سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) غیرمسلموں کے ساتھ رواداری

  • 23965
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4710

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض دین دار حضرات اس بات کو اسلامی غیرت وحمیت کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کا سلوک معاندانہ ہو۔یہ لوگ غیر مسلموں کے لیے اپنے دل میں ایک طرح کا بغض وعناد رکھتے ہیں۔اور بعض تو ایسے ہیں جوان پر ظلم وزیادتی کوگناہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے دینی حمیت قراردیتے ہیں۔اگر کسی اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیت میں ہوں اور ان کےساتھ معاندانہ سلوک کیاجائے تو مسلم دشمن مغربی ممالک کو اسلام اورمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کابہترین موقع مل جاتا ہے۔جو لوگ عالمی سیاست پر نظر رکھتے ہیں وہ ان باتوں سے بخوبی واقف ہوں گے۔

براہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ اسلام غیرمسلموں کے ساتھ کس طرح کے سلوک کا حکم دیتا ہے۔یہ سلوک بغض وعداوت پر مبنی ہوناچاہیے یا اخوت ومحبت اوررواداری پر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیرمسلموں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہوناچاہیے ایک نہایت سنجیدہ اوراہم مسئلہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس سلسلے میں اسلام کا صحیح موقف پیش کیا جائے کیونکہ بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں اس معاملے میں زبردست غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کروں چندحقائق بیان کرنا چاہتا ہوں۔

1۔پہلی بات یہ ہے کہ بعض شدت پسند مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ معاندانہ رویہ ان کا اپناذاتی فعل ہے۔اس سلسلے میں اسلام کو قصور وار نہیں تصور کرنا چاہیے۔کیونکہ اسلام نے اس کا حکم نہیں دیا ہے ۔

2۔اپنے اس سخت گیر مؤقف کی وجہ سے اس طرح کے مسلمان نہ صرف یہ کہ دوسرے مسلمانوں کے لیےمسئلہ بن جاتے ہیں بلکہ خود اسلام کی بدنامی کا بھی سبب بن جاتے ہیں ۔غیر مسلمین ان کا یہ رویہ دیکھ کرسمجھتے ہیں کہ ان کادین اسلام اس طرح سے غیر اخلاقی سلوک کا حکم دیتا ہے۔

3۔اگر ان سخت گیر قسم کے مسلمانوں کے ماحول کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے اس رویے کےپیچھے صرف مذہبی عنصر ہی کارفرمانہیں ہے بلکہ بعض نفسیاتی،معاشرتی اور اقتصادی عوامل بھی کارفرما ہیں۔

4۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کا معاندانہ سلوک خود غیر مسلموں کے معاندانہ سلوک کا رد عمل ہے۔چونکہ بعض شدت پسند غیر مسلم عناصر مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلادشمنی کااظہار کرتے ہیں اس لیے اس کےردعمل میں بعض مسلمان بھی ان کے ساتھ اس طرح کے رویہ کو جائز تصور کرتے ہیں۔

ان حقائق کے بعد آئیے ذرا معلوم کریں کہ غیر مسلموں کے ساتھ رویہ کے سلسلے میں اسلام کا بنیادی تصور کیا ہے؟

اس معاملہ میں قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں ہمارارویہ رواداری پر مبنی ہونا چاہیے۔اسلام اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بنیادی اصول پیش کرتا ہے۔

1۔بحیثیت مسلم ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ ہر انسان بحیثیت انسان معزز ومکرم ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین اورکسی بھی رنگ ونسل سے ہو۔اللہ کافرمان ہے:

﴿وَلَقَد كَرَّمنا بَنى ءادَمَ... ﴿٧٠﴾... سورة الإسراء

’’اور ہم نے آدم علیہ السلام  کی اولاد کو تکریم عطا کی ہے۔‘‘

چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو معزز ومکرم بنایا ہے،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ انسان کی حیثیت سے ہم ہرانسان کی عزت وتکریم کریں۔اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک یہودی کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب سے گزرا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے احترام میں کھڑےہوگئے۔کسی نے تعجب سے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا کہ کیا وہ انسان نہیں تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ عمل انسان کو بحیثیت انسان تکریم عطا کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

2۔ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ کسی انسان کا مسلم یاکافر ہونااللہ کی مرضی سےہے۔اللہ چاہتا تو سبھی کومسلمان بنادیتا لیکن اللہ کی مرضی اورحکمت ہے کہ دنیا میں بعض مسلم ہوتے ہیں اور بعض دوسرے مذاہب کے پیروکار۔اللہ فرماتاہے:

﴿وَلَو شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النّاسَ أُمَّةً و‌ٰحِدَةً وَلا يَزالونَ مُختَلِفينَ ﴿١١٨﴾... سورة هود

’’تیرارب چاہتاتو تمام انسان کو ایک ہی امت بنادیتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب الگ الگ ہیں۔‘‘

چونکہ ہر شخص کامسلم یاکافر ہونا اللہ کی مرضی سے ہے اس لیے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کسی شخص کوقہراً جبراً مسلمان بنایاجائے۔اللہ  فرماتاہے:

﴿وَلَو شاءَ رَبُّكَ لَءامَنَ مَن فِى الأَرضِ كُلُّهُم جَميعًا أَفَأَنتَ تُكرِهُ النّاسَ حَتّىٰ يَكونوا مُؤمِنينَ ﴿٩٩﴾... سورة يونس

’’تمہارا رب چاہتا تو زمین کے سارے لوگ ایمان لے آتے۔کیا تم لوگوں کے ساتھ زورزبردستی کرنا چاہتے ہو تاکہ وہ ایمان لے آئیں؟‘‘

3۔کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کافر کے کفر کامحاسبہ کرے یا اسے اس کی گم راہی کی سزادے۔نہ تو یہ اس کی ذمہ داری ہے اور نہ یہ دنیا اس لیے بنائی ہی گئی ہے۔یہ اللہ کاکام ہے اور اللہ نے اس کے لیے آخرت بنائی ہے جہاں کافروں کو ان کے کفر کی سزا ملے گی۔اللہ کا فرمان ہے:

﴿فَلِذ‌ٰلِكَ فَادعُ وَاستَقِم كَما أُمِرتَ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم وَقُل ءامَنتُ بِما أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتـٰبٍ وَأُمِرتُ لِأَعدِلَ بَينَكُمُ اللَّهُ رَبُّنا وَرَبُّكُم لَنا أَعمـٰلُنا وَلَكُم أَعمـٰلُكُم لا حُجَّةَ بَينَنا وَبَينَكُمُ اللَّهُ يَجمَعُ بَينَنا وَإِلَيهِ المَصيرُ ﴿١٥﴾... سورة الشورىٰ

’’پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں اور کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں۔ ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں، ہم تم میں کوئی کٹ حجتی نہیں اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے‘‘

4۔ہرمسلم کایہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل وانصاف اوراخلاق حمیدہ کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ بد اخلاقی اور ظلم وزیادتی کی تعلیم نہیں دے سکتا۔خواہ معاملہ کافروں کے ساتھ ہو۔اللہ تعالیٰ ظلم وزیادتی اور حق تلفی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔اللہ فرماتاہے:

﴿وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ عَلىٰ أَلّا تَعدِلُوا اعدِلوا هُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ ... ﴿٨﴾... سورة المائدة

’’اورکسی قوم کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم عدل وانصاف سے پھر جاؤ۔عدل کرو یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ:

"دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ وَإِنْ كَانَ كَافِرًا فَإِنَّهُ لَيْسَ دُونَهَا حِجَابٌ " (مسند احمد)

’’مظلوم خواہ کافر ہو اس کی پکارکے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔(اس کی پکار فوراً خداتک پہنچتی ہے)‘‘

یہ ہیں اسلام کے چند بنیادی اصول ۔ان اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں اسلام کا کیا مؤقف ہے؟اسلام کی نظرمیں غیر مسلموں کی دو قسمیں ہیں۔

1۔غیر مسلموں کی ایک قسم وہ ہے جن کا دین آسمانی ہے اور جنھیں ہم اہل کتاب کہتے ہیں مثلاً یہودی اورعیسائی۔

2۔غیر مسلموں کی دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کا دین خود ان کا وضع کردہ ہے اور ان میں بت پرستی پائی جاتی ہے۔مثلاً ہندو جو کہ بت پوجت ہیں یا مجوسی جو کہ آگ پوجتےہیں۔

اسلامی شریعت میں دوسری قسم کے غیر مسلموں کے مقابلہ میں پہلی قسم کے غیر مسلموں کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔چنانچہ اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قراردیا ہے اور ان کی عورتوں سے شادی جائز قراردی ہے:

﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ وَمَن يَكفُر بِالإيمـٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٥﴾... سورة المائدة

’’کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں‘‘

ان کی عورتوں سے شادی کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سارے سسرالی رشتہ دار اہل کتاب ہیں اور اس کے بچے کے ماموں خالہ نانا نانی وغیرہ بھی اہل کتاب ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں تسامح اور رواداری کی یہ عظیم ترین مثال ہے۔

ایک دوسرے زاویہ سے غیرمسلموں کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ایک قسم ان غیر مسلموں کی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے تئیں کھلم کھلا دشمنی رکھتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور انھیں تباہ وبرباد کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

2۔دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں سے کوئی بیر نہیں رکھتے اور نہ ہی انھیں نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ نارمل طریقہ سے اور دوستانہ ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ان دونوں کے سلسلے میں اسلام کا مؤقف ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔اگر کوئی مسلمان ان دونوں قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ ایک ہی جیسا برتاؤ کرتا ہے تو وہ انتہائی غلطی پر ہے۔

پہلی قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسی قسم کی موالات،دوستی،ہمدردی اور میل ملاپ سے منع فرمایا ہے۔کیونکہ یہ لوگ ہمارے ساتھ دشمنی اورجنگ پر آمادہ ہیں اور ہمارا وجود انھیں برداشت نہیں ہے۔جب کہ دوسری قسم کے غیرمسلموں کےساتھ ہمیں حسن سلوک اور عدل وانصاف پر مبنی معاملہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔کیونکہ ان کا سلوک بھی ہمارے ساتھ معاندانہ نہیں بلکہ دوستانہ ہے۔ذیل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کردیا ہے ان دونوں قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ ہمارارویہ کیسا ہونا چاہیے۔

﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨ إِنَّما يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قـٰتَلوكُم فِى الدّينِ وَأَخرَجوكُم مِن دِيـٰرِكُم وَظـٰهَروا عَلىٰ إِخراجِكُم أَن تَوَلَّوهُم وَمَن يَتَوَلَّهُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٩﴾... سورةالممتحنة

’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (8) اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں شہر سے نکال دیئے اور شہر سے نکالنے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وه (قطعاً) ظالم ہیں‘‘

کسی اسلامی ملک کے اندر رہنے والی غیر مسلم اقلیت کو اسلامی شریعت کی اصطلاح میں اہل ذمہ کہتے ہیں۔اہل ذمہ کا مفہوم یہ ہے کہ غیر مسلم اللہ،رسول اور مسلمانوں کی پناہ میں ہیں۔اب اب کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان حقوق کے عوض ان پرجزیہ فرض کیا ہے،جسے وہ مسلم حکومت کو ادا کریں گے۔[1]

 بعض غیرمسلمین لفظ"جزیہ" کو اپنی توہین محسوس کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس لفظ کو بدل دیا جائے کیونکہ اس میں حقارت کی بوآتی ہے۔جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے زمانہ خلافت میں بعض عیسائیوں نےمطالبہ کیا تھا۔وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار تھے لیکن جزیہ کے نام پرنہیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ان کے مطالبہ کوتسلیم کرلیا حالانکہ یہ لفظ قرآن میں مذکور ہے۔ان سے ٹیکس وصول کیا لیکن جزیہ کے نام پر نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا یہ عمل ایک نہایت اہم بات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ اصل اہمیت نام کی نہیں بلکہ مقصد وغایت کی ہے۔اگر مقصد حاصل ہورہا ہے تو اسے کسی بھی نام سے تعبیر کیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں  پڑتا۔

جس طرح مسلمانوں کی جان ومال اوران کے حقوق کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے ،اسی طرح غیر مسلم اقلیت کی جان ومال کی حفاظت ،ان کے تمام شہری حقوق اور ان کے مذہبی مقامات ومقدسات کی دیکھ بھال کی ذمے داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔غیر مسلم اقلیت کے لیے اسلامی شریعت کے یہ قوانین صرف اعتراف کرنے اور کتابوں میں لکھنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عملاً انھیں نافذ کیا جائے اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کیاجائے۔

قانونی حیثیت سے غیر مسلم اقلیت جن رعایتوں اور رواداریوں کی مستحق ہے انھیں ہم مختصراً یوں بیان کرسکتے ہیں:

1۔انھیں اپنے دین ومذہب کی مکمل آزادی حاصل ہے۔انھیں بزور طاقت اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان پر کسی قسم کی سیاسی ،معاشی یا سماجی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔

2۔انھیں اپنے مذہبی رسم ورواج اور عبادات پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔انھیں اس بات پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے کسی دینی فریضے کوترک کردیں یا کوئی ایسا کام کریں جو ان کے مذہب کی رو سے گناہ ہے۔مثلاًاگر یہودی سنیچر کے دن کام کرنے کو اپنے مذہب کی رو سے غلط تصور کرتا ہے تو اسلامی حکومت میں انھیں سنیچر کے دن کام کرنے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔اسی طرح اگر کوئی عیسائی اتوار کے دن گرجاگھر جانا ضروری سمجھتا ہے تو اسے ایسا کرنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔

3۔ان کے مذہب میں جو چیز حلال ہے اس پر ان کے لیے پابندی نہیں لگائی جاسکتی اگرچہ وہ چیز اسلام میں صریح حرام ہو۔اسی طرح جو چیز ان کے مذہب میں حرام ہے اسے اپنانے پر انھیں مجبور نہیں کی جاسکتا اگرچہ وہ چیز اسلام میں حلال ہو۔مثلاً اگر عیسائیوں کے مذہب میں سور کا گوشت کھانا اور شراب پینا حلال ہے تو اسلامی حکومت میں ان پر یہ چیزیں حرام نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ان کے مذہب میں یہ چیزیں حلال ہیں۔اگرچہ یہ چیزیں اسلام میں حرام ہیں۔

یہ وہ رعایتیں اور رواداریاں ہیں جو غیر مسلم اقلیت کو قانوناً حاصل ہیں۔ان کے علاوہ بعض ایسی رواداریاں بھی ہیں  جو قانون کے دائرے میں نہیں آتی ہیں  بلکہ حسن اخلاق کے زمرے میں آتی ہیں اور جنھیں اختیار کرنے کا ہمیں حکم دیاگیا ہے۔مثلاً ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا سلوک اور برتاؤ حسن اخلاق وحسن معاشرت پر مبنی ہونا چاہیے۔اگروہ ہمارے پڑوسی ہیں تو پڑوسیوں کے مکمل حقوق انھیں ادا کریں اوراگروہ ہمارے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ ہم ان کے ساتھ بُرا سلوک کریں۔غیر مسلم والدین کے سلسلہ میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ:

﴿وَصاحِبهُما فِى الدُّنيا مَعروفًا ...﴿١٥﴾... سورة لقمان

والدین کے علاوہ غیر مسلمین جو ہمارے ساتھ مذہبی دشمنی نہیں رکھتے ہیں ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ عدل وانصاف اور حسن اخلاق پر مبنی ہونا چاہیے۔

فرمان الٰہی ہے:

﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾... سورة الممتحنة

’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘

ایک دوسری آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ مشرکین کو راہِ راست پر لانا تمہارا نہیں بلکہ اللہ کا کام ہے۔ان کے مشرک ہونے کے باوجود ان کی مالی مدد سے تم گریز نہ کرو۔

﴿ لَيسَ عَلَيكَ هُدىٰهُم وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَلِأَنفُسِكُم وَما تُنفِقونَ إِلَّا ابتِغاءَ وَجهِ اللَّهِ ...﴿٢٧٢﴾... سورة البقرة

’’انھیں ہدایت دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو کچھ تم مال خرچ کرو گے اس میں تمہارا ہی بھلا ہے۔اور تم صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرتے ہو۔‘‘

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد رشید محمد بن حسن روایت کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں جب قحط کی صورت پیدا ہوگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ کے قریب مشرکین کی مدد کے لیے مالی امداد نہ کی حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ مکہ والوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ کتنا بُرا سلوک کیا تھا۔بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا    فرماتی ہیں کہ میرے پاس میری والدہ تشریف لائیں اور وہ مشرک تھیں۔میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ میری والدہ آئی ہوئی ہیں کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جوابدیا ہاں ضرور کرو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت پاک کامطالعہ کرنے والا شخص بخوبی جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اہل کتاب اورمشرکین کے ساتھ ہمیشہ اچھابرتاؤ کرتےتھے۔ان کے پاس تشریف لے جاتے۔ان کی خیریت دریافت کرتے،حتی المقدور ان کی مدد کرتے اور ان کے بیماروں کی تیمارداری کرتے۔

ابن اسحاق کی سیرت نبوی میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ نجران سے ایک عیسائی وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملاقات کی غرض سے مدینہ آیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اس وقت عصر کی نماز سے فراغت کے بعد مسجد نبوی ہی میں تشریف فرماتھے۔اسی درمیان میں عیسائیوں کی عبادت کا وقت ہوگیا۔چنانچہ وہ عیسائی مسجد نبوی کے اندر اپنی عبادت ادا کرنے لگے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  انھیں روکنے کے لیے آگے بڑھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ  انھیں اپنی عبادت کرنے دو۔چنانچہ مسجد نبوی کےاندر ان عیسائیوں نے اپنی عبادت ادا کی۔

سعید بن المسیب روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک یہودی کے گھروالوں کے لیے صدقہ جاری کیا جوآج تک جاری ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک بیمار یہودی کی عیادت کو تشریف لے گئے۔اور باتوں باتوں میں اسے اسلام قبول کرنے کی پیش کش کی چنانچہ اس حسن اخلاق سے متاثر ہوکر اس یہودی نے اسلام قبول کرلیا۔

بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے  گھر کی اخراجات کے لیے کسی یہودی سے قرض لیا اور رہن کے طور پر اپنی زرہ اس کے پاس رکھ دی اور اسی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا انتقال ہوگیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  چاہتے تو کسی صحابی سے قرض لے سکتے تھے۔سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اپناسب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔لیکن اس کے باجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودی سے قرض لے کر اس بات کی تعلیم دی ہے کہ مشرکین واہل کتاب کے ساتھ بھی ہمارا معاملہ ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔معتبر  روایتوں میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے غیر مسلموں کے ہدیے اور تحائف بھی قبول کیے ہیں۔

یہ ہیں قرآن وحدیث کی چند دلیلیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا سلوک حسن اخلاق اور حسن معاشرت پر مبنی ہونا چاہیے۔ان کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی عملی زندگی سے بھی مختلف دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ایک غریب یہودی کے گھر والوں کے لیے بیت المال سے ماہانہ وظیفہ جاری کروایا۔پھر یہ آیت پڑھی:

﴿إِنَّمَا الصَّدَقـٰتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـٰكينِ...﴿٦٠﴾... سورة التوبة

"بلاشبہ صدقہ فقراء ومساکین کے لیے ہے"

اور فرمایا کہ فقراء ومساکین یہودی اور عیسائیوں میں بھی ہوسکتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی سفر میں عیسائیوں کے ایک گاؤں سے گزرے۔گاؤں والوں کو کوڑھ کا مرض لاحق تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کی رقم سے ان کی مدد کا حکم جاری کیا۔

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک مجوسی ابولؤلؤ نے شہید کیا تھا۔اس کے باوجود آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے بستر مرگ پر لوگوں کو وصیت کی کہ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔یہ واقعہ بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ پڑوس میں جاکر فلاں یہودی کو قربانی کے گوشت میں سے ایک حصہ دےدے۔غلام نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ قربانی کے گوشت میں یہودی کا حصہ کیسے ہوسکتا ہے۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ وہ بھی تو ہمارا پڑوسی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ا رشاد ہے کہ:

"مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ"(بخاری ومسلم)

’’جبرئیل علیہ السلام  مجھے بار بار پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دے رہے ہیں یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وراثت کا حقدار بنادیں گے۔‘‘

بعض تابعین عیسائی پادریوں کو صدقہ فطر دینے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے۔بلکہ ان میں سے بعض مثلاً امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  ابن سیرین  رحمۃ اللہ علیہ  اور عکرمہ  رحمۃ اللہ علیہ  جیسے جلیل القدر تابعین عیسائی پادریوں کو زکوٰۃ کی رقم دینے میں بھی کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے۔

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کے سلسلے میں ایک مشہور روایت ہے کہ انھوں نے تیمورلنگ سے جنگی قیدیوں کی رہائی کی بات چیت کی۔تیمورلنگ  امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کے احترام میں صرف مسلم قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوگیا۔لیکن ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  بضد ہوگئے کہ صرف مسلم قیدیوں کو رہا کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ ان کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی رہا کرنا ہوگا۔

قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم  ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ  کے عملی نمونوں کو دیکھ کر یہ سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور خاص کر ان غیر مسلموں کے ساتھ جو کسی اسلامی ملک میں اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔غور کریں کہ جب کسی اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اچھے برتاؤ کی اتنی تاکید ہے تو کسی کافر ملک میں مسلم اقلیت کے لیے یہ بات کس قدراہم ہے کہ وہ غیر مسلم اکثریتی فرقہ کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ذرا سوچیں تو سہی کہ اگر ہم غیر مسلموں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کریں گے اور ان کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کریں گے تو پھر ہم کس منہ سے غیر مسلموں سے کہہ سکیں گے کہ اسلام اچھے اخلاق کا حکم دیتا ہے۔اور اسلام بہت اچھا مذہب ہے ۔ہم کیسے انھیں اسلام کی طرف راغب کرسکیں گے۔ہماری بداخلاقی دیکھ کر تو وہ اور بھی ہم سے دور ہوجائیں گے،ہم سے نفرت کریں گے اور ہمارے دشمن بن جائیں گے اورآج کل یہی کچھ ہورہاہے۔


[1]۔اسلامی شریعت کے مطابق اہل ذمہ کی حیثیت وہی ہے جو کسی مسلمان شہری کی ہے۔وہ بھی مسلمانوں کی طرح پہلے درجہ کے شہری ہیں اور انھیں وہ تمام حقوق ومراعات حاصل ہیں جو مسلمانوں کے لیے ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

سیاسی مسائل،جلد:2،صفحہ:305

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ