سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) نفاذِ اسلام کی کوشش

  • 23967
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1348

سوال

(64) نفاذِ اسلام کی کوشش

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جولوگ دعوت دین کا کام کرتے ہیں اور معاشرہ میں مکمل دین کو نافذ کرنا چاہتےہیں،انھیں اکثر مختلف قسم کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مثلاً ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ لوگ دین میں سیاست کو شامل کرکے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔یہ لوگ معاشرے میں فتنہ پھیلارہے ہیں اور لوگوں میں تفرقہ ڈال رہے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرے کا امن وسکون غارت ہورہاہے۔ایسا اعتراض کرنے والے اکثر وہ لوگ ہیں جومفکرین اور دانشوران ملت کہلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو علمائے دین کہلاتے ہیں لیکن دین کو صرف عبادات واذکار تک محدود سمجھتے ہیں۔کیا معاشرہ میں مکمل دین کی دعوت دینے والےواقعی فتنہ پرور ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگردعوتِ دین کا کام اور مکمل دین کے نفاذ کی کوشش واقعی فتنہ پروری ہے جیساکہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں تو نعوذباللہ ،اللہ کے رسول وانبیاء علیہ السلام  سب سے پہلے فتنہ پرور ہیں کیونکہ دعوت دین کی ذمے داری اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمے کی ذمہ داری سب سے پہلے ان ہی رسول اور انبیاء علیہ السلام  نے تو نبھائی ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دعوت دین کی تحریک کے نتیجہ میں معاشرہ دو گروہوں میں منقسم ہوگیا۔ایک گرہ مومنین وصالحین کا اور دوسراگروہ کفارومشرکین کا۔اور ان دونوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں۔ملاحظہ ہو اللہ کافرمان:

﴿وَلَقَد أَرسَلنا إِلىٰ ثَمودَ أَخاهُم صـٰلِحًا أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ فَإِذا هُم فَريقانِ يَختَصِمونَ ﴿٤٥﴾... سورة النمل

’’اور ہم نے قوم ثمودکی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اے لوگوتم اللہ کی عبادت کرو۔پس وہ دوگروہ میں بٹ کرجھگڑنے لگے۔‘‘

تو کیانعوذ باللہ صالح  علیہ السلام  فتنہ پرورتھے کہ دعوت دین کے نتیجہ میں ان کا معاشرہ دو گروہوں میں منقسم ہوگیا اور ان کے درمیان لڑائیاں شروع ہوگئیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت سے قبل پورا معاشرہ ایک گروہ کی شکل میں تھا یعنی سب ہی مشرک تھے۔لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی تو معاشرہ دو گروہوں میں منقسم ہوگیا۔کچھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور کچھ شرک پراڑے رہے۔اور اس کے نتیجہ میں ان کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔توکیانعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  فتنہ پرور تھے؟

یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ فتنہ کے مفہوم کوواضح کیاجائے۔فتنہ دراصل آزمائش اورامتحان کو کہتے ہیں۔بہت ساری آیتوں میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہواہے۔مثلاً:

﴿الم ﴿١ أَحَسِبَ النّاسُ أَن يُترَكوا أَن يَقولوا ءامَنّا وَهُم لا يُفتَنونَ ﴿٢﴾... سورة العنكبوت

’’الم!کیالوگوں کو یہ گمان ہے کہ وہ ایمان لائیں گے اور انھیں یونہی چھوڑدیاجائے گا اورا نھیں آزمایانہیں جائےگا۔‘‘

قرآن میں متعدد مقامات پر مال واولاد اور عورتوں کوفتنہ کہا گیا ہے کہ تو یہ سب چیزیں اسی مفہوم میں فتنہ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے امتحان لیتا ہے اورآزماتا ہے۔یہ ساری چیزیں اللہ کی نعمت ہیں۔یہاں  فتنہ کامفہوم یہ نہیں ہے کہ یہ ساری چیزیں فتنہ پرور ہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ نےانھیں آزمائش کاسامان بنایاہے۔

فتنہ کا ایک دوسرامفہوم ہے عذاب دینا اور ستانا۔مثلاً یہ آیت ملاحظہ کیجئے:

﴿إِنَّ الَّذينَ فَتَنُوا المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ ثُمَّ لَم يَتوبوا فَلَهُم عَذابُ جَهَنَّمَ وَلَهُم عَذابُ الحَريقِ ﴿١٠﴾... سورة البروج

’’بے شک جن لوگوں نے مومن مرد اور عورتوں کوستایا اور اپنے اس عمل سے توبہ نہیں کیا۔ان کےلیے جہنم کا عذاب ہے اور آگ کا عذاب ہے۔‘‘

اس آیت کی رو سے فتنہ پرور وہ لوگ ہیں جو مومنین کوستاتے اور تنگ کرتے ہیں۔فتنہ پرور وہ نہیں ہیں جو دین اوراسلام کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں۔بلکہ دعوت دین کاکام کرنے والوں کو ستانےوالے فتنہ پرور ہیں۔جو لوگ دعوتِ دین کا کام کرنے والوں اُلٹے سیدھے اعتراضات کرکے پریشان کرتے ہیں۔انھیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس آیت کی رو سے وہ خود ہی فتنہ پرور ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

سیاسی مسائل،جلد:2،صفحہ:326

محدث فتویٰ

تبصرے