﴿٢٣﴾" یعنی اس میں صدیوں رہنے والے ہیں) کے لئے مخصص ہیں۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ:

امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر کبیر 8/435 میں رقمطراز ہیں:

ایک گروہ نے اس سے عذاب کے متناہی اور منقطع ہونے پر دلیل لی ہے اس لئے کہ گناہ، ظلم متناہی ہے اور اس پر عذاب لامتناہی کرنا ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ ظلم سے مبرا ہے۔ انتہی۔ ابن حجر مکی نے اس کے جواب میں کہا کہ:

"لفظ احقاب" انتہا کا متقاضی نہیں بلکہ اہل عرب دوام کی تعبیر ایسی عبادات سے کرتے ہیں اور گناہ پر ہمیشہ عذاب دینے میں کوئی ظلم نہیں کیونکہ کافر پختہ ارادہ رکھتا ہے کہ جب تک زندہ رہے گا ہمیشہ کفر پر ہی رہے گا سو دائمی گناہ پر ہی دائمی عذاب ہوا تو یہ عذاب، گناہ کے مطابق ہی سزا ہوئی۔ انتہی

دوزخ کا دوزخیوں سے خالی ہو جانا:

ابن حجر مکی نے عذاب کے دوام کے ذکر کے بعد کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت جو امام احمد کے نزدیک اس لفظ کے ساتھ ثابت ہے:

لياتين علي جهنم يوم تصفق فيه ابوابها ليس فيها احد وذلك بعد ما يلبثون فيها احقابا ....

"جہنم پر ایک ایسا دن ضرور آئے گا جس میں اس کے دروازے بجتے رہیں گے اور اس میں کوئی نہ ہو گا اور یہ اس رات کے بعد ہو گا جب اس میں صدیوں ٹھہر چکے ہوں گے۔"

اس کے منافی نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی غیر ثقہ ہے، جو بڑے بڑے جھوٹ روایت کرتا ہے ہاں! بہت سے لوگوں نے اس قول کو حضرت ابن سعد رضی اللہ عنہ اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہی قول حضرت عمر، ابن عباس اور حضرت انس رضی اللہ عنہم کے اور حماد بن سلمہ، علی بن طلحہ الوالبی اور مفسرین کی ایک جماعت کا ہے۔ انتہی۔

اور ظاہر یہ ہے کہ یہ قول ان سے صحیح نہیں۔ اگر تسلیم کر بھی لیں تو کلام کا یہ معنی ہو گا اس پر گنہگار مومنوں میں سے کوئی نہ ہو گا لیکن کفار کی جگہیں ان سے بھری پڑی ہوں گی ان سے کبھی نہ نکل سکیں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ انتہی کلام ابن حجر

میں کہتا ہوں!

اس کی مانند صحابہ میں سے ابراہیم، جابر اور ابو سعید رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے ابو مجلز اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرھما سے مروی ہے اور طبرانی نے معجم کبیر میں ابو امامہ صدی بن عجلان باھلی رضی اللہ عنہ سے اس باب میں روایت کی ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ تو صریح آیات و احادیث، آثار مرفوعہ اور اخبار ضعیفہ پر مقدم ہیں۔ ہاں! اس میں شک نہیں کہ علمائے متقدمین و متاخرین میں سے ایک گروہ کا یہ مسلک ہے، دوزخ کی ابدیت، جنت کی ابدیت کی طرح شارع کا منصوص علیہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ جنت کے بارے میں " إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ " کے بعد " عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ، اي غير منقطع " یعنی بخشش بے انتہا ہے، فرمایا ہے، نیز ارشاد باری ہے:

﴿ إِنَّ هـٰذا لَرِزقُنا ما لَهُ مِن نَفادٍ ﴿٥٤﴾... سورة ص

"بےشک یہ ہمارا دیا ہوا رزق ہو گا جو کبھی ختم نہ ہو گا۔"

اور دوزخ کے بارے میں استثناء مذکور کے بعد فرمایا: ﴿إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٠٧﴾" بےشک تیرا رب جو چاہے وہ کر گزرتا ہے۔ اور دوام سے متعلق کوئی مفید تعبیر ارشاد نہیں فرمائی۔ سو دونوں کی ابدیت میں فرق ہو گا۔

اور بعض شرعی و عقلی دلائل دوزخ کے کسی نہ کسی دن ختم ہونے کے متقاضی ہیں اور اس سے دوزخیوں کا عذاب ختم ہونا بھی لازم آتا ہے۔ باوجودیکہ اس سے خلود في النار بھی مترشح ہے۔ بایں معنی کہ جب تک دوزخ باقی ہے ہمیشہ اس میں رہیں گے اور اس سے نکل نہ سکیں گے اور جب دوزخ فنا ہو جائے گی، ان کا عذاب بھی مخلد نہ رہے گا۔ گویہ زمانہ دراز اور لمبی مدت کے بعد ہی ہو، اور بلاشک یہ فرق نہایت نازک ہے، اسی لئے حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب " حادي الارواح الي بلاد الافراح " کے سڑسٹھویں باب میں بہشت اور دوزخ کی ابدیت میں مبسوط کلام کرنے کے بعد اسی طرف میلان کیا اور کہا کہ: حکمت الٰہی میں یہ بات نہیں کہ شر اور بدی ہمیشہ رہے جس کی کوئی انتہا اور انجام نہ ہو، تو وہ خیر کے بالکل مساوی ہو جائے گی، انتہی۔

اور عجب نہیں کہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے استاد حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بھی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی طرح اسی طرف گئے ہوں، لیکن محرر سطور نے اس مسئلہ میں ان سے اب تک کوئی نص صریح نہیں پائی۔

ہاں ابن القیم نے کتاب مذکور میں دونوں کے دوام میں شرعا و عقلا پچیس وجوہ سے فرق کیا ہے اور کہا: شائد تجھے یہ تحقیق کسی کتاب میں نہ ملے۔ اور اس کے ضمن میں دوزخ کا دوام ثابت کرنے والوں کے جوابات دئیے اور دو تین اجزاء تک طویل کلام کر کے مطلب ثابت کیا اور ان دلائل اور جوابات پر غور کرنے سے یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے کہ دوزخ کے ہمیشہ نہ رہنے پر ان کی دلالت اشارۃ النص اور بطور التزام کے ہے، اور مطابقت تضمن، اور دلالۃ النص کے طریق سے نہیں اور اس کی بنا وعید الٰہی میں خلف کے ممکن ہونے پر ہے، چنانچہ متکلمین اہل سنت کا مذہب ہے اس لئے کہ رحمتِ الٰہی غضب پر غالب ہے برخلاف اس کے کہ اس میں مذہب منصور جمہور کے بلکہ نصوص سمعیہ کے مخالف ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ منطوق مفہوم پر مقدم ہوتا ہے، کما تقرر فی الاصول۔ لھذا حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ ([2]) نے بطور راسخ علماء کے مذکورہ بحث کے بعد اس کتاب میں لکھ دیا کہ: جو ہم نے اس مسئلہ میں درست ذکر کیا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے احسان سے ہے اور جو خطا ہے وہ میرے اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس سے پاک اور بری ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر قائل کی زبان، قصد اور دل کے پاس ہے۔ واللہ اعلم


[1] (1) جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يدخل أهل الجنة الجنة ، ويدخل أهل النار النار ، ثم يقوم مؤذن بينهم ، فيقول : يا أهل الجنة ، لا موت ، ويا أهل النار ، لا موت. كلّ خالد فيما هو فيه۔ (مسند احمد حدیث 6139)

جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں چلے جائیں گے۔ پھر ان سے ایک آواز دینے والا کھڑا ہو گا اور کہے گا اہل جنت اب موت نہیں ہے اہل دوزخ اب موت نہیں ہے ہر کوئی اس میں رہے گا جس میں ہے۔ (مسند احمد 9/10 احمد شاکر)

(2) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اذا اصار أهل الجنة الجنة و أهل النار النار جئى بالموت حتى توقف بين الجنة والنار ثم يذبح ثم ينادى اهل الجنة خلود لا موت يا اهل النار خلود لا موت داد أهل الجنة فرحًا إلى فرحهم، وازداد أهل النار حزنًا إلى حزنهم۔  (فتح الباری 11/361،62)

اہل جنت، جنت میں اور اہل دوزخ جب دوزخ میں داخل کئے جائیں گے تو موت کو لا کر جنت دوزخ کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا پھر پکارا جائے گا جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں فرق یہ کہ اہل جنت کو فرحت، اہل دوزخ کو غم ملے گا"۔

(مزید تفصیل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم 4/731 تا 744)(جاوید)

[2] جہنم پر ایک دن ایسا بھی آئے گا جس میں اس کے دروازے کھل جائیں گے اور اس میں کوئی نہ ہو گا۔ اس قسم کی تمام روایات غیر معتبر ہیں۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، شبلی نعمانی 4/737 و شفاء العلیل

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:305

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ