السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے ایک ایسے لڑکے سے محبت ہو گئی ہے جو دین دار و باخلاق ہے اور اس کے اندر ہر خوبی ہےجس کی ایک لڑکی تمنا کر سکتی ہے ہم محبت میں اتنی دور چلے گئے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا ہو کر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ہماری محبت بالکل پاک ہے اور پچھلے چھے سالوں میں ہم نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو قابل گرفت ہو اور جس پر ہمیں ندامت ہوہمیں اس کا انتظار تھا کہ لڑکا برسر روزگار ہوتو ہماری شادی ہو سکے کہ اچانک ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ لڑکے کے برسرروز گار ہوتے ہی اس کے گھر والوں نے یہ کہہ کر شادی سے انکار کردیا کہ ان کا خاندان میرے خاندان کے مقابلے میں کم حیثیت ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ میں اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی ۔ کسی اور کے ساتھ شادی کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ کیا اس طرح سے میرا کسی کی محبت میں گرفتار ہو جانا اسلام کی نظر میں گناہ ہے؟اور کیا اسلامی شریعت میں ہماری مشکل کا کوئی حل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں دور حاضر کے اس چلن سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ پہلے محبت کی جائے پھر شادی کی جائے۔یہ وہ راستہ ہے جس کی ابتدا بھی نامناسب ہوتی ہےاور جس کا انجام بھی اکثر و بیشتر غیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔مثلاًوہ محبت جو ٹیلی فون پر گفت و شنیدسے شروع ہوتی ہے یا وہ محبت جو جوانی کے جوش میں لڑکیوں کے پیچھے چکر لگانے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ایسی محبت ہوتی ہے۔جس میں عقل اور سوجھ بوجھ کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔محض جذباتیت ہوتی ہےاکثر تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے لڑکے لڑکیوں میں محبت ہو جاتی ہے جن کے درمیان سماجی تفاوت ہوتا ہے یا خاندانی چپقلش ہوتی ہے یا کوئی ایسی بات ہوتی ہے جوان کی شادی کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔چونکہ اس محبت کی ابتدا جذباتیت سے ہوتی ہے اس لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں غلطیاں اور گناہ کر بیٹھتے ہیں اس لیے کہ بہر حال وہ انسان ہیں۔ فرشتے نہیں ہیں۔
میری نظر میں شادی کا افضل اور مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ طرفین خوب سوچ سمجھ کر ایک دوسرے کےبارے میں مکمل واقفیت حاصل کر کے شادی کا فیصلہ کریں۔ شادی کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ فی الحال ایسی کوئی بات تو نہیں ہے جو آگے چل کر اس شادی کو ناکام یا شادی شدہ زندگی کو جہنم بنادے ۔ مثلاً طرفین کے درمیان کفو یعنی برابری نہ ہو یا کسی کی قانونی رکاوٹ ہو وغیرہ یہ بھی ضروری ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ ایسے موقعے پر مناسب یہ ہوگا کہ لڑکا اس طرح لڑکی کو دیکھے کہ لڑکی کو اس کی خبرنہ ہوتاکہ رشتے طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ اور مناسب یہ ہے کہ لڑکے والے یہ رشتہ لے کر لڑکی کے گھروالوں کے پاس جائیں اور نہایت اطمینان اور تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے اس معاملے کو طے کریں۔
اگر کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے جس کا تذکرہ سوال میں ہے طرفین کے درمیان خودبخود محبت ہو جاتی ہے اور یہ دونوں شادی کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کی اس مدت میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو ایسی صورت حال میں گھر والوں کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں اور دوپیار کرنے والوں کو محض چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ایک دوسرے سے جدانہ کریں اور ان کی شادی کردیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"لّم يَر لِلَمُتَحَابِين َ مِثَل النَكاَح" (ابن ماجه)
’’دومحبت کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
ذرا اس حدیث کے پس منظر پر غور کیجیے ۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے۔ کہ میرے پاس ایک یتیم بچی ہے جس سے شادی کے خواہش منددو شخص ہیں ان میں سے ایک غریب ہے اور دوسراامیر،لیکن یہ یتیم بچی غریب شخص سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو پیار کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ دوپیار کرنے والوں کے درمیان غریبی اور امیری کو نہ آنے دیا جائے اور ان کی مرضی کے مطابق ان کی شادی کر دی جائے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام ایک عملی (Practical)دین ہے کسی سے محبت ہو جانا ایک فطری بات ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ کوئی گناہ نہیں ہے نہ اسلام اس فطری جذبہ کی روک تھام چاہتا ہے۔ بلکہ اسلام اس بات پر ابھارتا ہے کہ اس فطری جذبہ کو شرعی اور قانونی حیثیت عطا کردی جائے۔ان دونوں کو گناہوں میں ملوث نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کی شادی کردی جائے۔ بہ شرطے کہ اس شادی میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین جھوٹی شان کی وجہ سے یا حسب نسب کے چکر میں پڑ کر یا محبت کو غیر اسلامی عمل سمجھ کر دو محبت کرنے والوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتےہیں اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ بعض بچے ذرا تیز قسم کے ہوتے ہیں تو وہ والدین سے بغاوت کر کے اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹی شان اور حسب ونسب کو معیار بنانے کی بہ جائے دین اور بااخلاق ہونے کو معیار بنایا جائے۔ دین اور اخلاق کے معیار پر اترنےوالے رشتہ کو ٹھکرانا یقیناًبڑی بد قسمتی کی بات ہوگی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ " (ترمذی،ابن ماجه)
’’جب تمھارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دین داری سے تم مطمئن ہو تو اسے شادی کے لیے منتخب کرلو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں زبردست فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ ‘‘
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب