السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1) ۔۔۔ علمائے دین و مفتیان شرع متین ارشاد فرمائیں کہ: یہ گروہ مقلدین جو ایک ہی امام کی تقلید کرتے ہیں وہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں یا نہیں؟
2) ۔۔۔ اور ان کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟
3) ۔۔۔ اور ان کو اپنی مسجد میں آنے دینا اور ان کے ساتھ مخالطت اور مجالست جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1) ۔۔۔ ہندوستان میں ایسے مقلدین جن کی ظاہری علامات عاملین بالحدیث سے بغض و عداوت رکھنا، ان پر افتراء و بہتان لگانا، آمین بالجہر، رفع الیدین نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا، امام کے پیچھے الحمد پڑھنا، جو کہ احادیث صحیحہ غیر منسوخہ اور اخبار مرفوعہ غیر مؤولہ سے ثابت ہیں، ان سے ([1]) چڑنا اور مولود و عرس و چہلم جیسی اکثر بدعاتِ شنیعہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں اور دیگر فرق ضالہ جہمیہ و مرجئہ وغیرہما کی مثل ہیں، کیونکہ یہ لوگ صدھا مسائل میں عقیدہ و عملا دونوں طور میں سے اہل سنت والجماعت کے مخالف ہیں، بلکہ ان کے بعض عقائد و اعمال تو صحیح جہمیہ اور مرجئہ کی طرح معلوم ہوتے ہیں جیسا کہ رسالہ ہذا کے ناظرین پر مخفی نہ رہے گا۔ ذیل میں ان کے چند مسائل، عقائد و عملیات کو بطور مشتے نمونہ ازخروارے (ڈھیر سے ایک نمونہ) اپنے دعویٰ کی تصدیق پر بیان کئے جاتے ہیں۔
ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی، بلکہ فاسق، فاجر، انبیاء کرام اور فرشتوں کا ایمان برابر اور یکساں ہے، اور یہ مذہب مرجئہ کا ہے جو کہ فرق ضالہ میں سے ایک فرقہ ہے جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ عقائد میں تحریر کیا ہے۔
کہ جمیع مسائل میں ایک ہی امام کی تقلید واجب اور فرض جانتے ہیں۔ اگرچہ قرآن و حدیث کے خلاف ہو، حالانکہ ایسی تقلید کو علمائے کرام احناف نے شرک لکھا ہے اور آیت کریمہ ﴿ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۔۔۔ (سورة التوبه: 31)" کے تحت مندرج کیا ہے۔
جیسا کہ تفسیر مظہری قاضی ثناءاللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجتہاد ائمہ اربعہ پر ختم ہو گیا ہے اب کوئی دوسرا مجتہد نہیں ہو سکتا، جیسا کہ فتاویٰ درالمختار میں موجود ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو امام اعظم کی تقلید کریں گے، یہ مسئلہ بھی درالمختار 1/34 میں موجود ہے۔ نعوذ بالله من هذه العقائد الفاسدة
1) دارالحرب میں مسلمانوں کو کافروں سے سود لینا درست ہے۔ (شرح وقایہ 3/30 اردو) جیسا کہ ہدایہ مترجم فارسی مطبوعہ نولکشور جلد 3 ص 96 میں ہے۔ (درمختار اردو 3/149 عربی 1/43)
2) اگر کسی کو نکسیر پھوٹے اور خون نہ بند ہو تو اس کو شفا کے لئے اپنی پیشانی پر خون یا پیشاب کے ساتھ قرآن شریف کا لکھنا درست ہے ۔۔ تعظیم قرآن کی ہو تو ایسی ہی ہو!! جیسا کہ (عالمگیری طبع دہلی ج 5 ص 134، عربی 1/154، درمختار 1/120 اردو، عالمگیری 3/404)
3) مشت زنی سے روزہ نہیں ٹوٹتا، جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان جلد اول ص 100 میں موجود ہے۔ (قاضی خان 4/361)
4) اگر کوئی شخص نہایت مضطر ہو اور زنا کا خوف ہو تو اس کو جلق لگانا واجب ہے جیسا کہ ردالمختار حاشیہ درالمختار مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی کے ص 156 میں ہے۔
5) اگر کوئی شخص ذکر پر کپڑا لپیٹ کر روزے کی حالت میں عورت سے جماع کرے، اگر کپڑا سخت ہے تو روزے کی قضا لازم ہے اور نہ ہی غسل واجب ہے جیسا کہ فتاویٰ بَرہَنہ مطبوعہ مطبع حسامی لاہور ج 2 ص 18 میں ہے۔ واہ رے روزے!!
6) اگر کسی شخص نے ایک مغربی مرد اور عورت شرقیہ سے (ایک سال کی مسافت پر ہو) نکاح کرا دیا اور نکاح کے بعد چھ ماہ بعد عورت نے بچہ جنا تو اسی مغربی کی طرف منسوب ہو گا اور اسے کرامت کہا جائے گا۔ اگرچہ میاں بیوی میں ملاقات نہیں ہوئی۔ کرامت ہو تو ایسی ہی ہو!! جیسا کہ فتح القدیر حاشیہ ہدایہ مطبوعہ مطبع نولکشور ج 2 ص 338 میں موجود ہے۔ (تبلیغی بیہشتی زیور ص 240 لاہور)
7) وہ جانور جو سور کے گوشت سے پالا گیا ہو وہ حلال ہے جیسا کہ غایۃ الاوطار ترجمہ اردو درالمختار مطبع نولکشور 4/196 میں موجود ہے۔
8) زنا کی خرچی درست ہے۔ جیسا کہ چلپی حاشیہ شرح وقایہ مطبوعہ مطبع نولکشور ص 298 کے حاشیہ میں ہے۔
9) سور کا چمڑا دباغت دینے سے پاک ہو جاتا ہے اور اس کی بیع جائز ہے جیسا کہ منیۃ المصلی مطبع لاہور ص 32 میں ہے۔ (عربی ص 49 طبع مجتبائی)
10) زکاۃ میں حیلہ سازی درست ہے یعنی اگر کوئی شخص اپنے مال کو سال گزرنے سے قبل اپنی بیوی یا کسی اور کو ہبہ کر دے اس نیت سے زکاۃ نہ دینی پڑے، پھر سال پورا ہونے کے بعد واپس کرے تو جائز ہے۔ امام ابو یوسف ایسا ہی کیا کرتے تھے جیسا کہ (احیاء العلوم عربی نولکشور 1/11، درمختار 1/505، عالمگیری 10/334،335)
11) اگر کوئی شخص چوپائے یا مردے میں دخول کرے اور انزال نہ ہو تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی غسل واجب ہوتا ہے جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان مطبع نولکشور ج1ص 105 میں ہے۔
12) قضائے قاضی ظاہرا و باطنا نافذ ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی کی عورت پر دعویٰ کرے کہ یہ میری بیوی ہے اور قاضی کے سامنے جھوٹی گواہی پیش کر کے مقدمہ جیت لیا اور وہ عورت اس کو مل جائے تو وہ عورت عنداللہ و عندالناس حلال ہو جائے گی اور اس سے صحبت جائز ہو گی اور خدا کے نزدیک مواخذہ میں گرفتار نہ ہو گا۔ (ہدایہ مطبع مصطفائی 2/125، شرح وقایہ 3/59)
13) اگر کوئی شخص تشہد کے بعد قصدا گوز مارے تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ جس طرح کہ (شرح وقایہ عربی مطبع نولکشور میں 43، اردو 1/104)
14) اگر کوئی شخص کسی کی لونڈی گروی رکھے پھر اس سے زنا کرے تو اس پر حد نہیں آتی اگرچہ وہ جانتا ہو کہ یہ لونڈی مجھ پر حرام ہے ۔۔ زنا ہو تو ایسا ہو!! جیسا کہ ہدایہ مترجم فارسی چھاپہ نولکشور ج 2 ص 302-303 میں ہے۔
2) ۔۔۔ نماز ایسے مقلدین کے پیچھے جائز نہ ہو گی، کیونکہ مندرجہ بالا تحریر سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے عقائد اور اعمال اہل سنت والجماعت کے مخالف ہیں، بلکہ بعض عقائد اور اعمال موجب شرک اور بعض مفسد نماز ہیں۔
3) ۔۔۔ ایسے مقلدوں کو اپنی مسجد میں آنے دینا بہ حکم آیت﴿أَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۔۔۔ (سورة البقرة: 199)" شرعا درست نہیں ہے اور بحکم آیت کریمہ ﴿فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾ ۔۔۔ (سورة الانعام: 68)" ان سے مخالطت، مجالست اور شادی و غمی کے مراسم رکھنا حرام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
واضح ہو کہ دہلی شہر میں کمشنر صاحب نے باہم ہر دو فریق میں صلح کرا دی تھی اور اس مضمون کی ایک تحریر جانبین میں طے پائی تھی کہ کوئی شخص دوسرے سے تعرض نہ ہو اور بشرط عدم مفسدات نماز کی رعایت کرتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیا کریں، مگر ان مقلدین نے پھر اس صلح نامہ کے نہ مانتے ہوئے چند لا یعنی قسم کی وجوہات قائم کر کے پھر دہلی شہر میں سابقہ حالات کی مانند موحدین کے خلاف اشتہارات اور رسالہ جات شائع کرنا شروع کر دئیے اور اپنے عہد نامہ کا ذرہ خیال نہ کیا۔
حررہ محمد عبداللہ السنی المحمد الدبکاوی۔
٭ محمد عبداللہ 1298ھ ٭ خادم حسین 1280ھ
٭ محمد ابراہیم 1296ھ ٭ غلام الرحمٰن 1299ھ
٭محمد کیوڑہ 1297ھ ٭ عبدالرحمٰن 1290ھ
٭ محمد مہدی 1299 ٭ الٰہی بخش 1299ھ
٭ کریم بخش 1299ھ ٭ عبدالصمد 1298ھ
٭ عبدالقیوم 1297ھ ٭ خدا بخش 1299ھ
٭ محمد جمیل 1390ھ ٭ عبدالرحیم 1290ھ
٭ عبدالعزیز 1299ھ ٭ محمد عبدالرؤف 1299ھ
٭ محمد اسماعیل 1299ھ ٭ محمد عبدالغفور 1299ھ
بلکہ آمین سے چڑنا یہود کی علامت ہے جیسا کہ ابن ماجہ کے "باب الجہر بآمین" میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود نے تم پر کسی چیز میں ایسا حسد نہیں کیا جیسا کہ آمین کہنے پر کیا ہے۔ پس آمین کہنے میں زیادتی کرو۔ (یعنی خوب زور سے کہو) (ابن ماجہ، البانی 1/142، و صلاۃ الرسول تخریج۔ 257، مولانا عبدالرؤف) (جاوید)[1]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب