السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد پرانی اور بہت ہی تنگ ہے۔ اور اس کے اندر ایک قبر ہے۔ اب بانی مسجد اس مسجد کو گرا کر اسی جگہ نئی مسجد بنانی چاہتا ہے تو اب اگر اس قبر کر گرا کر اس کی زمین مسجد میں داخل کر دے تو شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
_______________________________________________________________________________
بحکم روایرت ذیل اگر عند الضرورت کسی قبر عتیق کو منہدم و بے نشان کر کے مسجد میں داخل کرے ممانعت شرعیہ معلوم نہیں ہوتی، تفسیر خازن میں ہے۔
قال عبد الرحمٰن بن شبابة بین الرکن والمقام وزمزم تسعة و تسعین بنیاد ان قبر ھود و صالح و شعیب و اسماعیل علیھم الصلوٰة والسلام فی تلك البقعة
’’عبد الرحمن بن شبابہ نے کہا کہ چاہ زمزم اور مقام ابراہیم اور رکن کے درمیان ننانوے نبیوں کی قبریں ہیں اور ہود اور صالح اور شعیب اور اسماعیل علیہ السلام کی بھی اسی میدان میں قبریں ہیں۔‘‘
ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں۔
وذکر غیرہ ان قبر إسماعیل علیه السلام فی الحجر تحت المیزاب وان فی الحطیم بین الاسود زمزم قبر سبعین بنیا
’’اور بعض علماء نے کہا کہ اسماعیل علیہ السلام کی قبر حجر میں پرنالے کے نیچے ہے اور حطیم کے اندر حجر اسود اور زمزم کے درمیان ستر (۷۰) نبیوں کی قبریں ہیں۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ بے نشان و نامعلوم قبر کا مسجد میں ہونا شرعاً ممنوع نہیں۔ واللہ اعلم (حررہ عبد الجبار عبد اللہ الغزنوی عفی عنہما (فتاویٰ غزنویہ ص ۱۶)