سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) یا رسول اللہ ﷺکہنے کی شرعی حیثیت

  • 23980
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 7340

سوال

(13) یا رسول اللہ ﷺکہنے کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین ارشاد فرمائیں کہ "یا رسول اللہ" کہنا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ بعض علماء اس کے جواز میں بڑے بڑے دلائل پیش کرتے ہیں؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(ماہرین) علم پر مخفی نہیں کہ کسی کو ندا کرنا یعنی پکارنا اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ شخص بالذات یا بالواسطہ اس پکار کو سنے۔ بالذات یہ کہ اپنے کان سے سنے یعنی وہاں پر حاضر ہو اور بالواسطہ یہ کہ خط میں لکھے اور وہ خط اس شخص کو پہنچے یا کسی کی معرفت سنے، جیسا کہ عرف میں ہے کہ خطوط میں مخاطب کو ندا کرتے ہیں اور جو شخص نہ حاضر ہو نہ بواسطہ خط اور نہ کسی معرفت اس کو خبر دی جائے۔ ایسے شخص کو اگر کوئی پکارے تو ماسوا احمق کے اسے کیا کہا جا سکتا ہے۔ جیسے کوئی شخص دہلی میں رہ کر اس شخص کو پکارے جو لکھنؤ میں ہے کہ "اے فلاں" تو لوگ اسے سوائے دیوانے کے اور کیا کہیں گے۔

سو ندا کرنا یعنی "یا فلاں" کہنے کے لئے ضروری ہے کہ یا وہ شخص خود اپنے کانوں سے سنتا ہو یا بذریعہ خط، یا کسی شخص کی معرفت اسے اس پکار کی خبر ہو ورنہ ندا صحیح نہیں ہے۔ كما لا يخفي

علم غیب صرف اللہ کی صفت ہے:

تو "یا رسول اللہ" کہنا جب ہی درست ہو سکتا ہے کہ یہ امر ثابت ہو کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور ان کو غیب کی خبر ہے یا کوئی شخص ان کو اس پکار کی خبر دیتا ہے اور ان دونوں باتوں میں سے ایک بات بھی ثابت نہیں ہے، بلکہ بالکل غلط ہے۔ اول اس لئے کہ ہر جگہ سے سننا اور غیب کی باتیں جاننا سوائے اللہ کے اور کسی کی صفت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ماسوا اللہ کے دوسرے میں بھی یہ صفت ثابت کرے تو وہ قطعی مشرک ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ...﴿٥٩﴾... سورةالانعام

"اور غیب کی کنجیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں اور بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔"

اور فرمایا:

﴿قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّـهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ...﴿٥٠﴾... سورةالانعام

"آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔"

مزید اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّـهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ ...﴿١٨٨﴾... سورة الاعراف

"آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سا منافع حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔" ([1])

اور اللہ تعالیٰ اپنے تئیں مدح فرماتا ہے جو اختصاص پر دلالت کرتا ہے ارشاد ہے:

﴿أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَعلَمُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ما يَكونُ مِن نَجوىٰ ثَلـٰثَةٍ إِلّا هُوَ رابِعُهُم وَلا خَمسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُم وَلا أَدنىٰ مِن ذٰلِكَ وَلا أَكثَرَ إِلّا هُوَ مَعَهُم أَينَ ما كانوا ...﴿٧﴾... سورة المجادلة

"کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے، تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں:

اور اس مضمون میں بیسیوں آیات و احادیث وارد ہیں کہ ہر جگہ سے سننا اور غیب جاننا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ کسی دوسرے کو اس کی مجال ہی نہیں اور تمام علماء اور اہل سنت اس کو تسلیم کرتے ہیں اور تمام کتب دینیہ اس مضمون سے بھری پڑی ہیں۔ میں کہاں تک نقل کروں کہ یہ مشتی نمونہ ازخروار (ڈھیر سے ایک نمونہ) ہے۔

منجملہ ان احادیث کے ایک حدیث کوثر ہے کہ بعض طالبیین آبِ کوثر پر وارد ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے، ان کو آنے دو یہ میرے اصحاب ہیں۔ تب فرشتے کہیں گے " لا تدري ما احدثوا بعدك " آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا ہے۔ تو آپ ہی فرمائیں گے " سحقا سحقا لمن غَيَّرَ بعدي " اللہ کی رحمت سے دوری ہو، دوری ہو، جس شخص نے میرے بعد تبدیلی کی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کو علم غیب نہیں ہے، ورنہ ان کے "محدثات" (نئی ایجاد کردہ چیزوں) کو جان لیتے۔

اور دوسرا امر بھی کہیں ثابت نہیں ہے کہ: جو کوئی "یا رسول اللہ" کہتا ہے تو اس کی یہ پکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی جاتی ہے، جو کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے وہ ثبوت مہیا کرے۔ حدیث میں سینکڑوں جگہ آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ "میں غیب نہیں جانتا" پھر "یا رسول اللہ" کہنا صریح شرک نہیں تو اور کیا ہے، جو اس کے جواز کا مدعی ہے اسے لازم ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت کرے ورنہ بے دھڑک دین میں کوئی بات نہ کرے اور جاہلوں کو گمراہ نہ کرے۔ نعوذ بالله منها

"یا رسول اللہ" کہنے والوں کے دلائل اور ان کا رد:

اب ان کٹ ملاؤں کے وہ دلائل ذکر کرتا ہوں جن سے وہ "یا رسول اللہ" کہنا درست بتاتے ہیں پھر اس کا شافی جواب بیان کروں گا۔

پہلی دلیل:

یہ کہ قرآن میں ندا ہے۔

جواب:

وہ تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو پکارتا ہے۔ اور اس پکار کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بواسطہ جبرائیل علیہ السلام کے ہوتی تھی کیونکہ قرآن حضرت جبرائیل علیہ السلام لے کر آتے تھے اور مسلمان جو پڑھتے ہیں وہ اللہ کا کلام نقل کرتے ہیں، خود مسلمان ندا نہیں کرتے کہ یہ استدلال ممکن ہو، جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کا خط پڑھے تو جو اس خط کا مضمون ہو گا وہ پڑھنے والے کا نہیں بلکہ خط لکھنے والے کا ہو گا پھر اس سے دلیل پکڑنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔

دوسری دلیل:

ہم التحیات میں پڑھتے ہیں۔ السلام عليك ايها النبي ۔ یہ ندا نہیں تو اور کیا ہے

جواب:

اس کا جواب بھی وہی ہے کہ یہ بھی کلام، اللہ تعالیٰ کا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں خطاب کر کے فرمایا تھا۔ مسلمان اسی کی نقل کرتے ہیں، چنانچہ حدیث معراج میں مفصلا مذکور ہے۔ غرضیکہ کہیں حدیث یا فقہ میں موجود ہو کہ یا رسول اللہ کہنا جائز ہے تو ایسا کہنے والا کتب معتبرہ سے دلیل لائے یا پھر عقیدہ فاسدہ سے رُک جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

٭ قد نمقہ العبد المساکین محمد یٰسین الرحیم آبادی عفی عنہ

٭ الجواب صحیح۔ فقیر محمد حسین

٭ الجواب صحیح۔ ابو القاسم محمد عبدالرحمٰن تغمدہ اللہ تعالیٰ بالغفران

٭ صورتِ مسئولہ میں معلوم کرنا چاہیے کہ ہر فرد بشر پر یہ لازم ہے کہ تمام افعال و اقوال میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اتباع کرے اور یہ بھی واضح ہوا کہ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ان جملہ امور میں جو آپ نے کئے ہیں لازم ہے ویسے ہی ان میں بھی لازم ہے جو افعال و اقوال آپ نے نہ تو کئے اور نہ فرمائے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بطور درود و وظیفہ کے کسی کو سکھلائے ہوں، کما افاد الشیخ/عبدالحق الحضی المحدث الدہلوی۔ اور یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ جس قدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی کسی شخص کو نہ ہوئی ہو گی، کیونکہ حضرات صحابہ فرماتے ہیں کہ:

لم يكن شخص أحب إليهم من النبي صلى الله عليه وسلم وكانوا إذا رأوه لم يقوموا له لما يعلمون من كراهته لذلك. كذا في المشكاة وهذا حديث حسن صحيح. (ترمذی احمد شاکر 5/40، مصابیح السنة 3/286)

"کوئی شخص بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر محبوب نہ تھا، اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے کھڑے نہ ہوتے تھے، کیونکہ وہ اس میں آپ کی کراہت کو جانتے تھے۔"

اور یا رسول اللہ کہنا نہ صحابہ نہ تابعین نہ تبع تابعین اور نہ ہی چاروں اماموں سے کہنا ثابت ہے اور جو کام قرونِ ثلاثہ میں مروج نہ تھا وہ بدعت ہے اور اس کام کا کرنے والا گمراہ ہے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ

من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد. (كذا في البخاري و مسلم وغيرهما من كتب الحديث) (بخاری 5/301، مسلم 3/1344)

"جس نے ہمارے اس (دین) کے معاملہ میں کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا جو اس میں نہ ہو وہ مردود ہے۔"

تو لامحالہ غیراللہ کو خواہ رسول ہو یا ولی ہو یا شہید ہو، مردہ ہو یا زندہ غائبانہ پکارنا ہرگز ہرگز درست نہیں، جو ایسا کرے وہ گمراہ ہے۔

تمام مومنین کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ بھائیو! درود شریف کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو ایک بار مجھ پر درود شریف پڑھتا ہے اس پر اللہ کی دس بار رحمت ہوتی ہے۔ یا رسول اللہ کہنے میں اللہ و رسول ہرگز راضی نہیں ہوتے۔

حررہ عاجز/ابو محمد عبدالوھاب الفنجابی۔

اسمائے گرامی مؤیدین علماء کرام:

٭ محمد طاہر 1304ھ

٭ سید محمد عبدالسلام 1299ھ

٭ ابو محمد عبدالحق 1305ھ

٭ محمد یوسف 1303ھ

٭ خادم شریعت رسول الاداب 1300ھ ابو محمد عبدالوھاب

٭ عبدالرؤف 1303ھ

٭ جواب ھذا صحیح ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ


[1] (1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا لگنا اور آپ کا پریشان رہنا (2) سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہونا (3) ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قتل کر دیا جانا جن کو دعوتِ اسلام کے لئے بھیجا گیا تھا۔ (4) قیامت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ہی جانتا ہے کہ کب قائم ہو گی۔ (5) طائف اور جنگِ اُحد میں آپ کا زخمی ہونا۔ (6) ان شاءاللہ نہ کہنے کی وجہ سے وحی کا کچھ دن بند رہنا ۔۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحبِ غیب تھے تو ان واقعات کا کیا معنی ہے؟ (جاوید)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:181

محدث فتویٰ

تبصرے