السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمائے دین ارشاد فرمائیں کہ ایک نابالغہ لڑکی کے دو ولی ہیں، ایک اقرب یعنی باپ اور دوسرا ابعد۔ اور ولیِ ابعد ہمیشہ اس لڑکی کی خبر گیری کرتا رہا اور ہر طرح سے سلوک و پرورش کی اور نہایت شفقت سے رکھا اور وہ دیندار و عاقل بھی ہے جبکہ ولی اقرب نے کبھی اس سے سروکار نہیں رکھا اور نہ ہی کبھی اس کی خبر گیری کی بلکہ جہاں اس پر کبھی دستِ شفقت نہیں رکھا وہاں فاسق و بے ہودہ بھی ہے۔
اب ولی ابعد اس کا ایک جگہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو ولی اقرب مانع ہے جس میں سراسر لڑکی کا نقصان متصور ہے، کیا اس کا منع کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ اور اس کی اجازت کے بغیر ولی ابعد اس کا نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ بينوا توجروا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جان لیجئے کہ شرع میں ولایت کی بنیاد صغیرین کی خیرخواہی و شفقت اور ولی کی عقل پر ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ صغیرین کی عقل ناقص و غیر، تام ہوتی ہے۔ اگر ان کو تصرفات کا اختیار حاصل ہو تو وہ اپنی بے عقلی کے سبب اپنا بہت نقصان کر لیں۔ اس لئے ان کو تمام قسم کے تصرفاتِ جانی و مالی جیسے نکاح و بیع اور ہبہ وغیرہ سے شارع نے روک دیا ہے اور ان کی باگ ایک شخص کے ہاتھ میں دی ہے جو ان کا سب سے زیادہ خیر خواہ اور مشفق و عاقل ہے، تاکہ ان کے حق میں اپنی فہم کے مطابق بہتر معاملہ کرے اور ضرر سے محفوظ رکھے۔ اس میں سراسر لحاظ صغیرین کی بہبود کا رکھا گیا ہے اس سبب سے جو شخص اگرچہ بالغ لیکن مسرف و احمق اور بے عقل ہو تو اس کو بھی شارع نے اسی مآل اندیشی کے لحاظ سے جو صغیرین میں ملحوظ رکھی ہے تمام تصرفات سے منع کر دیا ہے۔ ہدایہ میں ہے:
"باب الحجر الفساد: قال ابو حنيفة رحمة الله عليه لا يحجر علي العاقل البالغ السفيه و تصرفه في ماله جائز و ان كان مبذرا مفسدا يتلف ماله فيما لا غرض به فيه ولا مصلحة. وقال ابو يوسف و محمد وهو قول الشافعي يحجر علي السفيه و يمنع من التصرف في ماله لانه مبذر ماله بصرفه لا علي الوجه الذي يقتضيه العقل فيحجر عليه نظرا له اعتبارا بالصبي بل اولي لان الثابت في حق الصبي احتمال التبذير وفي حقه حقيقة ولهذا منع عنه المال" (هدایه 3/353)
"فساد کے باعث تصرفات سے روکنے کا سبب ۔۔۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: عاقل بالغ نادان کو روکا نہیں جائے گا اور اس کا مال میں تصرف جائز ہے۔ اگرچہ وہ مسرف، مفسد اور اپنے مال کو بلاغرض و مصلحت تلف کرنے والا ہو اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ و محمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: نادان کو اپنے مال میں تصرف سے روکا جائے گا اس لئے کہ وہ اپنے مال میں اسراف کرنے والا ہے اور اس میں عقلمندانہ تصرف نہیں کرے گا۔ سو ان باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اور بچے کا اعتبار کرتے ہوئے اسے تصرفات مالی سے روک دیا جائے گا بلکہ اسے روکنا زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ بچے کے متعلق تو اسراف کا احتمال ہے جبکہ اس کے بارے میں اسراف یقینی امر ہے جس کے باعث اسے روک دیا جائے گا۔"
اور اس کا نام ولی رکھا، کیونکہ ولی لغت میں دوست و خیرخواہ کو کہتے ہیں، چنانچہ تسمیہ میں بھی مقصود کا خیال رکھا گیا ہے جیسا کہ ہدایہ ([1]) میں ہے:
" باب الولي: وهو لغة: خلاف العدو، وشرعا: البالغ العاقل الوارث. كذا في درالمختار ملخصا. ولنا ما ذكرنا من تحقق الحاجة و وفور الشفقة."
"ولی لغت میں، دشمن کے برعکس بولا جاتا ہے اور شرع میں: بالغ، عاقل اور وارث کے لئے۔" (درمختار) ([2])
اور اس وجہ سے غیر عاقل کی بجائے عاقل کو ولی بنایا گیا ہے جیسا کہ درمختار کی عبارت سے ظاہر ہے، كما لا يخفي علي الماهر بالشريعة ۔ اسی لئے ولی کو صرف ان تصرفات کا اختیار ہے جن میں صغیرین کا نفع متصور ہو اور جن میں صغیرین کا سراسر ضرر ہو اس سے ولی کو منع کیا اور اجازت نہیں دی، جیسا کہ صغیرین کے مال کو عاریتا دینا یا ہبہ کرنا یا اس کے مال سے اپنے ہبہ کا عوض لینا جیسا کہ ہدایہ میں ہے:
" لانه يملك عليه الدائربين النافع والضار فاولي ان يملك النافع " ([3])
"اس لئے کہ وہ نفع و نقصان کرنے والی اشیاء کے مابین گردش کرنے والی چیز کا مالک ہے۔ دونوں کا احتمال ہے، سو بہتر ہو گا کہ وہ نفع دینے والے تصرفات کا مالک ہو۔"
اور درمختار شرح تنویر الابصار میں ہے:
" وليس للاب اعارة مال طفله لعدم البدل "
"باپ کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کا مال ادھار لے کہ اس کا بدل نہیں ہے۔"
مزید درمختار ہی میں ہے:
" لا يجوز للاب ان يعوِض عما وهب للصغير من ماله "
"باپ کے لئے جائز نہیں کہ بچے کے مال سے عوض لے اس کے باعث اس نے جو اسے ہبہ کیا تھا۔"
اسی وجہ سے جب ولی خائن، مفسد اور نقصان کرنے والا ہو۔ یعنی اس کی ولایت میں صغیرین کی حق تلفی کا امکان ہو، اگرچہ وہ باپ ہی ہو تو وہ ولی نہیں رہے گا اسے ولایت سے موقوف کر دیا جائے گا:
" الاب ولي اشفق مالم يكن مفسدا او خائنا منهكا." (فتاویٰ غیاثیه)
"باپ مشفق ولی ہوتا ہے، جبکہ وہ مفسد، خائن اور تلف کرنے والا نہ ہو۔"
کیونکہ ولایت کی غرض مفقود ہو گئی۔ کمامر سابقاء اور اس سبب سے ولایت میں قرب قرابت کا لحاظ رکھا جو کہ ازروئے قرابت صغیرین کے سب سے قریب ہو اس کو ولی بنایا پھر اقرب فالاقرب، کیونکہ اقرب میں باعتبار اَبعد کے زیادہ شفقت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ عبارت ذیل سے ظاہر ہے:
" والترتيب في العصبات في ولاية النكاح كالترتيب في الارث فالابعد محجوب بالاقرب." (هدایه 2/316) ([4])
"ولایت نکاح میں عصباث کی ترتیب وراثت میں ترتیب کی مانند ہے، سو قریب والا دور والے کے لئے حاجب ہو گا۔"
خلاصہ اس بحث کا یہ ہے کہ جس کو زیادہ شفقت ہو وہی ولی ہو گا ولایت کی بنیاد شفقت ہے، جس میں شفقت کم ہے وہ اس کے مقابلہ میں جس کی شفقت کامل ہے ولی نہیں بن سکتا۔ اسی وجہ سے بھائی وغیرہ کی ولایت لازم نہیں، کیونکہ اس کی شفقت قاصر ہے جیسا کہ عبارت ذیل سے عیاں ہے:
" ولهما ان قرابة الاخ ناقصة والنقصان يشعر بقصور الشفقة ليتطرق الخلل الي المقاصد. (هدايه)" ([5])
"اور دونوں کے نزدیک بھائی کی قرابت ناقص ہے اور نقصان کی خبر شفقت کی کمی سے ہوتی ہے تاکہ خلل مقاصد تک پہنچ سکے۔"
سو جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ولایت کی اساس شفقت اور صغیرین کے فائدہ پر منحصر ہے۔ كما لا يخفي علي من له ادني دراية ...
تو میں کہتا ہوں:
کہ صورتِ مسئولہ میں ولی اقرب کی عدم شفقت اور ولی ابعد کی شفقت کالشمس فی نصف النھار واضح و لائح ہے کیونکہ اگر اس کو تھوڑی سی شفقت و محبت ہوتی تو وہ کبھی کبھار نابالغوں کی خبرگیری ضرور کرتا اور بالکل بے سروکار نہ رہتا۔ اس کا اس طرح بے تعلق رہنا صراحۃ عدمِ شفقت پر دال ہے۔ كما لا يخفي من له ادني تامل ۔ اور نابالغہ کا ضرر بھی اس کی ولایت میں متصور ہے۔ جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے اور حالانکہ ولایت سے مقصود صغیرین کا فائدہ ہے نہ کہ ضرر، كما مر مفصلا مدللا ۔ پس وہ اقرب ولی کیونکر بن سکتا ہے۔ كما لا يخفي علي من فقهه الله في الدين ، نیز وہ فاسق بھی ہے۔ اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
غاب الولي او عضل او كان الاب والجد فاسقان ([6]) فللقاضي ان يزوجها من كفؤ. (كذا في الوجيز الكروري)
"کہ ولی غائب ہو گیا یا علیحدہ ہو گیا یا باپ دادا دونوں فاسق ہیں تو قاضی کو حق حاصل ہے کہ اس عورت کا کفو (مساوی) سے نکاح کر دے"
واللہ اعلم بالصواب۔ قد حررہ العاجز المھین محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی
٭ الجواب صحیح۔ کتبہ ابو محمد عبدالرحمٰن الفنجابی
٭ محمد یوسف 1303ھ
٭ عبدالرؤف 1303ھ
٭ ابو محمد عبدالحق 1305ھ
٭ سید محمد عبدالسلام غفرلہ 1299ھ
٭ خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب
٭ محمد طاہر سلہٹی 1304ھ
٭ جواب ہذا صحیح ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ
٭ الجواب صحیح۔ ابو القاسم محمد عبدالرحمٰن غفرلہ الرحمٰن
[1] در المختار 2/143
[2] در المختار 2/143
[3] ہدایۃ 4/271
[4] ہدایۃ 2/361
[5] ہدایۃ 2/338 (لاہور)
[6] فتاویٰ عالمگیری (عربی) 1/285، اردو 2/159
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب