السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1) ۔۔۔ "یا عبدالقادر جیلانی شیئا للہ" کو حاضر و ناظر جان کر ورد کرنا جائز ہے یا نہیں اور اس وِرد کا کرنے والا کیسا ہے؟
2) ۔۔۔ بغداد کی طرف رُخ کر کے اور بعض گلے میں کپڑا بھی ڈال کر دست بدستہ ہو کر گیارہ قدم چلتے ہیں اور پیرانِ پیر سے استمداد و استعانت کرتے ہیں، یہ لوگ کیسے ہیں؟
3) ۔۔۔ مال میں اضافہ اور مصائب میں استعانت اور استغاثہ کی خاطر گیارہویں دینا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ اعتقاد محض ایصالِ ثواب کے لئے کیا جائے تو پھر تعیین یوم کیسا ہو گا؟
4) ۔۔۔ جو شخص ان افعال مذکورہ کا مجوزِ و مفتی، مروج، مثبت اور مصر ہو وہ کیسا ہے اس کے پیچھے نماز پڑحنی درست ہے یا نہیں اور اہل سنت والجماعت اور مذاہب اربعہ سے کسی مذہب میں داخل ہے یا نہیں؟
5) ۔۔۔ جو لوگ افعالِ مذکورہ کے مرتکب اور معتقد ہوں ان کے ساتھ مخالطت، مجالست، مواکلت، مشاربت اور مناکحت درست ہے یا نہیں، ان کو "السلام علیکم" کہنا جائز ہے یا نہیں؟
6) ۔۔۔ جو شخص ان اعمال مذکورہ سے مانع ہو اس پر تکفیر، اتہام وھابیت اور انکارِ ولایت اولیاء کا فتویٰ لگانا کیسا ہے اور اس مانع کے پیچھے نماز پڑھنی درست ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۔ قیود سوالات سائل سے صاف ظاہر ہے کہ جس کا یہ عقیدہ ہے وہ مشرک ہے، کیونکہ غیراللہ کو حاضر و ناظر جاننا اور اس کے نام کا اسمائے الٰہی کے مثل درود و وظیفہ کرنا اور اس سے حاجات طلب کرنا اور گیارہ قدم بسوائے بغداد بہ نیت توجہ جانب قبر غوث الاعظم (یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ) آدابِ نماز کی مثل دَست بستہ ہو کر چلنا اور پھر الٹے پاؤں وہی آداب ملحوظ رکھنا جسے اصطلاح مشرکین و مبتدعین میں "نمازِ غوثیہ" اور " ضرب الاقدام " کہتے ہیں۔ نیز غیراللہ سے استمداد و استعانت کرنا اور ان جیسے افعالِ شرکیہ کا مرتکب ہونا مشرکین کا طریقہ ہے، کیونکہ ذات باری عزاسمہ علام الغیوب کے سوا علم غیب کے ثبوت کا عقیدہ کسی نبی یا ولی یا (کسی شخص) یا قطب یا پیر یا مرشد کے ساتھ روا رکھنا، دلیلِ آیات و بینات قرآن مجید، احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور روایاتِ فقہیہ کے مطابق عین شرک ہے۔
1) ...﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّـهُ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ ﴿٦٥﴾... سورة النمل
"کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔"
﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّـهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غـٰفِلونَ ﴿٥﴾... سورة الاحقاف
2) ۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں، بلکہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔"
3) ...﴿وَلا تَدعُ مِن دونِ اللَّـهِ ما لا يَنفَعُكَ وَلا يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٠٦﴾... سورة يونس
"اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کر نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے، پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔"
1) ۔۔۔ "وہ حدیث جاریات" جس میں ایک بچی نے یہ کہا تھا:
وفينا نبي يعلم ما في غد
"اور ہم میں ایک نبی ہے جو آئندہ کل کے واقعات سے باخبر ہے۔"
فقال: دعي هذه و قولي الذي كنت تقولين
"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے چھوڑو، اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھی۔"
2) ۔۔۔ وعن عائشة رضي الله عنها قالت: من اخبرك ان محمدا يعلم الخمس التي قال الله تعاليٰ: إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ... فقد اعظم الفرية. ([1])
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں تم سے جو شخص یہ کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان پانچ چیزوں کا علم تھا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت میں فرمایا ہے: "بےشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا، تو اس نے بہت بڑا جھوٹ باندھا۔"
3) ۔۔۔ قال النبي صلي الله عليه وسلم: والله لا ادري والله لا ادري وانا رسول الله ما يفعل بي ولا بكم. ([2])
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا، اللہ کی قسم میں نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہو گا۔"
4) ۔۔۔ اور بخاری و مسلم میں " حديث الافك " مصرح ہے کہ جب منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو براءتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحقیق میں ایک مدت تک کس قدر توجہ و اہتمام رہا اور بارگاہِ اقدس سبحانہ و تعالیٰ سے نزولِ آیات براءت سے قبل، قلب مبارک سے شکِ ذَنب رفع نہ ہوا، سو جب آیات براءت نازل ہوئیں تب یقین ہوا، اگر آپ کو علمِ غیب ہوتا تو اس قدر رنج و غم اور حادثہ کا اہتمام کیوں ہوتا۔ حدیث میں یہ واقعہ اسی موضوع کے لئے نذیرِ عریان ہے۔ اس ضمن میں اور بھی بہت سی احادیث موجود ہیں۔
ملا علی قاری "الفقہ الاکبر" میں رقمطراز ہیں:
ثم اعلم ان الانبياء لا يعلم المغيبات لمعارضة قوله تعاليٰ: قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ. وقال في البزازيه وغيرها من كتب الفتاوي: من قال ارواح المشائخ حاضرة تعلم يكفر، وقال الشيخ فخر الدين بن سليمان الحنفي في رسالته: ومن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله وأعتقد بذلك فقد كفر (كذا في بحر الرائق) فعلم ان علم الله سبحانه و تعاليٰ ازلي ابدي محيط بما كان وما يكون من جميع الاشياء بقضها وقضيضها و قلها و جلها و نقيرها و قطميرها و صغيرها و كبيرها ولا يخرج من علمه و قدرته شيء لان الجهل بالبعض والعجز عن البعض نقص و افتقار، وهذه النصوص القطعية ناطقة لعموم علمه و شمول قدرته فهو بكل شيء عليم وهو علي كل شيء قدير. (فقه اکبر: 181)
"جان لیجئے! کہ انبیاء کرام غیب نہیں جانتے کیوں کہ وہ اس فرمان الٰہی کے معارض ہے: "کہہ دیجئے کہ آسمانوں و زمین کا غیب اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔" بزازیہ اور دیگر کتب فتاویٰ میں ہے: جس نے کہا مشائخ کی ارواح حاضر جانتی ہیں وہ کافر ہو گیا۔ شیخ فخر الدین بن سلیمان الحنفی اپنے رسالہ میں کہتے ہیں کہ: جس نے یہ خیال کیا کہ میت اللہ کے سوا امور میں تصرف کرتی ہے اور اس کا عقیدہ بھی یہی ہوا تو وہ کافر ہو گیا۔ (بحر الرائق) تو معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا علم ازلی و ابدی ہے اور " ما كان وما يكون " قص و قضیض، قلیل و کثیر، نقیر و قطمیر، صغیر و کبیر ہر چیز پر حاوی ہے اور اس کے علم و قدرت سے کوئی چیز بھی نکل نہیں سکتی اس لئے کہ کسی چیز سے ناواقفیت اور کسی چیز سے عاجزی نقص و عیب ہے اور یہ نصوص قطعیہ باری تعالیٰ کے عموم علم اور اس کے شمولِ قدرت کو قطعی ناطق ہیں، سو وہ ہر چیز کو جاننے والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔"
پس یہ علم اور قدرت ذات باری عالم الغیب، قادر مطلق کا خاصہ ہے، اس میں نبی یا ولی کو شریک کرنا عین شرک ہے۔ اور جو بعض امورِ غائبہ پر انبیاء علیہم السلام یا اولیائے کرام کو انکشاف ہوا ہے وہ محض بذریعہ وحی اور الہام الٰہی کی اطلاع سے ہوا۔
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ وَلا يُحيطونَ بِشَىءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ ...﴿٢٥٥﴾... سورة البقرة
"اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے، مگر جتنا وہ چاہے ۔۔"
اور یہ علم جو باعلام حق و سبحانہ و تعالیٰ مقربان خاص الخاص کو ہوتا ہے، اگرچہ یہ ذاتِ سید کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بہ نسبت دوسرے انبیاء عظام اور اولیائے کرام بوجہ اکمل ہے، لیکن علام الغیوب کے علم سے مماثل نہیں ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّـهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ ... ﴿٥٠﴾... سورة الانعام
"کہہ دیجئے! نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔"
امام فخر الدین الرازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر کبیر میں، اس آیت قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ کے تحت رقمطراز ہیں:
انه لمابين انه المختص بالقدرة فكذلك بين انه المختص بعلم الغيب ... والآية سيقت لاختصاصه تعاليٰ بعلم الغيب وان العباد لا علم لهم بشيء منهم، واما قوله “وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ” صفة لاهل السموات والارض نفي ان يكون لهم علم الغيب. انتهي مختصرا (تفسیر سورۃ الانعام: 50)
"کہ جب اس نے یہ واضح کر دیا کہ تقدیر کے ساتھ وہی مختص ہے ایسے ہی یہ بھی بیان کر دیا کہ علم غیب کے ساتھ بھی وہی خاص ہے، اور آیت اختصاص باری تعالیٰ ہی بتاتی ہے کہ وہ غیب دان ہے اور بندوں کو اس کا کچھ بھی علم نہیں رہا، یہ فرمان باری ہے کہ "انہیں تو خبر نہیں وہ کب اٹھائے جائیں گے" آسمانوں اور زمین میں رہنے والوں کی یہ صفت ہے کہ اس نے ان سے علم غیب کی نفی کی ہے۔"
2) ۔۔۔ گیارہ قدم چلنا اصطلاح اہل شرک و بدعت میں "صلاۃ غوثیہ" ہے اور اسے " ضرب الاقدام " بھی کہتے ہیں، یہ بھی شرک ہے، کیونکہ نماز معبودِ حقیقی کے لئے خاص عبادت ہے۔ اس وحدہ لا شریک لہ کے علاوہ عبادت، مدنی یا مالی شرک ہے اور فاعل مشرک ہے۔
3) ۔۔۔ گیارھویں جو اہل بدعت کے ہاں معمول بہ مہتمم بالشان بہ نیت نذر غیراللہ اور تقرب غیراللہ ہے وہ بھی شرک ہے، کیونکہ عبادت مالی بھی غیر معبود برحق کے لئے حرام اور شرک ہے اور اگر نیت ایصالِ ثواب کی ہو تو خالصا لوجہ اللہ دے کر بلا تعیینِ دن ایصالِ میت کریں اور گیارہویں کا نام زائل کرنا واجب ہے، کیونکہ یہ نام اہل شرک و بدعت کا رکھا ہوا ہے۔ اگر کوئی خالص نیت سے گیارھویں کا نام رکھ کر ایصال کرے تو بھی اہل توحید و سنت کے نزدیک محل تہمت ہے اور مواضع تمت سے بچنا بھی ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
4) ۔۔۔ جو شخص ان امورکا مجوِز، مفتی اور مروج ہے۔ العیاذ باللہ منہ، وہ راس المشرکین ہے یعنی اپنے تابعین مشرکین کا رئیس ہے اس کے پیچھے نماز درست نہیں اور جبکہ وہ دائرہ توحید و سنت سے خارج ہو گیا تو مذاہبِ اربعہ میں سے کس مذہب میں داخل رہا۔
5) ۔۔۔ جن لوگوں کا یہ عقیدہ بد اور ایسے افعال شرکیہ بدعیہ ہیں، جب تک وہ تائب نہ ہو جائیں ان سے معاملہ ترک کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے:
من احب لله و ابغض لله و اعطي لله و منع لله فقد استكمل الايمان (ابوداؤد، کتاب السنه، حدیث 4681 و جامع الصغیر 6/29)
6) ۔۔۔ جو شخص ان افعالِ شنیعہ سے مانع ہے وہ موحد سنی محب اولیاء ہے، قابل امامت ہے اور اس کی امامت اولی اور انسب ہے اور اس کی تکفیر خود مکفر کی تکفیر ہے۔
والله تعاليٰ اعلم و علمه اتم
حررہ الفقیر/محمد حسین الدہلوی عفا اللہ عنہ ((فقیر محمد حسین))
٭ كيف يكون عبدا مسا ويا لله جل جلاله و عز اسمه لان الله كبيرا المتعال ذالعظمة والجلال موجد و معطي العلم للعباد وهم الآخذون منه والمحتاجون اليه في الدنيا والآخرة۔ كتبه محمد ابراهيم الدهلوي
"کوئی بندہ اللہ جل جلالہ، و عزاسمہ کے مساوی کیونکر ہو سکتا ہے، اس لئے کہ اللہ کریم کبیر المتعال، ذوالعظمۃ والجلال، موجد اور اپنے بندوں کو علم عطا کرنے والا ہے اور وہ اسی سے اخذ کرنے والے اور دنیا و آخرت میں اس کے محتاج ہیں۔ يقال له ابراهيم
٭ قادر علی عفی عنہ ((قادر علی عفی عنہ))
٭ اولا معلوم ہو کہ قرآن، فرقان و کلام رحمٰن جو اشرف المخلوقین پر نازل ہوا تو محض اسی عقیدہ کی درستگی کے لئے نازل ہوا ہے۔ مشرکین کے عقائد، اللہ تعالیٰ و رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک برے تھے ورنہ وہ۔ في زعمهم الباطل ۔ اپنے آپ کو تابعین ابراہیم علیہ السلام کہلاتے تھے اور حج بیت اللہ اور طواف و صوم وغیرہ عبادات کرتے تھے، لیکن ان کے عقائد برے تھے کہ انبیاء و اولیاء کی تصاویر بنا کر ان کی تعظیم اور نذر و نیاز کرتے تھے۔ كما اخبر الله سبحانه في عدة مواضع و ليست بمخفية علي من له ادني مس من القرآن والحديث ۔ جس طرح کہ آج کل کے مسلمان تمام عبادات یعنی صوم و صلاۃ و حج وغیرہ بجا لاتے ہیں اور اولیاء و انبیاء کے حق میں ایسے عقائد رکھتے ہیں جیسا کہ سائل نے بیان کیا اور مجیب۔ استعمله الله لما يحب و يرضي ۔ نے جواب دیا تو حقیقت میں یہ لوگ مشرک باللہ ہیں۔ وان صلوا و صاموا وزعموا انهم مسلمون ۔ جس طرح سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی عبادات قبول نہیں فرمائیں اور عقیدہ کی درستگی کا حکم دیا ویسے ہی جب تلک آج کل کے مسلمان بھی فرمانِ خدا و رسول کے موافق عقیدے درست نہ کریں گے کوئی عبادت قبول نہ ہو گی۔ واللہ اعلم ۔۔۔
حررہ العاجز/ابو محمد عبدالوھاب الفنجابی
٭ ایسا عقیدہ رکھنے والا سرے سے اسلام میں داخل نہیں چار مذاہب کا کیا ذکر ہے ۔۔۔ کریم الدین عظیم آبادی
٭ رد شرک اور نداء غیراللہ کے سلسلہ میں دونوں مجیبوں کا جواب واقعی صحیح ہے نیز غیراللہ کی طرف جھکنا اور جھک کر سلام کرنا یا جواب دینے کو شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے سختی سے منع کیا ہے اور لکھا کہ بعض علماء کو جھکتے دیکھ کر دھوکہ میں نہ آئیں۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ
ابو محمد عبدالوھاب رسول الاداب خادم شریعت
٭ ایسا عقیدہ صریح کفر اور شرک ہے۔ عبدالکریم بنگالی
٭ الجواب صحیح۔ عبدالحمید عفی عنہ عظیم آبادی
٭ الجواب صحیح۔ محمد زین الدین ساکن شہر بدایون حنفی المذہب
٭ جواب بہت صحیح ہے، جو شخص ایسا عقیدہ رکھے یا رواج دے وہ بلا ریب مشرک ہے۔ ولی محمد فیض آبادی
٭ مصطفیٰ خان سوتری
٭ غلام حسین، ضلع مونگیر ((غلام حسین))
٭ ھذا الجواب صحیح۔ محمد دبیر الرحمٰن بنگالی
٭ ابو محمد تائب علی
٭ اس طرح کا اعتقاد رکھنے والا، فتویٰ دینے والا چاروں مذاہب میں لا ریب ولا شک فیہ کافر اور مشرک ہے۔ ابو اسماعیل یوسف خان پوری پنجابی
٭ ھذا الجواب صحیح۔ بخش پوری ثم اعظم گڑھی
٭ جواب صحیح ہے۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک ایسا عقیدہ بےشک کفر اور شرک ہے۔ محمد عبدالحکیم عفی عنہ
٭ محمد عبدالغفور غزنوی رحمۃ اللہ علیہ امرتسری
٭ سید محمد عبدالسلام غفرلہ
٭ سید محمد ابو الحسن
٭ محمد عبدالحمید جلیری
٭ ایسا عقیدہ رکھنا سراسر شرک اور کفر ہے اس کے معتقد کو اسلام میں ہرگز کوئی حصہ و نصیب نہیں ہے۔ رحیم اللہ پنجابی۔
٭ اس عقیدہ والا شخص جیسا کہ سائل نے لکھا ہے بےشک کافر اور مشرک ہے، چاروں مذاہب سے خارج ہونا تو برکنار ہے ۔۔۔ نور محمد
٭ جس شخص کا یہ عقیدہ ہے وہ شخص بلاشبہ مشرک ہے۔ کما ثبت۔ رحمت اللہ دنیا پوری
٭ المجیب مصیب۔ نمقہ علی احمد بن مولوی محمد سامرودی عفی عنہ الصمد
٭ جس کا یہ اعتقاد ہے بلاشک سب اماموں اور صحابہ کے نزدیک کافر ہے۔ مسکین فضل الٰہی
٭ الجواب صحیح والراری نجیح۔ محمد حمایت اللہ عفی عنہ جلیری
[1] (فتح الباری 2/524، احمد 2/122)
[2] (مشکوٰۃ فتح الباری 3/114، 12/410، مصابیح السنہ 3/451)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب