سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) اسلام اور جمہوریت

  • 23963
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-30
  • مشاہدات : 8836

سوال

(60) اسلام اور جمہوریت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے سخت تعجب اور حیرت ہوئی جب میں نے کسی عالم دین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جمہوریت اسلام کے منافی ہے اور یہ کہ جمہوریت کفر ہے۔ کیوں کہ جمہوریت کا مفہوم ہے عوام اور اکثریت کی حاکمیت جب کہ اسلام کی نظر میں حاکمیت،جب کہ اسلام کی نظر میں حاکمیت انسانوں کی نہیں بلکہ صرف اللہ کی ہونی چاہیے:

﴿ إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ...﴿٥٧﴾... سورة الانعام

’’بلا شبہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔‘‘

میری اپنی ناقص رائے یہ ہے کہ اس طرح باتوں سے اسلام کے دشمنوں کوشہ ملتی ہے اور وہ کہتے نہیں جھجکتے کہ اسلام جمہوریت کا دشمن ہے اور ڈکٹیٹر شپ کا حامی کیا واقعی اسلام کی نظر میں جمہوریت کفر اور گناہ ہے؟ بہ راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہت افسوس اور تکلیف کی بات ہے کہ بعض دین دار حضرات اسلام کا صحیح اور مکمل علم نہ رکھنے کے باوجود اسلام کے سلسلے میں حق و ناحق کچھ بھی کہتے ہیں۔ حتی کہ کسی کے خلاف کفر کا فتوی صادر کر دینا ان کے لیے بڑی آسان سی بات ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کسی کے خلاف کفر کا فتوی صادر کر دینا کتنی غیر معمولی بات ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی کے خلاف کفر کا فتوی صادر کرتا ہے بہت ممکن ہے کہ یہ فتوی خود اس کی طرف پلٹ کر آجائے۔ بعض دین دار حضرات جمہوریت کے سلسلے میں اپنی اس عجیب و غریب رائے کا اظہار بڑی بے باکی سے کرتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ انھیں خود پتا نہیں ہے کہ جمہوریت کیا شے ہے؟

جمہوریت اس نظام حکومت کا نام ہے جسے انسان نے ڈکٹیٹرقسم کے حاکموں کے ظلم و استبداد کی ایک طویل تاریخ اور اس کے خلاف مسلسل جدو جہد کے تجربہ و تحقیق کے نتیجے میں تلاش کیا ہے۔ اب ساری دنیا میں اسی نظام حکومت کا ڈنکا بجتا ہے اور ساری دنیا کےعوام اسی نظام حکومت کے نفاذ میں دلچسپی رکھتے ہیں اس جمہوریت کے نفاذ کے لیے وہ مسلمان بھی جدو جہد کر رہے ہیں جو بعض غیر جمہوری ملکوں میں رہنے کی وجہ سے اسلام پر آزاد نہ عمل اور اس کی تعلیم و تفہیم کی آزادی سے محروم ہیں۔

ڈکشنری اور سیاست کی کتابوں میں جمہوریت کی اصطلاحی تعریف کچھ بھی ہو لیکن اس کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی مرضی اور اپنی پسند کے حکمرانوں کے انتخاب میں مکمل آزادی ہو۔ ان پر ایسے حکمراں مسلط نہ کر دیے جائیں جنھیں وہ ناپسند کرتے ہوں یا ان کی نرمی کے خلاف ایسی معاشی و معاشرتی پالیسیاں نہ تھوپ دی جائیں جن میں ظلم واستبداد کا رنگ غالب ہو اور انھیں اس بات کا پورا حق حاصل ہو کہ عوامی اور ملکی مفاد سے ہٹ کر چلنے والے  حکمرانوں کا محاسبہ کر سکیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں برطرف بھی کرسکیں ۔

یہ ہے موجودہ جمہوریت کی حقیقت جس کے عملی نفاذ کے لیے مختلف وسائل اختیار کیے جاتے ہیں مثلاً الیکشن کی کاروائیاں پارلیمنٹ کا قیام متعدد سیاسی پارٹیوں کا وجود اقلیت کو سیاسی اختلاف کی آزادی صحافت کی آزادی اور عدلیہ کا غیرجانب دار ہونا وغیرہ وغیرہ۔

آپ ذراغور کریں کیا اس جمہوریت میں واقعی کوئی ایسی بات ہے جو اسلام کے منافی ہے؟ کیا قرآن و سنت سے ایک بھی ایسی دلیل پیش کی جا سکتی ہے جو اس جمہوریت کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قراردے؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ جمہوریت اسلام کے منافی نہیں ہے بلکہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اسلام اس بات کا شدید مخالف ہے کہ لوگوں کی قیادت اور امامت کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں سونپ دی جائے جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ چاہے یہ پورے ملک کی قیادت ہویا نماز کے لیے ایک جماعت کی امامت ہو۔ حدیث شریف ہے:

"ثَلَاثَةٌ لَا تَرْتَفِعُ صَلَاتُهُمْ فَوْقَ رُءُوسِهِمْ شِبْرًا ؛ رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ" (ابن ماجه)

’’تین لوگ ایسے ہیں جن کی نماز ان کے سرسے اوپر ایک بالشت نہیں جاتی ان تینوں میں سے ایک شخص وہ ہے جو نماز کی امامت کرے اور لوگ اس کی امامت کو ناپسند کرتے ہوں۔‘‘

ذرا غور کریں کہ اسلام نماز باجماعت میں چند لوگوں کی قیادت کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں دینے کے خلاف ہے جسے اکثریت ناپسند کرتی ہوتو پورے ملک کی قیادت کسی ایسےشخص کے ہاتھ میں دینا اسے کیسے گوارا ہوگا جسے اکثریت پسند نہ کرتی ہو۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُم ْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُ مْ وَتَلْعَنُونَهُ مْ وَيَلْعَنُونَكُ ....." (مسلم)

’’تمھارے اچھے فرماں رواہ وہ ہیں جنھیں تم پسند کرتے ہو اور وہ تمھیں پسند کرتے ہوں اور تم ان کے لیے دعائیں کرتے ہو اور وہ تمھارے لیے دعائیں کرتے ہوں۔اور تمھارے برے فرماں رواہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہوں اور تم انھیں لعن طعن کرتے ہو اور وہ تمھیں لعن طعن کرتے ہوں۔‘‘

پورا قرآن پڑھا جائیے ۔ جابجاآپ کو اللہ کا قہران حکمرانوں پر ٹوٹتا نظر آئے گا جو اللہ کے بندوں پر ظلم و فساد برپا کرتے ہیں۔ قرآن میں متعدد مقامات پر فرعون نمرود، ہامان اور عادوشمود کا تذکرہ اسی غرض و غایت کے تحت ہوا کہ ان لوگوں نے اللہ کی زمین پر ظلم و فساد برپا کیا تو اللہ نے ان کی زبردست پکڑ کی۔ملاحظہ ہوسورہ فجر کی مندرجہ ذیل آیتیں:

﴿أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعادٍ ﴿٦ إِرَمَ ذاتِ العِمادِ ﴿٧ الَّتى لَم يُخلَق مِثلُها فِى البِلـٰدِ ﴿٨ وَثَمودَ الَّذينَ جابُوا الصَّخرَ بِالوادِ ﴿٩ وَفِرعَونَ ذِى الأَوتادِ ﴿١٠ الَّذينَ طَغَوا فِى البِلـٰدِ ﴿١١ فَأَكثَروا فيهَا الفَسادَ ﴿١٢ فَصَبَّ عَلَيهِم رَبُّكَ سَوطَ عَذابٍ ﴿١٣ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالمِرصادِ ﴿١٤﴾... سورة الفجر

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عادیوں کے ساتھ کیا کیا (6) ستونوں والے ارم کے ساتھ (7) جس کی مانند (کوئی قوم) ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی (8) اور ثمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے (9) اور فرعون کے ساتھ جو میخوںوالاتھا (10) ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا (11) اور بہت فساد مچا رکھا تھا (12) آخر تیرے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسایا (13) یقیناً تیرا رب گھات میں ہے‘‘

قرآن صرف انھی ظالم حکمرانوں کی سرزنش نہیں کرتا بلکہ اللہ کی نظر میں وہ عوام الناس (پبلک) بھی مجرم اور قصوروار ہیں جو ان ظالم حکمرانوں کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿وَتِلكَ عادٌ جَحَدوا بِـٔايـٰتِ رَبِّهِم وَعَصَوا رُسُلَهُ وَاتَّبَعوا أَمرَ كُلِّ جَبّارٍ عَنيدٍ ﴿٥٩﴾... سورة هود

’’یہ ہیں عاد اپنے رب کی آیات سے انھوں نے انکار کیا۔ اس کے رسولوں کی بات نہ مانی اور ہر سرکش اور ظالم و جابر کی پیروی کی۔‘‘

وہ فوج بھی اللہ کی نظر میں قصور وار ہے جسے ظالم حکمراں عوام الناس پر ظلم واستبداد کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿إِنَّ فِرعَونَ وَهـٰمـٰنَ وَجُنودَهُما كانوا خـٰطِـٔينَ ﴿٨﴾... سورة القصص

’’بلا شبہ فرعون وہامان اور ان کی فوج غلطی پر تھے۔‘‘

قرآن کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی ان ڈکٹیٹرقسم کے حکمرانوں کے لیے زبردست وعید ہے جو عوام الناس پر ظلم کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إن في جهنم وادياً في الوادي بئر يقال لها هبهب، على الله أن يسكنه كل جبار" (طبرانی حاکم)

’’جہنم میں ایک وادی ہے اس وادی میں ایک کنواں ہے جس کا نام ہبہب ہے۔ اللہ نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ اس میں ان لوگوں کو ڈالے گا جو ظالم و جابر ہیں۔‘‘

کون نہیں جانتا کہ اسلامی نظام حکومت میں شوری کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے شوری یہ ہے کہ عوام ا لناس (پبلک)میں سے چند ایسے افراد منتخب ہوں جو باصلاحیت اور تجربہ کارہوں تاکہ حاکم وقت کارہائے سیاست چلانے میں ان سے مشورے لیتا ہے۔ شوری کی طرح عوام ا لناس بھی اس بات کے پابند ہیں کہ اپنے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو مفید مشورے دیتے رہیں۔

جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ:

"الدِّينُ النَّصِيحَةُ

’’دین نصیحت ہے‘‘

اس حدیث کے الفاظ کے مطابق یہ نصیحت حکمرانوں کے لیے بھی ہے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے عمدہ مشورے اپنے حکمرانوں تک پہنچاتے رہیں اور اگر انھیں غلطی پر دیکھیں نصیحت کریں۔ بلکہ حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے افضل جہاد سے تعبیر کیا ہے۔

"أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ"

’’سب سے افضل جہاد کسی ظالم حکمراں کے سامنے حق بات کہنا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کو یہ بات نہایت پسند ہے کہ ظالم حاکموں کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کیا جائے اور حکومت چلانے کے لیے انھیں بہتر پالیسیوں سے باخبر کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین نے مسند خلافت پر بیٹھنے کے معاًبعد جو خطبہ دیا تھا اس میں اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ کیا تھا ۔ مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جو تقریر کی تھی اس میں یہ بات کہی تھی:

"أيها الناس! إني قد وُلِّيتُ عليكم ولستُ بخيركم، فإن رأيتموني على حق، فأعينوني، وإن رأيتموني على باطل فَسَدِّدُوني"

"اے لوگو!میں تمھارا سربراہ مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ میں سب سے بہتر شخص نہیں ہوں ۔ اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرنا۔ اور اگر غلطی پر دیکھو تو مجھے سیدھا راستہ دکھانا۔"اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کہی تھی:

"أيها الناس من رأى منكم فيّ اعوجاجاً فليقومه"

"اے لوگو!تم میں سے جو میرے اندر کجی پائے تو وہ مجھے ٹھیک کردے۔"

کسی بھی محفل میں جب کسی عورت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو کسی بات پر ٹوکا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"أصابت امرأة وأخطأ عمر"

"عورت نے ٹھیک بات کہی اور عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے غلطی ہو گئی۔"

آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ موجودہ جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ اسلامی نظام حکومت سے بہت مختلف نہیں ہے۔ موجودہ جمہوریت میں بھی عوام میں سے چند لوگ منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں جاتے ہیں سر براہ مملکت ان ممبران پارلیمنٹ کے مشورے سے کارہائے حکومت انجام دیتا ہے۔عوام ا لناس (پبلک)کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہوتا ہے انھیں اس بات کا بھی حق حاصل ہوتا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کریں اور اپنے مفید مشوروں کے ذریعے سے حکومت کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مدد کریں۔ حقیقت  یہ ہے کہ اسلام نے جمہوریت کے لیے بنیادی اصول پہلے ہی فراہم کر دیے تھے۔ اور باقی رہیں اس کی تفصیلات اور جزئیات تو یہ لوگوں کے صواب دید پر چھوڑدیا کہ وہ اپنے زمانے کی ضرورتوں اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق طے کر لیں۔

موجودہ دور کے انسان نے ڈکٹیٹراور ظالم و جابر حکمرانوں اور بادشاہوں کے خلاف طویل جنگ کے بعد ایک ایسا نظام حکومت تلاش کیا ہےجسے انھوں نے جمہوریت کا نام دیا ہے اور جس میں عوام ا لناس کو ظالم حکمرانوں کے جنگل سے آزاد کرنے اور انھیں بنیادی حقوق دلانے کی پھر پور کوشش کی گئی ہے۔

جمہوریت کو جمہوریت کا نام عطا کرنے والے اور اس کے اصول وقواعد واضع کرنے والے اگرچہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم غیر قوموں سے اچھی باتیں سیکھیں اور انھیں اختیار کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم بھی یہی ہے حکمت ودانائی کی باتیں مومن کی گم شدہ دولت ہے جہاں سے انھیں یہ دولت مل جائے انھیں اختیار کرنا چاہیے۔چنانچہ حکمت و دانائی کی باتیں اور نفع بخش چیزیں اگر ہمیں غیر مسلموں سے ملتی ہیں تو انھیں اختیار کرنا چاہیے یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم ہے اور اسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے راشدین کا عمل تھا۔ چنانچہ غزوہ خندق کے موقعے پر خندق کھودکر جنگ کرنےکا طریقہ انھوں نے غیر مسلمانوں سے سیکھا اور جنگ بدر کے جنگی قیدیوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شرط پر رہائی عطا کی کہ وہ مسلمان کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے۔غیر مسلموں سے لکھنا پڑھنا اور دوسری مفید باتیں ان سے سیکھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کے مطابق ہمیں جہاں سے بھی اچھی اور نفع بخش باتیں حاصل ہوں انھیں اختیار کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ اس بنیاد پر میں ہمیشہ اپنے اس موقف کا اظہار کرتا آیا ہوں  کہ غیر قوموں کے اچھے خیالات بہتر طرز رہائش مفید ٹکنالوجی اور نفع بخش قوانین و ضوابط کو اختیار کرنا ہمارے حق میں بہتر ہے بہ شرطے کہ یہ خیالات اور قوانین قرآن و حدیث اور اسلام کے بنیادی اصول وضوابط کے خلاف نہ ہوں۔"

موجودہ جمہوریت کے اصول و ضوابط پر غور کریں تو اس میں وہ بہت ساری باتیں ملیں گی جن کی اسلام نے تعلیم دی ہے صرف نام کا فرق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ موجودہ جمہوریت میں الیکشن اور ووٹنگ وہی چیز ہے جسے اسلامی قانون میں "شہادت"کا نام دیا گیا ہے شہادت کا مفہوم یہ ہے کہ اچھے لوگوں کے حق میں گواہی دی جائے کہ وہ اچھے ہیں ووٹنگ بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ باصلاحیت لوگوں کے حق میں گواہی دی جائے اور اپنی اس رائے کا اظہار کیا جائے کہ یہ لوگ حکومت چلانے کے لیے مناسب افراد ہیں۔ اسلام کی نظر میں شہادت نہ دینا اور اسے چھپانا جس طرح گناہ ہے میرے خیال میں ووٹ نہ ڈالنا بھی اسی طرح گناہ ہے۔ کیوں کہ اگر ووٹ کے زریعے سے اچھے لوگوں کو حکومت میں لانے کی کوشش نہ کی گئی تو یقیناً حکومت میں وہ لوگ آجائیں گے جو عوام اور ملک دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ اللہ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَكتُمُوا الشَّهـٰدَةَ وَمَن يَكتُمها فَإِنَّهُ ءاثِمٌ قَلبُهُ ...﴿٢٨٣﴾... سورة البقرة

’’اور گواہی نہ چھپاؤ جو شخص گواہی چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے۔‘‘

جس طرح شہادت کو چھپانا گنا ہ ہے اسی طرح یہ بھی گناہ ہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں شہادت یا ووٹ یا وووٹ دیا جائے جو نا مناسب اور غلط قسم کے ہوں ۔ایسے لوگوں کے حق میں ووٹ دینا فرض ہے جو عدل و انصاف کے علمبردار ہیں۔ ملاحظہ ہو اللہ کا یہ فرمان :

﴿وَأَشهِدوا ذَوَى عَدلٍ مِنكُم...﴿٢﴾... سورة الطلاق

’’اور تم اپنے میں سے دوصاحب عدل لوگوں کو گواہ بناؤ۔‘‘

اسی طرح ہمیں اس بات کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہم یہ شہادت یا ووٹ اس بنا پر نہ دین کہ فلاں ہمارا رشتہ دار ہے یا ہمارے علاقہ کا ہے یا ہماری پارٹی کا ہے ۔بلکہ صرف اللہ کی خاطر ووٹ دیں۔ اور ایسے لوگوں کے حق میں دیں جو اچھے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿ وَأَقيمُوا الشَّهـٰدَةَ لِلَّهِ...﴿٢﴾... سورة الطلاق

’’اوراللہ کی خاطر گواہی قائم کرو۔‘‘

اسی طرح موجودہ جمہوریت میں ہم جس چیز کو پارلیمنٹ کہتے ہیں اسلامی اصطلاح میں اس کا نام شوری ہے۔ اسی طرح موجودہ جمہوریت میں آزادی رائے انسانی حقوق ،ہر خاص و عام کے لیے یکساں قانون اور یکساں عدل و انصاف اور اس طرح کے بے شمار ایسے اصول وقوانین ہیں جنھیں اسلامی شریعت نے بھی اسی قدر اہمیت دی ہے جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ موجودہ جمہوریت میں عوام الناس کی حاکمیت ہوتی ہے جب اسلام صرف اللہ کی حاکمیت کا قائل ہے ان کا اعتراض ہی بے بنیاد ہے۔ کیوں کہ جمہوریت میں عوام الناس کی حاکمیت کے دعوی کا مطلب خدا کی حاکمیت سے اعلان آزدی نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ ڈکٹیٹر قسم کے حکمرانوں کے ہاتھوں سے زمام حکومت چھپن کر عوام الناس کے ہاتھوں میں سونپ دی جائے۔ تاکہ چند ڈکٹیٹر قسم کے لوگ عوام الناس کی تقدیر کے مالک بن کر ان پر ظلم و جورنہ کر سکیں

عوام الناس کی حاکمیت کا مفہوم یہ ہے کہ عوام الناس اپنی مرضی سے اچھے لوگوں کا انتخاب کر سکیں اور انتخاب کے بعد اگر یہ لوگ غلط راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی غلطیوں پر محاسبہ کر سکیں اور ضرورت پڑنے پر ان کے منصب سے انھیں بر طرف بھی کر سکیں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اسلامی قوانین یا اللہ کی حاکمیت کے خلاف ہو۔ اللہ کی حاکمیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی اس تمام کائنات کا مدبراور منتظم ہے۔ ساری کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے اور اسی کے اشارہ پر سب کچھ ہوتا ہے۔ ایک پتا بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا ۔ اللہ کی حاکمیت کا مفہوم یہ بھی ہے کہ حلال و حرام اور صحیح و غلط کا فیصلہ کرنا اللہ کاکام ہے۔ اللہ نے جسے حلال قراردیا اسے کوئی حرام نہیں قراردے سکتا اور اللہ نے جس چیز کو غلط کہہ دیا ہے وہ چیز صحیح نہیں ہو سکتی۔

الغرض جمہوریت کو بہ طور نظام تسلیم کرنے کا مطلب اللہ کی حاکمیت سے انکار نہیں ہے۔اور نہ عوام الناس کو حاکم مان کر اللہ کے برابر لا کھڑا کرنا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جمہوریت ہی وہ طرز حکومت ہےجس کے ذریعے سے اسلام کے بنیادی سیاسی اصول وقواعد کو عملاً نافذ کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ جمہوریت کے مخالفین ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے کو ہی حق بہ جانب سمجھ کر اسے قبول کر لیا جاتا ہے اور اقلیت کی رائے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ گویا حق کا معیار اکثریت ہے نہ قرآن و سنت اور اسلامی شریعت جب کہ اسلامی شریعت کی روسے حق بات وہ ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہے چاہے اکثریت اس کے خلاف ہو اور غلط بات وہ ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے خواہ اکثریت اس کے حق میں ہو۔ یعنی کسی بات کے حق و ناحق ہونے کا معیار قرآن و سنت ہے کہ اکثریت و اقلیت کا رجحان لیکن یہ اعتراض سراسر بے بنیاد ہے۔ کیوں کہ اسلامی جمہوریت میں اکثریت و اقلیت کا رجحان ان باتوں میں معلوم کیا جاتا ہے جن میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے۔ اور یہ باتیں دین کے بنیادی اصول وقواعد سے تعلق نہیں رکھتی ہیں۔ جن امور کے بارے میں قرآن و حدیث کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ صحیح ہیں یا غلط ان میں اکثریت و اقلیت کا رجحان نہیں جانا جاتا ہے۔ بلکہ ان باتوں میں رجحان معلوم کیا جاتا ہے۔ جنھیں ہم اجتہادی معاملات کہتے ہیں ان میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے مثلاً ٹیکسوں کی تعیین کا مسئلہ ٹریفک کے قوانین کے انضباط کا مسئلہ بہت سارے امیدواروں میں سے کسی ایک امیدوار کے انتخاب کا مسئلہ یا ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ۔اس طرح کے بے شمار دنیوی مسائل ہیں جن میں عموماًلوگوں کی رائے مختلف ہو جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان مختلف رایوں میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی معیار تسلیم کرنا ہو گا۔اس کا سب سے عمدہ معیار یہ ہے کہ اکثریت کو معیار تسلیم کیا جائے عقل بھی یہی کہتی ہے۔کہ ایک مقابلہ میں دو لوگوں کی رائے زیادہ بہتر ثابت ہو سکتی ہے چنانچہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے راشدین نے بھی اسی معیار کو اختیار کیا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے فرمایا تھا:

"لَوْ اجْتَمَعْتُمَا فِي مَشُورَةٍ مَا خَالَفْتُكُمَا " (مسند احمد)

’’تم دونوں اگر کسی مسئلہ پر ایک رائے ہو جاؤ تو میں تمھارے خلاف نہیں رہوں گا۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مقابلے میں دو کی رائے کو فوقیت دی تھی۔چنانچہ غزوہ اُحد کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اکثریت کی رائے کو اختیار کیا جو اس بات کے حق میں تھی کہ شہر سے باہر نکل کر جنگ کی جائے جب کہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کی رائے اس سے مختلف تھی وہ شہر کے اندر رہ کر جنگ کرنا چاہ رہے تھے اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے خلیفہ وقت کے انتخاب کے لیے جس مجلس شوری کا اعلان کیا تھا انھیں یہ تلقین کی تھیں کہ مجلس شوری میں اکثریت جس کے حق میں ہواسی کو خلیفہ وقت تسلیم کیا جائے۔ اسی طرح حدیث میں "سواداعظم "کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے سواداعظم کا مطلب ہے لوگوں کی اکثریت آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو جمہوریت کا مطالبہ کر رہے ہیں کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کو سب سے زیادہ نقصان ان ملکوں اور ان وقتوں میں پہنچاہے جب لوگوں کی آزادی سلب کر لی گئی۔ ان پر جابر و ظالم حکمراں مسلط کر دیے گئے دعوت دین کے کاموں پر پابندی لگادی گئی اور عوام الناس کو اللہ کی مرضی کا نہیں بلکہ حکمرانوں کی مرضی کا پابند بنا دیا گیا اسلام کے لیے ڈکٹیٹر شپ ایک بڑا چیلنج ہے۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جنگ کی جائے اور جمہوریت بحال کرنے کے لیے تمام تر جدو جہد کی جائے کیوں کہ اسی جمہوریت کے سائے میں اسلام پر عمل کرنے کی آزادی نصیب ہو سکتی ہے دعوت کی راہ کی ساری رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں عدل و انصاف مل سکتا ہے اور فاسق و فاجر قسم کے حکمرانوں کو بزور طاقت ان کی تباہ کاریوں سے روکا جا سکتا ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

سیاسی مسائل،جلد:2،صفحہ:289

محدث فتویٰ

تبصرے