سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) احکام صاع (یعنی پیمانہ)

  • 23972
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2505

سوال

(05) احکام صاع (یعنی پیمانہ)

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علماء دین و مفتیانِ شرح متین فرمائیں کہ حدیث شریف میں جو صاع کا لفظ وارد ہوا ہے جس سے بہت سے احکام متعلق ہیں اس کا وزن ہندوستانی وزن میں کیا ہوتا ہے؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں جو "صاع" وارد ہوا ہے وہ صاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جسے "صاع حجازی" کہتے ہیں۔ اس صاع حجازی سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے نہ کہ صاع عراقی سے۔ کیونکہ صاع عراقی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع نہیں ہے، چنانچہ اس کی تصریح کتب حدیث میں موجود ہے۔ اور اجراء احکام اسی صاع سے ہونا چاہیے جو صاع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کا وزن سیروں کے حساب سے مندرجہ ذیل ہے جو کہ "مسک الختام شرح بلوغ المرام" میں ہے:

"پس صدقہ فطر بسیر پختہ لکھنو کہ نود و شش روپیہ است و روپیہ یا زدہ ماشہ نصف صاع از گندم ایک آثار و شش چھٹانک و سہ ماشد باشد واز جودو چندان دو آثار ([1]) و نیم پاؤ و شش ماشہ کہ وزن صاع ست و نصف صاع بسیر انگیزی کہ ہشتادر روپیہ چہرہ دار است و ہر روپیہ یا زدہ ماشہ و چہاررتی ست یک سیر نیم پاؤ و نیم چھٹانک و یکتولہ سہ و سہ ماشہ می باشد۔ انتہی

"روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے، نصف صاع گندم سے ایک سیر، چھ چھٹانک اور تین ماشہ ہے اور جو سے دوگنا یعنی دو سیر آدھ پاؤ اور چھ ماشہ ہے جو کہ صاع کا وزن ہے اور نصف صاع انگریزی سیر کے حساب سے 80 روپیہ بنتا ہے اور ایک روپیہ گیارہ ماشہ اور چار رتی ہے اور ایک سیر آدھ پاؤ نصف چھٹانک ایک تولہ اور تین ماشہ ہے۔"

اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اصل صدقہ فطر میں کَیل یعنی پیمانہ تانبے کا ہے اور مقدار وزن کی جو ضرورت پڑتی ہے تو وہ صرف احتیاط اور حفاظت احکام کے لئے بطور استعانت کے ہے، "كما لا يخفي علي الماهر" اور مقدار وزن میں لامحالہ بقدر قلیل اختلاف معلوم ہوتا ہے اور حقیقت میں صاع کا ارطال وغیرہ کے ساتھ ضبط مشکل ہے، کیونکہ صاع جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں تھا جس سے صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا وہ مشہور و معروف تھا اب اس کا اندازہ و مقدار وزنا ہوتا ہے۔ مختلف اجناس مثل چنے و مئی وغیرہ کا صدقہ تو ایسے پیمانہ ہی سے دینا ضروری ہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیمانہ و صاع کے موافق رہے اور جسے یہ میسر نہ ہو تو اس طرح یقین کامل سے ادا کر لے کہ اس سے کم نہ ہو مسک الختام میں ہے:

کہ احتیاطا صدقہ فطر گندم میں دو سیر انگریزی سے دینا چاہیے اور جو سے صاع دوگنا ہو یعنی دو سیر اور ڈیڑھ چھٹانک اور احتیاطا جو چار سیر دینا چاہیے۔ انتہی۔ اور صاع کو پانچ رطل اور ثلث رطل (5 رطل اور 3 ارطل) کے ساتھ مقرر کرنا اقرب الی الصواب ہے۔ ([2]) صاحب الروضۃ کہتے ہیں:

(قد يستشكل ضبط الصاع بالأرطال، فإن الصاع المخرج به في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم مكيال معروف، ويختلف قدره وزناً باختلاف جنس ما يخرج، كالذرة والحمص وغيرهما، والصواب ما قاله الدارمى ان الاعتماد على الكيل بصاع مغاير بالصاع الذى كان يخرج به فى عصر النبى صلى الله عليه وسلم ومن لم يجده لزمه اخراج قدر تيقن انه لا ينقص عنه و على هذا فالتقدير بخمسة ارطال و ثلث تقريبا) (عون الباری لحل ادلة البخاری) (الروضة الندیة 1/217، عون الباری 570 طبع بھوپال)

"کبھی صاع کا رطل کے ساتھ توازن مشکل ہو جاتا ہے پس جس صاع سے صدقہ فطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ادا کیا جاتا تھا وہ ایک معروف پیمانہ ہے اور اس کے وزن کی مقدار میں جنس کی تبدیلی سے اختلاف ہو جاتا ہے جیسا کہ مکئی اور چنا وغیرہ۔ بہتر رائے امام دارمی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صاع کے معاملہ میں ماپنے کے لئے اعتماد اس متبادل صاع پر کیا جائے گا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں متداول تھا، البتہ عدم دستیابی کی صورت میں انداز پانچ رطل اور ایک تہائی (5ـ1/3) ہو گا۔

اور بعض علماء نے کہا ہے کہ صاع چار لپ یعنی متوسط آدمی کے چار بُک ہیں جو مجرب ہے۔ سو یہی صحیح اور صاع رسول کے موافق ہوا۔ (کذا فی القاموس و حکاہ النووی ایضا فی الروضۃ) اور اہل پنجاب اس امر میں بہت اچھے ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان کے ہاں پیمانہ "مد" کی مانند پڑوپی ہے اور "صاع" کی مانند ٹوپہ ہے اور وہ اسی پر ہی اجراء احکام کرتے ہیں۔

فقط والله اعلم بالصواب واليه المرجع والمآب

حررہ العاجز ابو محمد عبدالوھاب الفنجابی الجھنگوی ثم الملتانی نزیل الدھلی تجاوز اللہ عن ذبنہ الخفی والجلی، فی اواخر شھر اللہ الذی انزل فیہ القرآن۔ 1305ھ

اسمائے گرامی مؤیدین علماء کرام:

٭ محمد امیر الدین 1301ھ

٭ خادم شریعت رسول الاداب محمد عبدالوہاب 1300ھ

٭ خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین 1292ھ

٭ سید محمد عبدالسلام غفرلہ 1299ھ

٭ محمد امیر الدین۔ واعظ مذہب حنفیہ جامع مسجد دہلی

٭ الجواب صحیح۔ محمد طاھر سلٹھی

٭ جواب صحیح لکھا ہے۔ راقم محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی

٭ جواب ھذا صحیح ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ

٭ جواب صحیح ہے۔ محمد فقیر اللہ ۔۔۔۔۔ قد صحیح الجواب واللہ اعلم بالصواب۔

حررہ الفقیر ابو محمد عبدالرؤف البھاری المانفوری

٭ اصاب من اجاب۔ محمد حسین خان خورجوی

٭ الجواب صحیح۔ عبداللطیف عفی عنہ ((عبداللطیف))

٭ عبدالرؤف 1303ھ


[1] دو گنا وزن دو سیر، بارہ چھٹانک اور چھ ماشہ بنتا ہے جبکہ مؤلف نے "دو آثار و نیم پاؤ" تحریر کیا ہے، ممکن ہے وہ "دو نیم پاؤ کم" یعنی بارہ چھٹانک کہنا چاہتے ہوں وگرنہ عبارت کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم ۔۔۔ (خلیق)

[2] یاد رہے صاع ایک پیمانہ ہے جو دو طرح کا ہوتا تھا، ایک حجازی اور دوسرا عراقی، حجازی صاع جس میں 5 رطل اور 3/1 مزید ہوتے ہیں اور یہ وزن 4 مد (اڑھائی کلوگرام) کے مساوی ہوتا ہے اور ایک مد 625 گرام کا۔ ویسے اس کا ضبط ممکن نہیں ہے (کیونکہ یہ ایک پیمانہ ہے ناپنے کا نہ کہ وزن کا) اور عراقی صاع 8 رطل کا ہوتا تھا۔ احناف عراقی صاع کے جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے ائمہ کرام حجازی صاع کے قائل ہیں۔ جن کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو صاع استعمال ہوتا تھا۔ اس کا وزن ساڑھے پانچ (3/1-5) رطل تھا اور پھر اسی صاع پر بعد میں صحابہ کے زمانہ میں بھی عمل رہا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی ج 3 ص 280)

احادیث سے یہ امر بالکل واضح ہوتا ہے کہ فطرانہ ایک صاع ہی مسنون ہے۔ خواہ کوئی بھی جنس ہو جب کوئی چیز ہلکے وزن کی ہو تو صاع تھوڑی مقدار سے اور اگر بھاری و ثقیل ہو تو اس میں سے زیادہ وزن سے پورا ہوتا ہے۔ جو خوراک گندم، جَو، چاول، کشمش اور پنیر میں سے زیادہ استعمال ہوتی تو صدقۃ الفطر اسی میں سے ادا کیا جائے گا۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چھوٹے بڑے آزاد و غلام کی طرف سے ایک صاع طعام یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش نکالتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نصف صاع گندم کو پورے صاع جو کے برابر کر دیا۔ اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا:

«أَمّا أَنا فلا أَزالُ أُخْرجُهُ كما كنتُ أُخرجُهُ في زمن رسول الله - صلى الله عليه وسلم -». ولأبي داودَ «لا أُخْرِجُ أَبداً إلا صاعاً»

کہ میں تو اتنا ہی فطرانہ ہر جنس سے ادا کروں گا جتنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ادا کیا کرتا تھا۔ ابوداؤد میں ہے کہ: میں تو ہمیشہ ایک صاع ہی نکالوں گا۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کی نسبت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ظاہر حدیث پر عمل کرنا یقینا راجح ہے، جنہوں نے صاع کا اعتبار کیا ہے جنس کی گرانی اور ارزانی کا نہیں، جبکہ دوسرے حضرات نے صاع کا نہیں بلکہ اشیاء کی قیمت کا اعتبار کیا ہے یہی رائے شیخ صفی الرحمٰن حفظہ اللہ نے شرح بلوغ المرام ج 1 ص 412 میں قائم کی ہے اور مؤلف رحمۃ اللہ علیہ کا احتیاطا جو دو گنا یعنی چار سیر والا قول محلِ نظر ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔ (خلیق)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:139

محدث فتویٰ

تبصرے