السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علماء دین ارشاد فرمائیں کہ جب فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے اس وقت دو رکعت دو رکعت سنتِ فجر ادا کر لی جائیں یا جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جائے؟ اور شاملِ جماعت ہونے کی صورت میں سنتیں طلوع آفتاب سے قبل یا بعد از طلوع ادا کی جائیں؟ بینوا توجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بموجب فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سنت نہ پڑھے، بلکہ جماعت میں شامل ہو جائے جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة) ([1])
"جس وقت نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہے۔"
(ثم زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دينار فى قوله صلى الله عليه وسلم: إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة، قيل يا رسول الله! الا ركعتى الفجر؟ قال لا ركعتى الفجر (اخرجه ابن عدى) (مسلم 1/46-234، بیہقی 2/483)
"پھر مسلم بن خالد حضرت عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے: جب جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! کیا اس وقت دو رکعت سنت فجر کی بھی نہ پڑھے؟ فرمایا: نہ ہی دو رکعت سنتِ فجر۔ (ابن عدی)
اور بخاری میں عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
(أن رسول الله - صلى الله عليه وعلى آله وسلم - رأى رجلاً , وقد أقيمت الصلاة يصلي ركعتين، فلما انصرف رسول الله – صلى الله عليه وعلى آله وسلم آالصبح أربعًا ؟ آالصبح أربعًا ؟) (فتح الباری 2/148)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو جماعت کے کھڑے ہوئے دو رکعت سنت ادا کر رہا ہے تو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے (تو فرمایا) کیا تو صبح کی نماز چار رکعت پڑھتا ہے؟ کیا تم صبح کی نماز چار رکعت پڑھتے ہو؟"
(عن ابن عمر رضى الله عنه ابصر رجلا يصلى الركعتين والمؤذن يقيم فصبه، و قدورى عن عمر رضى الله عنه انه كان اذا رجلا يصلى وهو يسمع الاقامة ضربه، عن طريق عطية قد رأيت ابن عمر رضى الله عنه قضاهما حين سلم الامام) (بیہقی 2/483)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ دو رکعت ادا کر رہا ہے اور مؤذن اقامت کہہ رہا ہے تو حضرت عبداللہ نے اس کو کنکر مارا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے درآنحالیکہ وہ اقامت سن رہا ہے تو اس کو مارتے۔ عطیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ فجر کی سنتوں کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کیا۔"
اور مزید حضرت قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
(خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقيمت الصلاة فصليت معه الصبح ثم انصرف النبى صلى الله عليه وسلم فوجدنى اصلى فقال مهلا يا قيس! أصلاتان معا قلت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم انى لم اكن ركعت ركعتى الفجر قال فلا اذا.) (مسند حمیدی 2/383، مغنی ابن قدامہ 2/119)
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف فرما ہوئے اور فجر کی جماعت کھڑی ہوئی تو میں نے آپ کے ساتھ فجر کی نماز فرض پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا! ٹھہر جاؤ اے قیس رضی اللہ عنہ! کیا تم دو نمازیں ایک ساتھ پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے دو رکعت سنت فجر نہیں پڑھی تھی، تو آپ نے فرمایا، اگر ایسا ہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
روایات مذکورہ بالا سے فرض جماعت کے کھڑے ہونے کے وقت جماعت میں شامل ہونا اور جماعت کے بعد سنتوں کا قبل از طلوعِ آفتاب پڑھنا بھی ثابت ہوتا ہے اگر کوئی طلوع آفتاب کے بعد سنتیں پڑھے تو وہ بھی درست ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کتبہ محمد عبیداللہ و عبدالحق (محمد عبیداللہ 1391)(فقیر عبدالحق 1291)
٭ إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة ۔ نص سمت و بمقابلہ نص تعلیلات قیاسیہ باطل است۔ (میر احمد) پشاوری
٭ واقعی ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم فلا صلاة إلا المكتوبة ۔ سنتوں کے پڑھنے کے جواب سے مانع ہے مگر فرضوں کے بعد بلاشبہ درست ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔
٭ قد ثبت فى الصحيحين وغيرهما أنه اذا أقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة الا ركعتى الفجر لا اصل له، قاله البيهقى، ونقل عنه فى المحلى شرح المؤطا، والله اعلم بالصواب
صحیحین اور ان کے علاوہ سے بھی ثابت ہے کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی اور " الا ركعتى الفجر " (یعنی ماسوا فجر کی دو رکعتوں کے) کا اضافہ بے بنیاد ہے (بیہقی 4/383) اور اس سے محلی شرح المؤطا نے نقل کیا ہے۔ حررہ ابو محمد عبدالرؤف البہاری (عبدالرؤف 1303)
٭ الجواب صحیح والرای نجیح، نمقہ محمد یٰسین الرحیم آبادی عفی عنہ
٭ مجیب صاحب نے بہت ہی عمدہ جواب دیا ہے حقیقت میں اقامت کے بعد سنتِ فجر ادا کرنا ازروئے حدیث صحیح السند ناجائز و نادرست ہے اور کتب فقہ میں بھی اس طرح سنت پڑھنے کو ممنوع لکھا ہے جس طرح کے آج کل ہمارے زمانہ کے جہال صف کے قریب اور مسجد میں ادا کر لیتے ہیں۔ اور فتح القدیر ص 340 ([2]) مطبوع میں لکھا ہے کہ اس طرح سے جیسا کہ آج کل مروج ہے سنت فجر پڑھتے ہیں، بہت سخت مکروہ اور بڑے اجہل ہیں۔ اور بدایہ مع الکفایہ صفحہ 86 میں لکھا ہے کہ: سنتِ فجر وقت اقامت مسجد میں ممنوع و نادرست ہے، اگر پڑھتے تو خارج از مسجد پڑھے۔ اور مولوی عبدالحئی لکھنوی حنفی نے عمدۃ الرعایۃ ص 238 و تعلیق الممجد ص 88 میں بعد اللتيا (یعنی اس اختصار کے بعد) بڑی صراحت سے مذکور ہے کہ صحیح مرفوع احادیث کی رو سے سنتِ فجر تکبیر (اقامت) کے وقت نہ پڑھنی چاہیے۔
خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب 1300ھ الفنجابی نزیل الدہلی
٭ الجواب صحیح۔ محمد طاہر سہلٹی 1304ھ
٭ اکثر جاہل لوگ جو وقتِ اقامت فرض، صبح کی سنتیں پڑھتے ہیں یہ درست نہیں، بلکہ جماعت میں شامل ہونا چاہیے۔ محمد امیر الدین حنفی واعظ جامع مسجد دہلی۔
٭ خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین 1292ھ
٭ سید محمد عبدالسلام 1299ھ
٭ الجواب صحیح عبداللطیف 1298ھ
٭ محمد امیر الدین 1301ھ
[1] (فتح الباری 2/148، مسلم 1/493، حدیث نمبر 63/710، دارمی 2771، مصابیح 1/393)
[2] ابن حمام نے تحریر کیا ہے کہ فان صلى من الفجر ركعة ثم أقيمت يقطع ويدخل معهم۔ (فتح القدیر 1/237) اور امام محمد نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: دو نمازیں ایک وقت یعنی جماعت کے روبرو نفل پڑھنے سے آپ نے منع کیا اور امام محمد نے کہا کہ جب اقامت ہو جائے تو ماسوا دو رکعت فجر کے، اور نوافل کا پڑھنا مکروہ ہے۔ ان دونوں کے پڑھنے میں کچھ عیب نہیں۔ اگر مؤذن اقامت کہہ دے تو یہ جماعت کے ہوتے ہوئے نہ پڑھتا رہے یا اقامت سن کر شروع کر دے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ مؤطا امام محمد ص 37 (جاوید)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب