السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احکام قربانی تفصیل سے بیان فرما دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے واجب یا سنتِ مؤکدہ ہونے کے متعلق علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے، مگر صحیح و محقق بات یہی ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے۔ یہی جمہور کا مذہب ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے سنت ہونے پر باب قائم کیا ہے جس بنا پر یہ سنت ہے۔ طوالت کے خدشہ سے اختصار کیا ہے۔
قربانی واجب نہیں، کیونکہ وجوب پر کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے واجب ہونا منقول ہے۔ جو حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" من كان له سعة ولم يضح، فلا يقربن مصلانا " (ابن ماجه)
کہ "جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔" (رواہ ابن ماجہ، البانی: 2/199)
تو اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے زیادہ صحیح یہی ہے کہ یہ موقوف ہے
اس سے وجوب نہیں، بلکہ تاکید ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ کچا پیار وغیرہ کھانے سے متعلق فرمایا کہ مسجد میں کھا کر نہ آؤ، حالانکہ بالاتفاق اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی حلت ثابت ہے۔ كما لا يخفى من له فهم سليم
اور اس کا سنت ہونا دلائل سے ثابت ہے جن کی تفصیل بوجہ اختصار یہاں ترک کر دی گئی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری 10 ص 3 میں سنیت کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کے وجوب کے قائلین کی مخالفت کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔
"قال ابن حزم: لا يصح عن احد من الصحابة انها واجبة و صح انها غير واجبة عن الجمهور، وعن محمد بن الحسن هى سنة غير مرخصة فى تركها، وقال الطحاوى وبه ناخذ وليس فى الاثار ما يدل على وجوبها، انتهى۔ و اقرب ما يتمسك به للوجوب حديث ابى هريرة رضى الله عنه رفعه: من وجد سعة فلم يضح، فلا يقربن مصلانا، اخرجه ابن ماجه و احمد ورجاله ثقات، لكن اختلف فى رفعه ووقفه والموقوف اشبه بالصواب، قاله الطحاوى وغيره رفع ذلك فليس صريح فى الوجوب، انتهى ملخصا" (محلی ابن حزم 7/358، ھدایہ 4/427)
"ابن حزم کہتے ہیں صحابہ کرام سے کسی ایک سے بھی وارد نہیں کہ یہ واجب ہے، بلکہ جمہور سے اس کا غیر واجب ہونا منقول ہے۔ اور محمد بن الحسن رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ یہ ایسی سنت ہے جس کے ترک کی اجازت نہیں۔ طحاوی نے کہا یہی ہمارا مذہب ہے اور آثار سے اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ انتہی۔ اور زیادہ سے زیادہ جس سے وجوب کی دلیل اخذ کی جا سکتی ہے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جسے وہ مرفوع بیان کرتے ہیں: کہ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ (ابن ماجہ، احمد و رجالہ ثقات)
لیکن اس کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ نے اس کے موقوف ہونے کو قریب تر کہا ہے۔ نیز اس سے وجوب کی صراحت نہیں ہوتی۔ (انتھیٰ ملخصا)
اور قربانی کے لئے صاحبِ نصاب ہونا بھی شرط نہیں ہے، کیونکہ اس شرط کے لئے کوئی دلیل ثابت نہیں، بلکہ صرف استطاعت اور قدرت ہونی چاہیے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں ہے۔ كما لا يخفى
اور اقامت (یعنی مسافر نہ ہونا) بھی شرط نہیں ہے، کیونکہ اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ دلیل اس کے مخالف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں باب الاضحيه للمسافر والنساء (یعنی مسافر اور عورت کی قربانی) قائم کیا ہے۔ اور اس میں فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر مکہ کے دوران قربانی کی ہے۔
اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
فيه اشارة الى خلاف من قال ان المسافر لا اضحية عليه
"اس باب و حدیث کو لا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے سفر میں قربانی نہ ہونے والے قول کی مخالفت ثابت کی ہے۔" (فتح الباری 10/5)
اس میں مسافر پر قربانی کے نہ ہونے کے قائل کی مخالفت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ اس سے بالصراحت واضح ہوا کہ اقامت قربانی کے لئے شرط نہیں ہے۔ كما لا يخفى ۔ نیز احناف کے نزدیک قربانی صاحبِ نصابِ زکوٰۃ پر اس طرح واجب ہے جیسا کہ صدقۃ الفطر، بشرطیکہ مسافر نہ ہو۔ ہدایہ میں ہے:
" الاضحية واجبة على كل حر مسلم مقيم موسر فى يوم الاضحى على نفسه وعلى ولده الصغار والنساء لما روينا من اشتراط السعة ومقداره ما يجب به صدقة الفطر(ملخص بقدر الحاجة)" (هدایه 4/427)
"قربانی ہر آزاد مسلمان مقیم پر جو قربانی کے روز خوشحال ہو اس کی اپنی ذات چھوٹے بچوں اور عورتوں پر فرض ہے جس کی دلیل وہ حدیثِ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے یعنی جس میں وسعت کی شرط پر قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ آسودگی اور خوشحالی کی مقدار وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔"
اور جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھے اسے چاہئے کہ جب ذوالحج کا چاند دیکھ لے تب سے قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کٹوائے جیسا کہ بخاری کے علاوہ اور دیگر کتب حدیث میں بھی ہے:
(عن ام سلمة رضى الله عنها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اذا رأيتم هلال ذى الحجة و أراد أحدكم ان يضحى فليمسك عن شعره و اظفاره) (منتقی الاخبار 2/300، مصابیح السنۃ 1/490 و مسلم ص 1565، البانی 334)
"حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ذوالحج کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کا ارادہ رکھے تو بال اور ناخن نہ کٹوائے۔
قربانی کا وقت نمازِ عید ادا کرنے کے بعد ہے اور اگر کسی نے عید کی نماز سے قبل ذبح کر لیا تو نہ صرف قربانی ناجائز ہو گی، بلکہ اس کی جگہ دوسری بھی کرنا ہو گی، کیونکہ بخاری شریف میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ ، َمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا ، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ عَجَّلَهُ لأَهْلِهِ ، لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ (رواہ البخاری، فتح الباری 10/33، مسلم 3/1553)
"آج کے روز ہمارا سب سے پہلا عمل نماز پڑھنا ہے پھر واپس لوٹ کر قربانی کریں گے جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا (سنت کے موافق عمل کیا) اور جس نے (نماز سے) پہلے قربانی کی تو وہ صرف گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کو پیش کیا ہے، قربانی میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔"
احناف کے نزدیک بھی ماسوا دیہات میں رہنے والوں کے یہی وقت ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے:
" وقت الاضحية يدخل بطلوع الفجر من يوم النحر الا انه لا يجوز لأهل الامصار الذبح حتى يصلى الامام العيد، فاما اهل السواد فيذبحون بعد الفجر " (هدایه 4/429)
"قربانی کا وقت تو دسویں ذوالحج کے طلوع فجر ہی سے شروع ہو جاتا ہے، لیکن شہر والوں کے لئے قربانی کرنا جائز نہیں ہے، حتیٰ کہ امام عید کی نماز سے فارغ ہو جائے، البتہ دیہاتوں والے طلوع فجر کے بعد قربانی کر لیں"۔ ([1])
بکری کی عمر ایک سال، یعنی ایک سال مکمل ہو کر دوسرا شروع ہو جائے، گائے اور بھینس کی دو سال، یعنی دو سال مکمل ہو کر تیسرا شروع ہو جائے، اونٹ کی پانچ سال اور چھٹا سال شروع ہو۔ بھیڑ (مینڈھا) ایک سال سے کم بھی جائز ہے۔ بشرطیکہ خوب موٹا تازہ اور ایک سال کا معلوم ہوتا ہو۔ جس کی دلیل حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
" لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم ؛ فتذبحوا جذعة من الضأن " (رواہ الجماعۃ الا البخاری (المنتقیٰ 2/301، مصابیح 1/489، مسلم 2/100، 3/1555)
"دو دانت والے کے سوا ذبح نہ کرو مگر کہ تم پر تنگی ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سال کا) ذبح کرو۔"
ہر جانور میں سے "ثنی" کو کہتے ہیں اور "ثنی" بکری میں سے جو ایک سال مکمل کرنے کے بعد دوسرے میں ہو اور گائے بھینس میں سے جو دو سال مکمل ہونے کے بعد تیسرے میں ہو، اور اونٹ جو پانچ سال مکمل کرنے کے بعد چھٹے میں ہو، جیسا کہ "نیل الاوطار" میں ہے:
"قوله "إلا مسنة" قال العلماء المسنة هي الثنية من كل شيء من الإبل والبقر والغنم (انتهى) والثنى من الشاة ما دخل فى السنة الثانية، كذا فى مفردات القرآن الامام الراغب القاسم الحسين وهو القدم على الغزالى والقاضى ناصر الدين بيضاوى" (نیل اوطار 5/121، مفردات القرآن 80)
" مسنة ۔ علماء کہتے ہیں مثنہ ہر وہ اونٹ، گائے اور بکری ہے جو دو دانت والا ہو اور بکری کا "ثنی" جو دوسرے سال میں داخل ہو جائے۔"
منتھی الارب میں ہے:
ثنی کفنی شتر در سال ششم درآمدہ۔
"ثنی فنی کی طرح ہے، اونٹ کا ثنی وہ ہے جو چھٹے سال میں داخل ہو گیا۔"
والثنى منها ومن المعز ابن سنة ومن البقر ابن سنتين ومن الابل ابن خمس سنين و يدخل فى البقر الجاموس لانه من جنسه (الھدایة 4/433)
"اور ثنی بکری کا ایک سال کا ہوتا ہے اور گائے کا دو سال کا اور اونٹ کا پانچ سال کا اور گائے میں بھینس بھی داخل ہے، کیونکہ وہ اس جنس سے ہے۔ (ہدایہ)
بھیڑ میں سے اسے کہتے ہیں جو سال سے کم ہو۔ ([2])
الجذع من الضان ما تمت له ستة اشهر فى مذهب الفقهاء وذكر الزعفرانى رحمة الله عليه انه ابن سبعة اشهر (هدایه 4/433)
"فقہاء کے نزدیک بھیڑ کا جذعہ وہ ہے جس کے چھ ماہ مکمل ہو جائیں اور زعفرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو ساتویں ماہ میں ہو۔"
مگر مذکورہ شرط کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں:
هذا اذا كانت عظيمة بحيث لو خلط بالثنان يشتبه على الناظر من بعيد (ھدایه 4/433)
"کہ جذعہ جائز ہونے کا حکم اس وقت ہے کہ اتنا بڑا ہو کہ اگر وہ ثنی (دو دانت والے) جانوروں میں ملا دیا جائے تو دور سے دیکھنے والے پر مشتبہ ہو جائے۔"
اور شرط یہ ہے کہ قربانی کا جانور مندرجہ ذیل عیوب سے پاک ہو:
1) اس کے سینگ آدھے یا آدھے سے زیادہ نہ کٹے ہوں۔
2) کان کٹا نہ ہو۔
3) کانا یا اندھا نہ ہو۔
4) ظاہرا لنگڑا نہ ہو۔
5) بہت بیمار نہ ہو۔
6) اتنا بوڑھا نہ ہو کہ ہڈیوں کا گودا باقی نہ رہا ہو۔
7) کان پٹھا ہوا نہ ہو۔
کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
"«نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ القَرْنِ وَالأُذُنِ» قال قتادة فذكرت لسعيد بن المسيب فقال، العضب: النصف فاكثر من ذلك۔ رواه الخمسة و صححه الترمذى ولكن ابن ماجة لم يذكر قول قتاده ۔۔۔ الخ "
(ترمذی احمد شاکر 4/90، ابن ماجہ 2/202، ابو داؤد 3/238، مسند احمد 1/83، مصابیح السنہ 1/493)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ٹوٹے ہوئے سینگ اور پھٹے ہوئے کان والا جانور ذبح کیا جائے۔ قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے ذکر کیا تو کہنے لگے کہ العضب: نصف یا اس سے زیادہ، کٹے ہوئے کو کہتے ہیں۔"
اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
" قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعٌ لاَ تُجْزِئُ فِي الأَضَاحِي: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لاَ تُنْقِي " (رواہ ۔۔۔ ([3]) و صحہ الترمذی، (منتقی الاخبار 2/302)، (ترمذی 1465البانی، ابن ماجہ 2/202 البانی، ترمذی احمد شاکر 4/90، مصابیح السنۃ 1/493)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ہیں۔ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو اور بیمار جس کی بیماری نمایاں ہو، اور لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور بڑی عمر کا جس کی ہڈیوں کا گودا باقی نہ ہو۔
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں:
"أَمَرَنَا رَسُول اللَّه صلى الله عليه وسلم أَنْ نَسْتَشْرِف الْعَيْن وَالْأُذُن، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَة وَلَا شَرْقَاء وَلَا خَرْقَاء۔ رواه الترمذى و ابوداود والنسائى والدارمى و ابن ماجه، و انتهت روايته الى قوله: وَالْأُذُن، كذا فى المشكاة"
(احمد 1/108، ابوداؤد 3/237، ابن ماجہ 2/202، البانی، مصابیح السنۃ 1/492، دارمی 2/4)
"کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی جانب سے پٹھا ہو یا پچھلی طرف سے اور وہ جانور جس کا کان لمبائی یا گولائی میں پھٹا ہو۔ ابن ماجہ کی روایت "الاذن" تک ہے۔"
اور احناف کے نزدیک جانور ان سب عیوب سے پاک ہو اور ان کے ہاں دم بھی نصف سے زیادہ کٹی ہوئی نہ ہو، ماسوا سینگ یا کان کے کہ وہ کٹے پھٹے عیب نہیں ہیں۔ ہاں! کان اگر نصف سے زیادہ کٹا ہو تو عیب ہے، ورنہ عیب نہ ہو گا، ہدایہ میں ہے:
" ولا يضحى بالعمياء والعوراء والعرجاء التى لا تمشى الى المنسك ولا العجغاء ولا تجزى مقطوعة الاذن والذنب ولا التى ذهب اكثر اذنها و ذنبها وان بقى اكثر الاذن والذنب جاز و بجوز ان يضحى بالجماء " (ھدایه 4/431)
"اندھا، کانا، لنگڑا جو قربان گاہ کی طرف چل کر نہ جا سکتا ہو، نہ ہی لاغر، کان کٹے اور دم کٹے کی قربانی کی جائے گی جس کے کان اور دم کا زیادہ حصہ کٹا ہوا ہو اور اگر دونوں کا زیادہ حصہ باقی ہو تو جائز ہو گا، نیز بے سینگ کی قربانی بھی جائز ہے۔"
اور یہ عیوب معتبر ہیں لیکن اگر بہ نیت قربانی جانور تمام عیوب سے سالم خریدا تھا اور بعد میں کوئی عیب پیدا ہو گیا تو وہ (بطور قربانی) جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں:
" اشتريت كبشا اضحى به فعدى الذئب فأخذ الالية، قال سألت النبى صلى الله عليه وسلم فقال ضح به (رواہ احمد) وهو دليل على ان العيب الحادث بعد التعين لا يضر (المنتقى) (نیل الاوطار 5/125-126) فى اسناد جابر جعفى وهو ضعيف جدا
"کہ میں نے ایک دنبہ بغرض قربانی خریدا، اس پر ایک بھیڑیا جھپٹا اور اس کی چلی لے گیا۔ سو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کی قربانی کر لو۔ پس یہ دلیل ہے کہ تعین کے بعد عیب کا پیدا ہو جانا مضر نہیں ہے۔ (الفتح الربانی 13/80)
احناف کے نزدیک غنی کو دوسری بدل لینی چاہئے اور غریب کے لئے وہی درست و کافی ہے، چنانچہ مذکور ہے:
"وهذا الذى ذكرنا اذا كانت هذه العيوب قائمة وقت الشراء، ولو اشتراها سليمة ثم تعيب بعيب مانع ان كان غنيا عليه غيره وان كان فقيرا تجزيه هذه، لان الوجوب على الغنى بالشرع ابتداء لا بالشراء فلم تتعين به و على الفقير بشرائه بنية الاضحية فتعينت" (ھدایه 4/432)
"اور جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ عیوب جبکہ وقت خرید موجود ہوں اور اگر اس نے سالم خریدا تھا پھر اس میں قربانی سے مانع کوئی عیب پیدا ہو جائے، سو اگر مالدار ہے تو اس کے ذمہ دوسری ہے اور اگر وہ تنگدست ہے تو اس کے لئے یہی جائز ہے، اس لئے کہ تونگر کے ذمہ شرع میں ابتدا سے واجب تھی نہ کہ خریدنے کے بعد اور تنگدست پر صرف یہ جانور قربانی کی نیت سے خریدنے کی بنا پر متعین ہوا تھا۔"
خصی جانور کی قربانی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی جانور کی قربانی کی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ:
" ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين سمينين عظيمين املحين ([4]) موجوئين "
(رواہ احمد، منتقی الاخبار 2/305) (فتح الباری کتاب الاضاحی 5564 مصابیح السنۃ 1/480، مسلم 4/1966)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بڑے، موٹے، خوبصورت سینگوں والے خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔"
اس مضمون سے متعلق اور بھی بہت سی احادیث منقول ہیں، مگر بخوف طوالت ایک پر ہی اکتفا کیا ہے۔ حنفی مذہب میں بھی ہے: ويجوز ان يضحى بالجماء والخصى لان لحمها اطيب وقد صح عن النبى صلى الله عليه وسلم انه ضحى بكبشين املحين موجوئين (4/433) (انتھی ما فی الھدایۃ ملخصا بقد الحاجۃ) ۔۔۔ بے سینگ اور خصی جانور کی قربانی جائز ہے کیونکہ اس کا گوشت عمدہ ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوبصورت اور خصی مینڈھوں کی قربانی دی تھی۔ (ہدایہ)
قربانی کے گوشت میں سے ازروئے قرآن و حدیث خود کھائے اور فقیروں، محتاجوں کو کھلائے، کوئی پابندی نہیں کہ کس قدر خود کھائے اور کتنا فقیروں کو دے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾ ۔۔۔ الآية (سورۃ الحج: 36) ۔۔۔اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال نہ کرنے والوں اور سوال کرنے والوں کی بھی کھلاؤ۔
اور حنفی مذہب میں مستحب ہے کہ ایک تہائی فقیروں، محتاجوں کو دے، جیسا کہ ہدایۃ میں ہے:
(ياكل من لحم الاضحية و يطعم الاغنياء و يستحب ان لا ينقص الصدقة عن الثلث (انتهى ملخصا)) (ھدایه 4/433)
"قربانی کا گوشت (خود) کھائے، اغنیاء و فقراء کو کھلائے، ذخیرہ کر لے اور بہتر ہو گا کہ ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔"
قصاب کی اجرت قربانی میں سے نہ دے (بلکہ) اپنے پاس سے علیحدہ دے۔
(عن علي رضي الله عنه قال بعثني النبي صلى الله عليه وسلم فقمت على البدن فأمرني فقسمت لحومها ثم أمرني فقسمت جلالها وجلودها قال سفيان وحدثني عبد الكريم) (بخاری حج حدیث 1717، مسلم 2/954، مصابیح السنۃ 2/266)
(عن عبدالرحمن بن ابى ليلى عن على رضى الله عنه قال: امرنى النبى صلى الله عليه وسلم ان اقوم على البدن ولا اعطى عليها شيئا فى جزارتها)
(رواہ البخاری، فتح الباری 3/1717، مصابیح السنۃ 2/266)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا کہ میں اونٹوں کی قربانی کی نگرانی کروں، سو مجھ کو حکم دیا تو میں نے گوشت تقسیم کیا، پھر حکم دیا تو میں نے ان کی جھولیں اور کھالیں تقسیم (خیرات) کر دیں۔ عبدالکریم نے مجاہد سے بیان کیا اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ: مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قربانیوں کی نگرانی کروں اور ان میں سے قصاب کو اجرت میں سے کچھ نہ دوں۔
اور قربانی کی کھالوں کو یا تو صدقہ کروں جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، یا اس میں سے کوئی چیز استعمال کی، مثل مشکیزہ، ڈول وغیرہ بنا لوں، فروخت نہ کی جائے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ظاہر ہے۔"
اور حنفی مذہب میں بھی یہی ہے:
(ويتصدق بجلدها لانه جزء منها و يعمل منه آلة تستعمل فى البيت كالنطح والجراب والغربال ونحوها (هدايه 4/434) والله اعلم بالصواب)
"اور اس (قربانی) کی کھال کو صدقہ کر دے اس لئے کہ وہ اسی کا حصہ ہے، یا پھر اس سے کوئی گھریلو کارآمد چیز بنا لے جیسا کہ چٹائی، چمڑے کا تھیلا اور چھلنی وغیرہ۔"
[1] قربانی میں دیہاتوں اور شہریوں کا فرق کئی دوسرے ائمہ کے نزدیک ساقط الاعتبار ہے لہذا حق اور صحیح بات یہی ہے کہ نمازِ عید کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا جائے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قربانی کا وقت امام کی نماز سے قبل ناجائز اور نماز کے بعد امام کی قربانی سے قبل جائز ہے، خواہ وہ شہروں کے باسی ہوں یا دیہاتوں کے رہنے والے، یہی رائے امام حسن رحمۃ اللہ علیہ، اوزاعی اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ نیز
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طلوع شمس یا طلوع فجر کے قائلین کی رائے پر عمل کرنا درست نہیں ہے، جو منقول ہے کہ یوم النحر "ذبح کا دن" ہے اس لئے کہ وہ مثل عموم کے ہے تو اس باب کی روایات اسے خاص کرتی ہیں سو عموم کو خاص پر بنا کیا جائے گا۔ (نیل الاوطار ج 3 ص 141)
اور علامہ شیخ عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے امام احمد ہی کے مذہب کو ترجیح دی ہے کہ قربانی کا وقت طلوعِ شمس یا طلوع فجر کی بجائے نماز عید سے مشروط ہے (جیسا کہ حدیث براء رضی اللہ عنہ اور اس میں اہل الامصار اور اہل البوادی برابر ہیں۔ (مرعاۃ المفاتیح ج 2 ص 336) (خلیق)
[2] "مسنہ" کے بارے میں علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ:
اہل لغت اور اصحابِ شروح الحدیث والفقہ کے اقوال سے یہ بات عیاں ہے کہ:
"مسنہ" اور "مسن" اسنان سے ماخوذ ہے جو کہ دانتوں میں سے ایک دانت کا ظاہر ہو جانا ہے، نیز مسن، ثنی، مسنۃ، ثنیہ ایک ہی چیز ہے۔ اونٹ، گائے اور بکری میں سے "مسن" وہ ہے جو اپنے منہ کے اگلے دانت گرا دے۔ مسن اور ثنی (یعنی دانتا) میں اور قربانی کی عمر کے مفہوم کا اعتبار دانتوں کے گرانے، دانت کے اُگنے اور اس کے ظاہر ہونے پر ہے اور اس کی عمر کی طرف التفات نہ کیا جائے گا اور اونٹ، گائے اور بکری کی قربانی صرف اسی صورت میں جائز ہو گی جبکہ اس کا دانت گر جائے اور ان مذکورہ جانوروں کا دانت بھی ظاہر ہو جائے
نیز جذعہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ بھیڑ سے مراد وہ ہے جس کا تقریبا ایک سال ہو جائے۔ (مرعاۃ المفاتیح ج 2 ص 353) ۔۔۔ (خلیق)
[3] مؤلف نے یہاں خالی چھوڑا ہے۔
[4] اَملح اور ملیح: سفید و سیاہ رنگ کے مینڈھے کو کہتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب