سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(04) احکام و مسائل صدقۃ الفطر

  • 23971
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1536

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صدقۃ الفطر کے احکام تفصیلا بیان فرما دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ فطر کا حکم:

صدقۃ الفطر ازروئے آیت کریمہ اور احادیث صحیحہ فرض عین ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿قَد أَفلَحَ مَن تَزَكّىٰ ﴿١٤﴾... سورة الاعلى" "فلاح پائی جس نے صدقہ فطر ادا کیا۔" کیونکہ یہاں تزکیہ سے مراد ازروئے حدیث مرفوع صدقہ فطر ادا کرنا ہے اور یہ آیت صدقہ فطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

فان الله تعالى قال: ﴿قَد أَفلَحَ مَن تَزَكّىٰ ﴿١٤ وَذَكَرَ اسمَ رَبِّهِ فَصَلّىٰ ﴿١٥، ولابن خزيمة من طريق كثير بن عبدالله عن ابيه عن جده ان رسول الله عليه وسلم سئل عن هذه الآية، فقال: نزلت فى زكاة الفطر (نیل الاوطار للشوکانی 4/195)

فرمان الٰہی: "بےشک اس نے فلاح پا لی جو پاک ہو گیا اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا"۔ ابن خزیمہ میں کثیر بن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "صدقۃ الفطر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔"

حضرت ابو سعید خدری اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی روایت ہے، نیز ابو العالیہ اور ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہم کے ساتھ ساتھ اور بھی اکثر و بیشتر کا یہی قول ہے، امام بغوی نے تفسیر معالم میں اس آیت کے تحت فرمایا ہے:

وقال اخرون هو صدقة الفطر، روى عن ابى سعيد الخدرى رضى الله عنه فى قوله تعالى:﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾، قال اعطى صدقة الفطر، وقال نافع: كان ابن عمر اذا صلى الغداة يعنى من يوم العيد قال يا نافع اخرجت الصدقة فان قلت نعم مضى الى المصلى وان قلت لا قال فالان فاخرج فانما نزلت هذه الآية فى هذا، ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾ الآية ۔۔۔ وهو قول ابى العالية وابن سيرين، انتهى ملخصا  (معالم 4/476-477)

"دوسروں نے کہا کہ وہ صدقۃ الفطر ہے حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے فرمان الٰہی ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾ سے متعلق روایت ہے فرماتے ہیں کہ: جس نے صدقۃ الفطر ادا کیا اور نافع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب عید کے دن صبح کی نماز پڑھتے تو کہتے اے نافع! کیا آپ نے صدقۃ الفطر ادا کیا ہے؟ اگر میں کہتا کہ ہاں! تو عیدگاہ کو چلے جاتے اور اگر میں کہتا کہ نہیں تو کہتے، اب ادا کر دو، بےشک یہ آیت ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾، اس بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہی قول ابو العالیہ اور امام ابن سیرین کا ہے۔

اور صحیحین میں اعرابی کے واقعہ میں حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ فلاح اس کے لئے ثابت ہوئی ہے، جو صرف فرائض ادا کرے اور صدقۃ الفطر ادا کرنے والے کو بھی "افلح" یعنی (فلاح پائی) فرمایا۔ تو معلوم ہوا کہ صدقۃ الفطر بھی فرض ہے۔ كما لا يخفى على الفطين

قال الله تعالى:﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾، وثبت انها نزلت فى زكاة الفطر وثبت فى الصحيحين اثبات حقيقة الفلاح لمن اقتصر على الواجبات۔ انتهى (فتح الباری 3/368)

"فرمان الٰہی ﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾" زکاۃ الفطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور صحیحین میں، فلاح اس کے لئے ثابت ہوئی ہے جو صرف فرائض ادا کرے۔"

ان احادیث صحیحہ موعودہ میں سے ایک یہ ہے:

عن ابن عمر رضى الله عنه قال فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم

زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير والكبير من المسلمين وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة (رواه البخاری و مسلم، بخاری زکوة حدیث 1580۔ مسلم 2/677، مصابیح السنة 2/25)

"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع جو سے، یا اس سے جو ان کے سوا اور کھانے کی چیزیں ہیں جن کا بیان ان شاءاللہ آئندہ آئے گا" ہر مسلمان میں سے غلام اور آزاد، مرد و عورت، بچے اور جوان پر فرض کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ لوگوں کے "نمازِ عید" کی طرف نکلنے سے قبل ادا کیا جائے۔" (بخاری و مسلم)

اس حدیث سے صراحۃ فطر کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ حدیث میں لفظ "فرض" موجود ہے اور فرض کے دوسرے معنی مراد لینا بغیر کسی قرینہ صارفہ کے صحیح نہیں، کیونکہ فرض کا یہ معنی حقیقت شرعیہ ہے، کما تقرر فی الاصول۔ اس باب میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ طوالت کے خدشہ سے ایک پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صدقۃ الفطر کے فرض ہونے پر ایک باب قائم کیا ہے، مگر اس کی قضا نہیں ہے اور جو فرضِ عین ہے، اس کی قضا لازم ہو، قاعدہ حکمیہ نہیں ہے، بلکہ محض دلیل ہے۔ كما تقرر في الاصول

صدقہ فطر کس پر فرض ہے:

صدقہ فطر ہر مسلمان، مرد و عورت، بچہ و جوان، غلام و آزاد اور امیر و غریب پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہے جیسا کہ حدیث مذکورۃ الصدر سے عیاں ہے کہ صاحب نصاب ہونے کی شرط نہیں بلکہ مطلق ہے، جیسے دارقطنی اور احمد کی روایت میں تصریح بھی ہے کہ فقیر پر بھی فرض ہے۔ اس کا استدلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے کیا ہے کہ

(فطرة الصائم على أنها تجب على الفقير كما تجب على الغني وقد ورد ذلك صريحاً في حديث أبي هريرة عند أحمد وفي حديث ثعلبة بن أبي صعير عند الدار قطني)(فتح الباری 3/369، دارقطنی 2/148)

"روزے دار کا صدقہ فطر جیسا مالدار پر فرض ہے ویسا ہی تنگدست پر بھی ہے اور یہ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دارقطنی میں ثعلبہ بن ابی صغیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صریحا منقول ہے۔"

مگر استطاعت ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

لڑکی کا اگر مال ہو تو اس کا ولی اس میں سے صدقہ فطر نکالے اور اگر مال نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ یا جس پر اس کا نفقہ واجب ہو ادا کرے۔ یہی قول جمہور کا ہے، جیسا کہ نیل الاوطار میں ہے:

(وجوب فطرة الصغير فى ماله والمخاطب باخراجها وليه ان كان للصغير مال و الا وجبت على من تلزمه نفقته والى هذا ذهب الجمهور) (نیل الاوطار 5/192)

"بچے کا اس کے مال میں سے صدقہ فطر کا واجب ہونا اور اس کا ولی اس کے ادا کرنے کا ذمہ دار ہے اگر مال بچے کا ہو، وگرنہ جس پر اس کا نفقہ لازم ہے صدقہ فطر بھی اس پر واجب ہو گا، یہی جمہور کا قول ہے۔"

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:

(قوله الصغير والكبير: ظاهرة وجوبها على الصغير لكن المخاطب عنه وليه فوجوبها على هذا فى مال الصغير والا فعلى من تلزمه نفقته وهذا قول الجمهور) (فتح الباری 3/368)

"ظاہر میں بچے پر اس کا وجوب ہے لیکن مخاطب اس کا ولی ہے تو ایسی صورت میں وہ بچے کے مال میں واجب ہو گا ورنہ وہ اس کے ذمہ ہو گا، جس پر اس کا نفقہ لازم ہے، یہی جمہور کا قول ہے۔"

غلام کا صدقہ فطر:

غلام کا صدقہ فطر اس کا مولی ادا کرے گا، کیونکہ مسلم میں ہے کہ مولی کے ذمہ غلام کے صدقہ فطر کے سوا کوئی صدقہ نہیں ہے، معلوم ہوا کہ غلام کا صدقۃ الفطر مولی ادا کرے گا۔

(قوله "على العبد" آلخ. ظاهرة اخراج العبد عن نفسه ولم يقل به الا داؤد و خالفه اصحابه والناس احتجوا بحديث ابى هريرة رضى الله عنه مرفوعا ليس فى العبد صدقة الا صدقة الفطر. اخرجه مسلم. ومقتضاه انها على السيد. (انتهى ما فى فتح البارى 3/367 ملخصا بقدر الحاجة))

"اس سے ظاہر ہے غلام اپنا صدقہ فطر خود ادا کرے اور یہ قول صرف داؤد (ظاہری) کا ہے۔ ان کے اصحاب اور دوسرے علماء نے ان کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے کہ: غلام کے ذمہ صدقہ فطر کے علاوہ کوئی صدقہ نہیں ہے۔ (مسلم 2/676) اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ وہ اس کے آقا کے ذمہ ہے۔" (فتح الباری)

احناف کے ہاں صدقہ فطر صاحب نصاب پر واجب ہے یعنی اس پر جس کے پاس زکاۃ کا نصاب ہو اور لڑکے کا صدقہ صرف باپ ادا کرے اور بقیہ امور درج بالا کے موافق ہوں گے۔ ہدایہ میں ہے:

(صدقة الفطر واجبة على الحر المسلم اذا كان مالكا لمقدار النصاب فاضلا عن مسكنه وثيابه واثاثه وفرسه وسلاحه وعبيده يخرج ذلك عن نفسه ويخرج عن اولاده الصغار ومماليكه. انتهى ملخصا.) (اولین: 208)

"صدقہ فطر آزاد مسلمان پر واجب ہے جبکہ وہ ایسی مقدار نصاب کا مالک ہو جو اپنے چھوٹے بچوں اور اپنے غلاموں کی طرف سے ادا کرے گا جو کہ اس کی رہائش گاہ، لباس، سامان، گھوڑے، اسلحہ اور غلاموں سے زائد ہو۔ (مختصرا)

صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت:

صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت نمازِ عید الفطر سے قبل ہے اور اگر کوئی عید سے دو یا تین یا زیادہ روز قبل ادا کر دے تو جائز ہو گا اور اگر نمازِ عید کے بعد ادا کرے گا تو ادا نہ ہو گا۔ کیونکہ آیتِ مذکورہ ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ﴿١٤﴾" کے بعد ﴿ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ ﴿١٥﴾" وارد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر نماز پر مقدم ہے، کیونکہ " فَصَلَّىٰ" فائے تعقیب کے ساتھ مذکور ہے جو کہ صدقہ کے بعد نماز کی ادائیگی کا فائدہ دیتی ہے۔ كما لا يخفى من له ادنى تأمل

اور حدیث میں ہے:

عن عبدالله بن عباس رضي الله عنهما قال: " فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة ([1]) للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساكين. من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة، ومن أدها بعد الصلاة في صدقة من الصدقات ([2])

(كذا فى منتقى الاخبار2/156) وللبخارى وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين. انتهى

وفى موضع آخر، والظاهر ان من اخرج الفطرة بعد صلوة العيد كان كمن لم يخرجها باعتبار اشتراكهما فى ترك هذه الصدقة الواجبة. (انتهى فى نيل الاوطار 5/194)

"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر فرض فرمایا تاکہ روزے دار فضول اور نازیبا قسم کی باتوں سے پاک ہو جائے اور مسکینوں کو کھانا میسر آ جائے، جس نے اسے (عید کی) نماز سے قبل ادا کیا تو وہ قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صدقات میں سے ایک صدقہ ہے (ابوداؤد، ابن ماجہ) اور بخاری میں ہے کہ وہ عید الفطر سے ایک یا دو روز قبل ادا کر دیتے تھے۔"

اور ایک دوسرے مقام پر ہے: پتہ چلتا ہے کہ جس نے صدقہ فطر نماز عید کے بعد ادا کیا گویا کہ اس نے وہ ادا ہی نہیں کیا، کیونکہ اس واجب صدقہ کے ترک کرنے میں دونوں ہی مشترک ہیں۔ (نیل الاوطار)

صدقہ فطر میں کون سی چیزیں ادا کی جائیں:

جو چیز طعام یعنی قابل قوت ہے اس میں سے صدقہ فطر ادا کرنا درست ہے، جیسا کہ گیہوں، جو، پنیر، خرما اور ستو وغیرہ، جس طرح کہ حضرت عیاض بن عبداللہ بن ابو سرح العامری سے مروی ہے:

(انه سمع ابا سعيد الخدرى رضى الله عنه يقول كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام او صاعا من شعير او صاعا من تمر او صاعا من قط او صاعا من زبيب.)  (رواہ البخاری، فتح الباری 3/371)

"کہ انہوں نے حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے ہیں: ہم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں) کھانے یا جو یا کھجور یا پنیر یا کشمش کا ایک صاع (فی کس) بطور صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔" (بخاری)

صدقہ فطر کی مقدار:

صدقہ فطر کی مقدار گیہوں سے نصف صاع اور بقیہ چیزوں سے ایک صاع ہے جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ

(خطب ابن عباس رحمه الله في آخر رمضان على منبر البصرة، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ اخرجوا صدقة صومكم، ‏‏‏‏‏‏فكان الناس لم يعلموا، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ من هاهنا، ‏‏‏‏‏‏من اهل المدينة قوموا إلى إخوانكم فعلموهم، ‏‏‏‏‏‏فإنهم لا يعلمون، ‏‏‏‏‏‏فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الصدقة صاعا من تمر او شعير او نصف صاع من قمح) (الحدیث، رواہ ابو داؤد 1/229)

"ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رمضان کے آخر میں بصرہ کے منبر پر خطبہ دیا اور فرمایا: اپنے روزوں کا صدقہ نکالو اور لوگوں کو اس بات کا علم نہ تھا، سو آپ نے فرمایا: یہاں اہل مدینہ سے کون ہیں؟ اپنے بھائیوں کی طرف اٹھو اور انہیں تعلیم دو وہ بے علم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ ایک صاع کھجور سے یا جو سے یا نصف صاع ([3]) گیہوں سے مقرر فرمایا ہے۔ (ابوداؤد)

وقد نمقہ المھین محمد یٰسین الرحیم آبادی نم العظیم آبادی عفی عنہ سیاتہ

اسم مبارک مؤیدین علماء کرام:

٭ لقد اصاب من اجاب۔ ابو القاسم محمد عبدالرحمٰن الدھوری۔

٭ اصاب من اجاب۔ محمد حسین خان خورجوی

٭ یہ جواب صحیح ہے۔ حررہ ابو العلی محمد بن عبدالرحمٰن الاعظم گڑھی المبارکفوری

٭ جواب باصواب ہے۔ حسبنا الله بس حفيظ الله

٭ المجیب مصیب۔ محمد فقیر اللہ

٭ الجواب صحیح۔ والرای نجیح (محمد شمس الدین 1315ھ

٭ عبد الجلیل عربی

٭ ابو محمد عبدالحق 1305ھ

٭ قد صح الجواب۔ ابو محمد عبدالرؤف البہاری المانفوری عفی عنہ

٭ خادم شریعت رسول الاداب۔ ابو محمد عبدالوھاب 1300ھ

٭ خادم شریعت رسول الثقلین۔ محمد تلطف حسین 1293ھ

٭ سید محمد عبدالسلام غفرلہ 1295ھ

الجواب صحیح۔ عبداللطیف عفی عنہ              ((عبد اللطیف))

٭ محمد طاہر 1301ھ

٭ وہ غریب مسلمان کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو، بہت ہی بھوکا ہو اس کے ذمہ کسی صورت صدقہ فطر (لازم) نہیں ہے، اگر اس کو دو وقت کا کھانا میسر ہو تو اسے دینا چاہیے اور یہ صدقہ اپنے اقارب اور غیر کو دے سکتا ہے اور صدقہ فطر جو بھی دے سکتا ہو اس پر فرض ہے۔ حررہ محمد امیر الدین حنفی واعظ جامع مسجد دہلی 1301ھ ((محمد امیر الدین 1301ھ))


[1] اصل لفظ طهرة ہے ۔۔۔ (جاوید)

[2] رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ، نیل الاوطار 5/195، حدیث حسن ہے، ابوداؤد 1/227، ابن ماجہ حدیث 1427، ارواء الغلیل حدیث 843

[3] دیکھئے اسی کتاب کا ص  کا حاشیہ 1

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:129

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ