سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) ناگزیر صورت میں جان لیوا دوا کا استعمال

  • 23942
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 864

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی مریض ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہے اور اس کی حالت ناقابل دیدہے تو کیا یہ بات جائز ہے کہ کسی دوا کے ذریعے سے اس کی جان لے لی جائے۔ جان لینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ مریض کو ایسی دوا یا انجکشن دیا جائے جو رفتہ رفتہ اس کی جان لے لے اور دوسری یہ کہ اس کا علاج بند کر دیا جائے اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مریض خود ہی دم توڑ دے۔ مثلاً فرض کیجیے کہ کوئی شخص کینسر کا مریض ہے اور وہ اتنی شدید تکلیف میں مبتلا ہے کہ وہ بار بار بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر کو یقین ہے کینسر کا یہ مرض اب اس کی جان لے کر ہی چھوڑے گا تو کیا ایسی صورت میں اسے کوئی ایسی دوادی جا سکتی ہے جو رفتہ رفتہ اس کی جان لے لے؟ یا کوئی بچہ پیدائشی طور پر ناقص الجسم(Abnormal)ہے۔ اس کی ساخت غیر فطری ہے۔ دماغی طور پر وپ مفلوج ہے اور اس کے پھیپھڑے بھی خراب ہیں۔ مصنوعی علاج ( Artificial treatment) کے ذریعے اسے طویل عرصے تک زندہ رکھا جا سکتا ہے لیکن یہ علاج کافی مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ علاج نہ ملنے کی صورت میں یقینی ہے کہ بچہ خود بہ خود مر جائے گا۔ کیا ایسی صورت میں یہ مصنوعی علاج ضروری ہے یا اس بات کی گنجائش ہے کہ اس کا علاج بند کر دیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی صورت یا پہلی مثال میں آپ نے جان لینے کی جو ترکیب لکھی ہے وہ یقیناًشرعی اعتبار سے ناجائز ہے۔ خواہ (Slow poison) کے ذریعے جان لی جائے یا الیکٹرشاک کے ذریعے یا کسی اور دوسرے ذریعے سے بہر حال قتل ہے۔ انسان کی جان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور یہ حق صرف اللہ ہی کو حاصل ہے کہ وہ کسی کی جان لے۔

جان لینے کی دوسری صورت جو آپ نے لکھی ہے اس سلسلے میں کچھ کہنے سے قبل یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ فقہائے کرام کی اکثریت کے نزدیک مرض کا علاج کرانا شرعاً واجب اور ضرور نہیں ہے بلکہ علماء کے درمیان اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ مریض کا علاج کرانا افضل ہے یا بیماری صبر کرنا۔ بعض علماء کے نزدیک بیماری پر صبر کرنا اور علاج نہ کرانا افضل ہے۔

بخاری و مسلم کی صحیح حدیث ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ ایک عورت سر کے شدید درد میں مبتلا تھی۔وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اور درخواست کی کہ اے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  میرے لیے شفا یابی کی دعاکیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:کہ تم چاہو تو اپنی بیماری پر صبر کرو اور اس کے بدلے میں جنت کی حق دار بنو اور چاہو تو میں تمھارے لیے دعا کروں اور اپنے اس مرض سے نجات پاجاؤ اس عورت نے کہا پھر تو میں اپنی بیماری پر صبر کروں گی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین عظام میں بہت سے ایسے بھی تھے جو بیماری کا علاج نہیں کراتے تھے کسی نے ان کا اس بات پر مواخذہ بھی نہیں کیا۔ اگر علاج کرانا واجب ہوتا یہ لوگ ضرور علاج کراتے۔

میری اپنی رائے بھی یہی ہے کہ علاج کرانا واجب نہیں ہے۔ الایہ کہ مرض خطرناک ہو اور علاج کرانے سے شفایابی کے روشن امکانات ہوں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت رہی ہے کہ مرض کی حالت میں خود بھی علاج کراتے تھے اور دوسروں کو بھی علاج کرانے کا مشورہ دیتے تھے۔        

البتہ اگر صورت حال ایسی ہو کہ علاج سے شفایابی کے امکانات صفر ہوں تو ایسی صورت میں علاج کرانا نہ ضروری ہے اور نہ مستحب ۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مریض جسے مصنوعی طریقوں سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے ان مصنوعی طریقوں سے زندہ رکھنا شریعت کی نظر میں نہ واجب ہے اور نہ مستحب بلکہ اس کے برعکس اس کا علاج بند کردینا زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح علاج بند کردینے سے اگر مریض کی موت ہوجاتی ہے تو اسے قتل میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ مصنوعی طریقے سے اسے زندہ رکھنا اس کے مرض کی مدت میں اضافہ کرنا ہے۔اور یہ مصنوعی طریقے اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی ان اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ ان مہنگے مصنوعی طریقوں کا استعمال کتنے دنوں تک چلتا رہے گا۔ ایسی صورت میں میری رائےمیں بہتر یہی ہے کہ مریض کا علاج بند کر دیا جائے تاکہ وہ اپنی طبعی موت مر سکے۔

دونوں صورتوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں مریض کو جان بوجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے یہ قتل میں شمار ہو گا۔ جب کہ دوسری صورت میں مریض کو مارنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے بلکہ اس کا علاج بند کردیا جاتا ہے اس لیے اسے قتل میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس بنا پر پہلی صورت ناجائز اور حرام ہے اور دوسری صورت جائز اور مباح

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طبی مسائل،جلد:2،صفحہ:253

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ