سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) نفع کی شرح

  • 23937
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 4535

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاشریعت نے تجارت میں منافع(Profit) کی کوئی حد مقرر کی ہے۔زیادہ سے زیادہ کس حد تک منافع لیا جاسکتا ہے؟یاشریعت نے اس معاملے میں تاجر کو پوری آزادی عطا کررکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق منافع کی شرح مقرر کرلے؟اُمید ہے کہ آپ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ شریعت کی نظر میں دولت کمانے اور منافع حاصل کرنے کے لیے تجارت ایک بہترین اور معزز پیشہ ہے۔قرآن کی متعدد آیتوں اور صحیح حدیثوں میں تجارت کا تذکرہ اچھے(Profit) میں ہوا ہے۔بلکہ قرآن کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منافع کو "فَضْلِ اللَّهِ " (اللہ کافضل) قراردیا ہے:

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ وَابتَغوا مِن فَضلِ اللَّهِ ... ﴿١٠﴾... سورة الجمعة

’’پس جب نماز ختم ہوجائے توزمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘

﴿وَءاخَرونَ يَضرِبونَ فِى الأَرضِ يَبتَغونَ مِن فَضلِ اللَّهِ...﴿٢٠﴾... سورة المزمل

’’اورکچھ دوسرے ہیں جو زمین میں سفر کرتے ہیں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے۔‘‘

حج جیسی عظیم عبادت کے دوران بھی اللہ نے اس فضل کو کمانے سے منع نہیں کیا ۔۔۔فرماتا ہے:

﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم...﴿١٩٨﴾... سورة البقرة

’’تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو(یعنی حج کے دوران بھی)‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ" (ترمذی)

’’سنوجب کوئی شخص کسی ایسے یتیم کاسرپرست بنایا جائے جس کے پاس مال ودولت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مال میں تجارت کرے اور اسے یونہی بغیر تجارت کے نہ چھوڑ دے کیونکہ اس طرح چھوڑنے سے اس کاسارا مال زکوٰۃ کھا جائے گی۔‘‘

جس مال میں تجارت نہ کی جائے اور ہر سال اس میں زکوٰۃ اد کی جائے تو دھیرے دھیرے یہ بغیر کسی منافع کے ختم ہوجائے گا۔یہ حدیث تجارت کے سلسلے میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کررہی ہے۔وہ یہ کہ کسی بھی تجارت کا کم از کم یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اس سے نفع حاصل کیا جائے تاکہ اس نفع سے انسان کی ضرورتیں پوری ہوں۔نان ونفقہ کا انتظام ہوجائے۔اور اس نفع کی وجہ سے اصل سرمایہ میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے نہ کہ زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے دھیرے دھیرے یہ اصل سرمایہ بھی ختم ہوجائے۔

قرآن وسنت کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ شریعت نے منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے۔نہ دس فیصد نہ بیس فیصد اور نہ اس سے  زیادہ یا کم۔شاید اس کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ ہرزمانے اور ہر علاقے کے لیے منافع کی ایک ہی شرح متعین کرناعدل وانصاف کے منافی ہے،کیونکہ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت(Consurning) بہت تیز ہوتی ہے۔اور ان کی فروخت جلد جلد ہوتی ہے۔مثلاً کھانےپینے کی چیزیں۔کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن  کی کھپت بہت سست اور کبھی کبھی ہوتی ہے۔مثلاً کار،فرنیچر اور کپڑے وغیرہ۔ظاہر ہے کہ ان دونوں طرح کے  سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔جس سامان تجارت کی کھپت جلد اورتیز ہوتی ہے ان میں منافع کی شرح کم ہونی چاہیے۔جب کہ دوسری قسم کے سامان تجارت میں یہ شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔

سامان تجارت کبھی نقد بیچے جاتے ہیں اور کبھی اُدھار۔ظاہر ہے کہ ان دونوں میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہوسکتی ۔نقد خرید وفروخت میں منافع کی شرح اُدھار کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

بعض دکان دار چھوٹے ہوتےہیں اور کم سرمایے سے تجارت کرتےہیں۔ جب کہ بڑے دکان دار بڑے سرمایہ سے تجارت کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ بڑا سرمایہ دار بہت کم منافع لے کر بھی فائدے میں رہے گا۔جب کہ چھوٹا دکان دار کم منافع لے کر اپنی تجارت کو فروغ نہیں دے سکتا۔اس لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ نفع لے۔

کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کا شمار ضروری اور بنیادی اشیاء صرف(Essential)(Goods  اور کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کاشمار سامان تعیش(Luxury Goods) میں ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ ان دونوں قسم کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔بنیادی اشیاء غریب لوگ بھی خریدتے ہیں اس لیے ان میں منافع کی شرح بہت کم ہونی چاہیے۔جب کہ سامان تعیش میں منافع کی شرح زیادہ بھی کی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ضروری اور بنیادی اشیاء صرف مثلاً غلہ وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کوحرام قراردیا ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ان میں بہت زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جو غریبوں کے لیے تباہ کن ہے۔

بعض سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک واسطے(Mediator) کے بعد بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔اس لیے ان میں منافع کی شرح کم ہوتی ہے۔جب کہ بعض سامان تجارت فیکٹری سے نکل کر کئی واسطوں سے ہوتے ہوئے بازار میں آتے ہیں۔اس قسم کے سامان تجارت میں پہلے سامان کے مقابلے میں منافع کی شرح زیادہ ہونی چاہیے۔

غرض کہ منافع کی شرح متعین کرنے میں بہت سارے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا  گیا۔عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ منافع کی شرح متعین کرتے وقت ان سب عوامل کی رعایت کی جائے اگر شریعت نے تمام حالات اور تمام طرح کے سامان تجارت میں منافع کی ایک ہی شرح متعین کردی ہوتی تو یہ بات عدل وانصاف کے منافی ہوتی۔شریعت نے تاجر کے ضمیر پر یہ بات چھوڑ دی ہے کہ وہ ان سب عوامل کی رعایت کرتے ہوئے اور معاشرہ میں مروجہ اصول کو دیکھتے ہوئے منافع کی کوئی شرح متعین کرلے۔وہ ایسی شرح متعین کرے جس سے نہ اسے نقصان ہو اور نہ خریداروں کو۔کسی کی حق تلفی نہ ہو۔کیونکہ اسلامی معاشیات میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے بالکل برعکس کہ جس میں دولت کمانے کی خاطر یہ طریقہ کار جائز ہے چاہے یہ دولت سود سے آتی ہو یا ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ یا شراب اور دوسری مضر اشیاء فروخت کرکے۔اسلامی معاشیات میں ہر وہ  طریقہ تجارت حرام ہے جس میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہو یا جو اخلاقیات کے منافی ہو۔اسلام نے اگرچہ منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے لیکن اخلاقیات کی پابندی ہرحالت میں ضروری ہے۔

بعض حنفی علماء نے سویا اس سے زائد فیصد منافع حاصل کرنے کو غلط قراردیا ہے۔جب کہ بعض مالکی علماء نے تیس پینتیس فیصد سے زیادہ نفع کو غلط قراردیا ہے۔حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عمل سے ثابت ہے کہ انھوں نے کبھی سو فیصد اور کبھی اس سے بھی زیادہ نفع لیا ہے۔ان لوگوں کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ بعض صورتوں میں سویا اس سے زیادہ فیصد نفع لیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ کسی پر  ظلم نہ ہورہا ہو یا کسی کی حق تلفی نہ ہورہی ہو۔میں چند ایسے واقعات پیش کررہا ہوں جن میں  سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے۔

1۔بخاری،ترمذی اور مسند احمد وغیرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ایک دینار دے کر بھیجا کہ وہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے ایک بکری خرید لیں۔عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بکری والے سے مول تول کیا اور ایک دینار میں دو بکریاں خرید لیں۔وہ دونوں بکریاں لے کر آرہے تھے کہ راستے میں انھیں ایک شخص مل گیا اس نے دونوں بکریوں میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض خرید لی۔(گویاحضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سو فیصد نفع لے کر بکری فروخت کی) پھرعروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ یہ لیجئے ایک بکری اور ساتھ میں ایک دینار۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے تعجب سے دریافت کیا کہ عروہ تم نے یہ کیسے کیا؟عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو سارا واقعہ بیان کردیا۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ان کی  تجارت میں برکت کی دعادی۔

2۔سو فیصد سے زیادہ نفع لینے کا واقعہ بخاری شریف میں ذرا  تفصیل کے ساتھ درج ہے۔اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن العوام جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور جنھیں دنیا ہی میں جنت کی خوش خبری دے دی گئی تھی۔انھوں نے مدینہ کےمضافات میں ایک زمین ایک لاکھ ستر ہزار درہم میں خریدی۔ان کی شہادت کے بعد ان کاقرض چکانے کے لیے ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہی زمین سولہ لاکھ درہم میں فروخت کی۔گویا کوئی سوگنانفع حاصل کیا۔یہ واقعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت کا ہے۔زمین فروخت کرنے والے حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تھے اور زمین خریدنے والے متعدد جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تھے مثلاً معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ۔اور یہ سودا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی موجودگی میں طے پایا۔اگر اس طرح کوئی سو فیصد نفع لینا شریعت کی نظر میں غلط ہوتو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ضرور اعتراض کرتے لیکن کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔اس لیے یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ سو فیصد سے زیادہ نفع بھی لیاجاسکتا ہے بشرط یہ کہ اس میں کوئی غبن دھوکا اورذخیرہ اندوزی نہ ہو۔

ان واقعات کوبیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہر طرح کی تجارت میں سویا اس سے زیادہ فیصد نفع لیناجائز ہے۔ان کے بیان کامقصد صرف یہ ہے کہ شریعت نے نفع کی کوئی شرح مقرر نہیں کی ہے۔بعض صورتوں میں نفع کی شرح سو فیصد یا اس سے زائد بھی ہوسکتی ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔بشرط یہ کہ غبن،دھوکا اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے یہ نفع نہ حاصل کیا جائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ  اُن منافعوں کا بھی تذکرہ کردوں جن کا حاصل کرنا  حرام ہے۔

1۔حرام اشیاء مثلاً شراب،نشیلی دواؤں اور مورتیوں وغیرہ کی تجارت سے حاصل کیا گیا نفع حرام ہے۔اسی طرح ہر اس چیز کی تجارت سے حاصل کیا ہوا نفع حرام ہے جو لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔مثلاً کھانے کی وہ چیزیں جو زیادہ وقت گزرنے کی وجہ سے گل سڑ گئی ہوں یا وہ دوائیں جو صحت کے لیے مضر ہوں وغیرہ وغیرہ۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں:

"إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ"(بخاری ،مسلم)

’’بلاشبہ نے شراب،مردہ،سوراورمورتیوں کی تجارت کوحرام قراردیا ہے۔‘‘

2۔فریب دھوکے سے حاصل کیا گیا منافع حرام ہے۔مثلاً سامان تجارت کا عیب چھپا کر اسے  فروخت کرنا یا دھوکے سے کسی چیز کو فروخت کرنا۔اس ضمن میں وہ اشتہارات بھی آئیں گے جن میں کمپنیوں کی پیداوار(Product) کی ترویج کے لیے اس کی تعریف میں بہت کچھ جھوٹ بولا جاتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا" (بخاری)

’’جودھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"المُسلِمُ أخُو المُسلِمِ ، و لا يَحِلُّ لِمُسلِمٍ باعَ مِن أخيهِ بَيعاً فيهِ عَيبٌ إلّا بَيَّنَهُ لَهُ"  (مسند احمد،ابن ماجه)

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کچھ فروخت کرے اور اس میں کوئی عیب ہو مگر یہ کہ وہ اسے اس عیب کے بارے میں بتادے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کبھی بھی سامان کا عیب چھپا کر سامان فروخت نہیں کرتے تھے۔اگراس میں کوئی عیب ہوتاتو خریدنے والے پر عیب ظاہر کردیتے۔اس بات پر ان کا سختی سے عمل تھا۔

دھوکے کی صورتیں یہ بھی ہیں کہ خریدار کو بھولا بھالا اور سادہ لوح سمجھ کر اس سے ضرورت سے زیادہ قیمت وصول کرلی جائے۔یاخریدار کی شدید ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دگنی چوگنی قیمت وصول کی جائے۔نفع حاصل کرنے کے یہ طریقے حرام ہیں۔بہتر یہ ہوگا کہ کم منافع پر قناعت کیا جائے۔کم منافع لینے سے سامان کی فروخت بڑھ جاتی ہے اور کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ زیادہ منافع لینے سے وقتی فائدہ تو ضرور ہوتا ہےلیکن حقیقت میں زیادہ نفع لینے سے کاروبار میں زوال شروع ہوجاتا ہے۔حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جو نہایت مال دار صحابی تھے اور دنیا ہی میں انھیں جنت کی خوشخبری دے دی گئی تھی ان سے ان کی مال داری کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی کم سے کم نفع کو بھی نہیں ٹھکرایا۔

3۔سامان تجارت کی ذخیرہ اندوزی کرکے حاصل کیا گیا نفع بھی حرام ہے۔

حدیث نبوی ہے:

لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ" (مسلم)

’’وہی شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے جو گناہگار ہوتا ہے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:

"من احتكر طعاما أربعين يوما يريد به الغلاء فقد برئ من الله وبرئ الله منه "  (مسند احمد)

’’جس نے کھانے پینے کی اشیاء کی چالیس دن تک ذخیرہ اندوزی کی تو وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری ہے۔‘‘

ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ سامان تجارت کو بازار میں جانے سے روک دیا جائے تاکہ اس قلت کی وجہ سے سامان کی قیمت بڑھ جائے،اور اس کے بعد اسے فروخت کیا جائے۔"

ایسی ذخیرہ اندوزی اس لیے حرام ہے کہ اس سے عموم کو تکلیف اور نقصان ہوتا ہے۔یہ تکلیف اور نقصان اس وقت دو چند ہوتا ہے کہ جب ذخیرہ اندوزی کرنے والاصرف ایک شخص یا ایک کمپنی ہو۔یہ شخص یا کمپنی اشیاء صرف کو بازار میں پہنچنے سے قبل اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔اور جب ان اشیاء صرف کی مانگ بڑھتی ہے تو یہ کمپنی ان کی من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔اسے اصطلاح میں Monopcly یا اجارہ بھی کہتے ہیں۔سود کی طرح سے یہ چیز بھی سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں میں سے ہے۔

فقہاء کے نزدیک اس بات میں اختلاف ہے کہ کن اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے؟بعض فقہاء کے نزدیک صرف کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔میرے نزدیک زیادہ صحیح اورمتعبر رائے یہ ہے کہ ان تمام اشیاء صرف کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جنھیں ضروری اور لازمی اشیاء(Essential Goods) کا نام دیا جاسکتا ہے مثلاً کھانے پینے کی چیزیں،دوائیں،کپڑے،مکانات اور روز مرہ کے استعمال کی چیزیں وغیرہ و غیرہ۔لازمی اورضروری اشیاء کا تعین زمانے کے لحاظ سے کیا جائے گا کیوں کہ بہت ساری ایسی چیزیں جنھیں آج سے چند سال قبل سامان تعیش(Luxury Goods) کہا جاتا تھا۔آج انھیں لازمی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔

امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب"الخراج"میں لکھا ہے کہ ہر اس چیز کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے جس کی ذخیرہ اندوزی سے عوام کو نقصان اور تکلیف ہو۔

فقہاء کے درمیان اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ہرحالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے یا صرف تنگی اور قلت کی حالت میں؟بعض فقہاء کہتے ہیں کہ صرف تنگی اور قلت کے زمانے میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔لیکن اگر ان اشیاء کی تنگی اور قلت نہ ہو بلکہ مارکیٹ میں ان اشیاء کی بہتات ہوتو ایسی صورت میں ان اشیاء کی ذخیرہ اندوزی حرام نہیں ہے۔لیکن بعض فقہاء کےنزدیک ہر حالت میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے لازمی طور پر ان اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے اور اسے مارکیٹ پر چھوڑدیا ہے کیونکہ مانگ اور سپلائی کے اُصول پر مارکیٹ منافع کی شرح خود ہی مقرر کرلیتا ہے۔معاشیات کا علم رکھنے والے اس اُصول کو بخوبی سمجھتےہیں۔البتہ اگر صورتحال ایسی ہو کہ مارکیٹ میں منافع کی شرح چنداسباب کی بنا پر ضرورت سے زیادہ ہوتو ایسی صورت میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں دخل اندوزی کرتے ہوئے قیمت اور منافع کی شرح کو متعین کردے۔

اس پوری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ تجارت میں منافع حاصل کرنا جائز بلکہ پسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے"فضل اللہ" سے تعبیر کیا ہے۔شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔بعض احادیث میں سو فیصد یا اس سے زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے۔

بہت زیادہ نفع لینا صرف بعض حالات میں جائز ہے۔تمام حالات میں نہیں۔وہ اشیاء صرف جن کا تعلق غریبوں سے ہوتا ہے اور وہ اشیاء صرف جنھیں ہم لازمی اور ضروری اشیاء قرار دیتےہیں۔مثلاً کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے وغیرہ۔ان میں ضرورت سے بہت زیادہ نفع لینا جائز نہیں ہے ۔دھوکا،غبن،ذخیرہ اندوزی یا ہراس طریقے سے نفع حاصل کرنا حرام ہے،جس سے خریداروں کو نقصان پہنچے۔اسی طرح حرام چیزوں کی تجارت س کمایا ہوا نفع بھی حرام ہے۔

گرچہ تاجروں کو حلال نفع کمانے کا پورا حق ہے ،لیکن حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر اشیاء صرف کی قیمت اور منافع کی شرح متعین کرنے کے لیے دخل اندازی کرے تاکہ چند لوگ مل کر عوام کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی ومعاشی مسائل،جلد:2،صفحہ:207

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ