السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاہنسی مذاق کرنا،لطیفے اور چٹکلے سنانا اور ایسی حرکتیں کرناجن سے لوگوں کو ہنسی آئے شرعاً جائز ہے؟بعض دین دار حضرات کا اس بات پر اصرار ہے کہ ہنسی مذاق کرنا دینی نقطہ نظر سے جائز نہیں ہے۔بقول ان کے ہمارا دین سنجیدہ پر وقار اور بارعب رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر دین دار لوگوں کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ان کی باتوں میں نرمی کی بجائے سختی ہوتی ہے،چہرے پر روشنی ہوتی ہے،گفتگومیں لڑنے بھڑنے والا انداز ہوتا ہے اور معاملات میں بڑا روکھا پن ہوتاہے۔اپنے اس طرز عمل کے حق میں یہ لوگ درج ذیل دلیلیں پیش کرتے ہیں:
1۔حدیث نبوی ہے:
"وَلاَ تُكْثِرِ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ"
’’بہت کثرت سے نہ ہنسا کرو کیونکہ کثرت سے ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔‘‘
2۔ایک دوسری حدیث ہے:
"وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ القَوْمَ فَيَكْذِب، وَيْلٌُ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ"
’’تباہی ہے اس کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے باتیں کرے اور باتوں میں جھوٹ بولے۔تباہی ہے اس کے لیے،تباہی ہے اسکے لیے۔‘‘
3۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں روایت ہےکہ:
" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَواصِلَ الأَحْزَانِ "
’’یعنی آپ پر ہمیشہ حزن وغم کی کیفیت رہتی تھی‘‘
4۔قرآن کی یہ آیت:
﴿ لا تَفرَح إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الفَرِحينَ ﴿٧٦﴾... سورة القصص
’’نہ اترایا کرکیونکہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘
جہاں تک اسلام کے سلسلے میں میرا مطالعہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ اسلام جیسا عمدہ اور بہترین مذہب ایسے طرز عمل کی تعلیم نہیں دے سکتا جیسا کہ اوپر بیان کرچکا ہوں۔بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اسلام کی طرف اس طرح کی باتیں منسوب کرنا اس کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔امید ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں آپ اس مسئلہ کی وضاحت کریں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہنسنا ایک انسانی خصلت ہے اور عین فطری عمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان ہنستے ہیں جانور نہیں ہنستے ہیں۔کیونکہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب ہنسی کی بات سمجھ میں آتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سمجھداری جانوروں میں نہیں ہوتی ہے۔
چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اسلام کے سلسلے میں یہ تصور محال ہے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کے فطری عمل پر روک لگائے گا۔بلکہ اس کے برعکس اسلام ہر اس عمل کو خوش آمدید کہتا ہے جو زندگی کو ہشاش بشاش بنانے میں مددگار ثابت ہو۔اسلام یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پیروکاروں کی شخصیت بارونق،ہشاش بشاش اور تروتازہ ہو۔مرجھائی ہوئی بے رونق اور پژمردہ شخصیت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔
اس اسلامی شخصیت کا نمونہ دیکھنا ہوتوآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نمونہ اور کیا ہوسکتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کرنےوالا بخوبی جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوناگوں دعوتی مسائل اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود ہمیشہ ہنستے مسکراتے اور خوش رہتے تھے۔آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔اپنے ساتھیوں(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کے ساتھ بالکل فری اندازمیں زندگی گزارتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی خوشی،کھیل اور ہنسی مذاق کی باتوں میں شرکت فرماتے تھے۔ٹھیک اسی طرح جس طرح ان کےغموں اور پریشانیوں میں شریک رہتے تھے۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تو آپ کا پڑوسی تھا۔جب وحی نازل ہوتی تو مجھے بلابھیجتے تاکہ میں اسے لکھ لوں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ ہم سب جب دنیا کی باتیں کرتے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ دنیا کی باتیں کرتے۔جب ہم آخرت کی باتیں کرتے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ آخرت کی باتیں کرتے اورجب ہم کھانے پینے کے بارے میں باتیں کرتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ اسی موضوع پر باتیں کرتے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ ہماری ہماری گفتگو میں شریک ہوتے۔
بعض روایتوں میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتایا کہ"آپ لوگوں میں سب سے زیادہ پر مزاح اور پرلطف شخصیت کے مالک تھے۔"(کنزالاعمال حدیث نمبر 18400)
بخاری شریف کی ام زُرع والی مشہور حدیث میں بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنی بیویوں کے ساتھ کھیل تماشے کرتے تھے،ہنسی مذاق کی باتیں کرتے تھے۔اپنی بیویوں سے کہانیاں سنتے تھے۔بخاری شریف ہی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مل کر دوڑ لگاتے تھے۔اس دوڑ میں کبھی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیت جاتیں اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیت جاتے۔ کون نہیں جانتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیٹھ پر اپنے نواسوں(حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو سوار کیاکرتے تھے اور ان کے ساتھ کھیلتے تھے۔اور ان بچوں کی باتیں بڑے شوق سے سنتے تھے۔کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر بچوں کو سوار دیکھ کر کہا کہ یہ تو بہترین سواری ہے۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ شہسوار بھی تو بہترین ہیں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ مذاق بھی کیا کرتے تھے۔بڑا مشہور واقعہ کہ ایک بڑھیا نےحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ دعا کریں کہ میں جنت میں چلی جاؤں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جنت میں بوڑھی عورتیں نہیں جائیں گی۔یہ جواب سن کر وہ بڑھیارونے لگی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ بڑی بی! جنت میں کوئی بوڑھا نہیں ہوگا۔بوڑھا شخص بھی جنت میں جوان ہوکر داخل ہوگا۔
ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اونٹ کی سواری عطا کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں تمھیں اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔اس شخص نے حیرت سے پوچھا کہ اونٹنی کابچہ سواری کے قبل کیسے ہوسکتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے جواب دیاکہ اونٹ بھی توآخر کسی اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔(ترمذی)
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ام ایمن نام کی ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میرے شوہر آپ کو بلارہے ہیں۔آپ نے سوال کیا کہ تمہارا شوہر کون ہے ،وہی نا جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے(آنکھوں میں سفیدی ہونا بے شرم ہونے کے لیے محاورہ استعمال کیا جاتا ہے)اس عورت نے سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے شوہر کو بے شرم کہہ رہے ہیں۔کہنے لگی کہ بخدا میرے شوہر کی آنکھوں میں سفیدی نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ سفیدی تو ہرآنکھ میں ہوتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقصد اس سفیدی سے تھا جو سیاہ دائرے کے اردگرد ہوتی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور سودۃ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمارے گھر میں موجودتھے۔میں نے ان کے لیے حریرہ(دودھ اورآٹا میں بنا ہواکھانا) تیار کیا۔پھر میں نے اسے سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے کھانے کے لیے پیش کیا۔حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ مجھے حریرہ پسند نہیں ہے ۔میں نے سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ کھاؤ ورنہ تمہارے چہرے پر حریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مل دوں گا۔حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر بھی کھانے سے انکار کیا تو میں نے ان کے چہرے پر حریرہ مل دیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم دونوں کے درمیان بیٹھے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑا سا جھک گئے تاکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی میرے چہرے پر حریرہ مل سکیں۔چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حریرہ لیا اور میرے چہرے پر مل دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تماشہ دیکھ کر ہنستے رہے۔[1]
کوئی اور ہوتا تو ان کی حرکت پر ڈانٹتا اور سرزنش کرتا۔لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس چھیڑ چھاڑ سے نہیں روکا بلکہ یہ دیکھ کرخود ہی محفوظ ہوتے رہے۔حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی زندگی میں خوشیوں کا رنگ بھرنا چاہتے تھے۔خاص کرعید بقر عید اور دوسرے خوشی کے مواقع پر۔مشہور واقعہ ہے کہ عید کے موقع پر کچھ لڑکیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گانا بجانا کررہی تھیں۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دیکھ کر برہم ہوئے اور انھیں گانے بجانے سے روکنا چاہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر انھیں گانے،بجانے دو۔یہ تو عید کا دن ہے۔ذرا یہودی بھی جان لیں کہ ہمارے دین میں بھی وسعت اور تفریح کے مواقع ہیں۔
کسی موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض حبشیوں کو مسجد نبوی کے اندر کھیل تماشہ دکھانے کی اجازت دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ کھیل تماشہ دیکھتے رہے۔انھیں جوش دلاتے رہے اور اپنی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے کاندھے پر ا ٹھا کر یہ تماشہ دکھاتے رہے۔وہ لوگ مسجد نبوی میں کھیل تماشہ دکھاتے رہے،رقص کرتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں محسوس کیا۔
روایت ہے کہ کسی لڑکی کی رخصتی ہورہی تھی۔رخصتی کے موقع پر کسی کھیل تماشہ اور گانے بجانے کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔[2]
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سخت ناپسند ہوئی اور فرمایاکہ:
"هلا كان معها لهو؟"
’’اس کے ساتھ کھیل تماشے کا انتظام کیوں نہیں ہے‘‘
بعض روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ تم لوگوں نے اس خوشی کے موقع پر گانے والیوں کو کیوں نہیں بھیجا جو یہ گاتیں:
"أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيُّونَا نُحَيِّيكُمْ "
’’ہم تمہارے پاس آگئے،آگئے،تم ہمیں خوش آمدید کہو،ہم تمھیں خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں نشوونما پانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی ایسے ہی تھے۔ہنستے ہنساتے اور مذاق کرتے تھے۔حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا سخت مزاج انسان بھی ہنسی مذاق کیا کرتاتھا۔روایت ہے کہ انھوں نے ازراہِ مذاق اپنی لونڈی سے کہا کہ مجھے شریفوں کے خالق نے پیداکیا ہے اور تمھیں بدمعاشوں کے خالق نے پیدا کیاہے۔اس بات پر وہ لونڈی کبیدہ خاطر ہوگئی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ شریفوں اور بدمعاشوں کا خالق الگ الگ تھوڑے ہی ہے۔ان سب کو تو ایک ہی اللہ نے پیداکیاہے۔مجھے اور تمھیں دونوں کو اللہ نے ہی پیداکیاہے۔
مشہور تابعی ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مذاق کیا کرتے تھے؟
آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی تو انسان ہی تھے۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم جب آپ کے پاس رہتے ہیں تو ہماری ایمانی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور جب گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں تو کچھ اورہوتی ہے۔آپ کے پاس رہتے ہوئے ہمارا ایمانی جوش وجذبہ کچھ زیادہ ہوتا ہے جب کہ آپ کی محفل سے نکلنے کے بعد اس جذبے میں کمی آجاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اےحنظلہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )!اگر تم ایک ہی جیسے حال میں ہمیشہ رہو(وہ ایمانی کیفیت ہمیشہ برقراررہے جومیرے پاس رہنے سے طاری ہوتی ہے) توفرشتے تم سے مصافحہ کرنے لگیں یعنی تم فرشتوں کی صف میں شامل ہوجاؤ گے۔لیکن اے حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !چند گھڑیاں یوں ہوتی ہیں اور چند گھڑیاں کچھ اس سے مختلف ہوتی ہیں۔(تم انسان ہو،فرشتے نہیں یقیناً تمہاری کیفیت فرشتوں سے مختلف ہوگی۔تمہاری چند گھڑیاں سنجیدگی اور حد درجہ ایمانی کیفیت میں گزرتی ہیں،تو چندگھڑیاں اس سے مختلف۔ہنسی مذاق اور پر لطف ماحول میں بھی گزریں گی۔)
حقیقت یہ ہے کہ چہرے پر خشونت اور باتوں میں روکھا پن لیے ہوئے بعض دین دار حضرات محض اپنی طبیعت اور فطرت کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں۔اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے۔لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے دین دارحضرات سے اسلام سیکھنے کے بجائے قرآن مجید آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بہترین عملی نمونوں سے اسلام سیکھیں۔
اب ذرا ان دلیلوں پرنظر ڈال لیں جوآپ نے اپنے سوال میں پیش کی ہیں۔
1۔پہلی حدیث میں باکثرت اور بہت زیادہ ہنسنے سے منع کیا گیا ہے۔صرف ہنسنے کی ممانعت نہیں ہے۔اور ظاہر ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی زیادہ مضر ہوتی ہے۔خواہ ہنسنے کی زیادتی ہویا رونے کی یا کسی اور چیز کی۔
2۔یہ حدیث کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیشہ غم کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ایک ضعیف حدیث ہے اور اسے بطورِدلیل نہیں پیش کیا جاسکتا۔بلکہ اس کے برعکس بخاری شریف کی کی صحیح حدیث یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں حزن وغم سےاللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
3۔جہاں تک قرآن کی آیت"لا تَفْرَحْ....."الخ کا تعلق ہے تو اس میں لفظ فرح سے مراد ہنسنا نہیں ہے بلکہ گھمنڈ کرنا اور اترانا ہے۔یہ مفہوم تمام مفسرین نے بیان کیا ہے۔
غرض کہ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے،جس سے ہنسنے ہنسانے اور مذاق کرنے کی ممانعت ثابت ہو۔بلکہ اس کے برعکس مذاق کرنا اور ہنسنا ہنسانا ایک جائز کام ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں سے واضح ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کرنے میں ہنسنے ہنسانے والی کیفیت بڑا رول ادا کرتی ہے۔اسی لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے:
"إن القلوب تمل كما تمل الأبدان فابتغوا لها طرائف الحكمة"
’’جس طرح جسم اکتاجاتے ہیں اسی طرح دل بھی اکتاتے ہیں۔ اس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے حکمت سے پُر لطیفے تلاش کیا کرو۔‘‘
اور یہ بھی فرماتے تھے:
"روحوا القلوب ساعة بعد ساعة فإن القلب إذا أكره عمي"
’’دل کو تھوڑی تھوڑی دیر میں آرام اور تفریح دیاکرو۔کیونکہ دل میں اگر کراہیت آگئی تو دل اندھے ہوجائیں گے۔‘‘
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل تماشے کے ذریعے اپنے آپ کو طاقت فراہم کرتا ہوں تاکہ حق کے کام کے لیے میں چست اور پھرتیلا رہوں۔
ہنسی مذاق جائز ہے لیکن حد کے اندر کیوں کہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے۔ہنسی مذاق کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال کرناضروری ہے:
1۔پہلی بات یہ ہے کہ جھوٹی باتیں گھڑ کر لوگوں کو ہنسانے کی کوشش نہ کی جائے۔جیسا کہ بعض لوگ یکم اپریل کے دن کرتے ہیں۔حدیث ہے کہ"تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔"ایک دوسری حدیث ہے کہ"حضور صلی اللہ علیہ وسلم مذاق کرتے تھے لیکن ہمیشہ سچ بولتے تھے۔"
2۔ہنسی مذاق کے ذریعے کسی کی تحقیر وتذلیل نہ کی جائے۔الا یہ کہ وہ خود اسکی اجازت دے دے اور اس پر ناراض نہ ہو۔کسی کی تحقیر کرنابڑاگناہ ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ... ﴿١١﴾... سورةالحجرات
’’اے ایمان والو!لوگوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کامذاق نہ اُڑائیں۔‘‘
اور حدیث ہے:
"بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنْ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ " (مسلم)
’’کسی کے بُرا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘
3۔مذاق میں کسی کو ڈرانے دھمکانے سے پرہیز کیا جائے ۔حدیث ہے:
"لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا "
’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو ڈرائے دھمکائے۔‘‘
4۔ہنسی مذاق میں کسی دوسرے کاسامان نہ ہتھیالیا جائے ،حدیث ہے:
"لَا يَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا " (ترمذی)
’’کوئی شخص کسی دوسرے کا سامان نہ ہتھیا لے نہ مذاق میں اورنہ سنجیدگی سے۔‘‘
5۔ایسے وقت مذاق نہ کرے جب سنجیدگی کا موقع اور ماحول ہو اور نہ ایسے مقام پر ہنسنا شروع کردے جہاں رونے کامقام ہے۔کیونکہ ہرکام کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کی زبردست سرزنش کی ہے جو قرآن سنتے وقت ہنسی مذاق کرتے تھے حالانکہ یہ سنجیدہ رہنے اور رونے کا مقام ہے۔اللہ فرماتا ہے:
﴿ أَفَمِن هـٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ ﴿٥٩﴾ وَتَضحَكونَ وَلا تَبكونَ ﴿٦٠﴾ وَأَنتُم سـٰمِدونَ ﴿٦١﴾... سورة النجم
’’اب کیا یہی وہ باتیں ہیں،جن پر تم اظہار تعجب کرتے ہو۔ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اور گابجاکر انھیں ٹالتے ہو۔‘‘
حضرت اصمعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے ایک عورت کو بڑے خشوع وخضوع کی حالت میں نماز پڑھتےدیکھا ۔نماز کے بعد وہ عورت آئینہ کے سامنے گئی اوربننے سنورنےلگی۔حضرت اصمعی رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا ابھی توتم خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہی تھیں اور اب بن سنور رہی ہو!اس دین دار عورت نے جواب دیا کہ میں جب خدا کے سامنے کھڑی تھی توخشوع وخضوع کی حالت میں تھی اور اب اپنے شوہر کے پاس جارہی ہوں تو بن سنور کر۔ہرکام کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔
6۔ہنسی مذاق حد کے اندر اور اعتدال کے ساتھ ہو۔ہنسی مذاق میں پھوہڑپن نہ ہو کہ یہ چیز بُری لگنے لگے اور نہ بہت زیادہ ہوکہ اس سے اکتاہٹ شروع ہوجائے۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے خواہ عبادت ہی کی زیادتی کیوں نہ ہو۔اسی لیے حدیث میں ہے کہ کثرت سے نہ ہنسا کرو کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کردیتی ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ:
"أعط الكلام من المزح، بمقدار ما تعطي الطعام من الملح"
’’یعنی اپنی گفتگو میں اتنا مزاح پیدا کیا کرو جتنا کہ کھانے میں نمک ڈالتے ہو‘‘
[1]۔یہ حدیث کتاب"الفکاھۃ والمزاح" میں زبیر بن بکار کے حوالہ سے منقول ہے۔
[2]۔ گانے سےمراد آج کل کے جیسے فلمی گانے نہیں ہیں بلکہ شادی کے موقع پر جو مہذب اور شائستہ گانے گائے جاتے ہیں،وہ مراد ہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب