سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) بیوی کو ڈانٹنا اور زدوکوب کرنا

  • 23930
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2525

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی عورت کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ اپنے شوہر کی بدسلوکیوں کا شکار ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بعض شوہر ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کو ڈانٹتے گالم گلوچ کرتے اور بعض تو اپنے بچوں کے سامنے بیویوں کو مارتے پیٹتے ہیں۔ اس موقع پر عورت جس رسوائی اور بے بسی کا احساس کرتی ہے کوئی دوسرا اسے محسوس نہیں کر سکتا ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت عطا کی ہے تو کیا اس فضیلت کی بنیاد پر انھیں یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو ڈانٹیں ماریں اور ان کے ساتھ نارواسلوک کریں؟ بہ راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی  میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔

قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:

﴿هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة

’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد  عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد وعورت میں سے ہر ایک دوسرے کا فطری طور پر محتاج ہے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔یہی اللہ کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے۔انسانوں کے لیے بھی اور تمام کائنات کی مخلوقات کے لیے بھی، اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَمِن كُلِّ شَىءٍ خَلَقنا زَوجَينِ لَعَلَّكُم تَذَكَّرونَ ﴿٤٩﴾... سورة الذاريات

’’اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام  کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام  کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے "فریق مخالف"کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے:

﴿بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ

"تم ایک دوسرے کا حصہ ہو "

تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔

اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا۔ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ارشاد ربانی ہے:

﴿وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُروهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِبوهُنَّ فَإِن أَطَعنَكُم فَلا تَبغوا عَلَيهِنَّ سَبيلًا إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبيرًا ﴿٣٤﴾... سورة النساء

’’وہ بیویاں جن کی بغاوت کا تمھیں اندیشہ ہو تو تم انھیں نصیحت کرو اور بستر سے انھیں الگ کردو اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ مان جائیں تو پھر انھیں ستانے کا کوئی بہانہ نہ تلاش کرو۔‘‘

اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔

مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ" لَنْ يَضْرِبَ خِيَارُكُمْ"(شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:

"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي" (ترمذی)

’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ کسی مرتبہ اور وسیع الظرف انسان کو زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے کسی مرد کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔

یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

  

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:172

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ