سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) پردے کی حیثیت

  • 23927
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-15
  • مشاہدات : 4311

سوال

(24) پردے کی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ نے نقاب کی حمایت اور اسے بدعت قرار دینے والوں کی مخالفت میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نے پڑھا ۔ آپ نے واضح کر دیا ہے کہ نقاب کا رواج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا چلن ہمارے سلف صالحین کے زمانے میں بھی تھا۔ اسے بدعت نہیں قراردیا جا سکتا۔اسے بدعت قراردینے والے دراصل چاہتے ہیں کہ ہماری عورتیں بھی بےنقاب ہو کر مغربی عورتوں کی طرح شمع محفل بن کر رہ جائیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت خوب لکھا ہے اور حق وانصاف کی بات کہی ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نقاب کو لازمی اور فرض سمجھتے ہیں ان کے بہ قول عورتوں کا چہرہ کھلا رکھنا حرام ہے۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاًان عورتوں کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں جو پردہ تو کرتی ہیں لیکن چہرہ کھلا رکھتی ہیں ان کا دعوی ہے کہ ایسی عورتیں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور چہرہ کھلا رکھنے کی وجہ سے بڑے گناہ میں مبتلا ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں پردہ واجب اور فرض ہے لیکن نقاب لگانا اور چہرے کو چھپاکر رکھنا ہمارے نزدیک بھی لازمی اور ضروری نہیں ہے ہمارے پاس اتنا علم نہیں ہے کہ ہم ان سخت گیر قسم کے لوگوں کو سمجھا سکیں۔ امید ہے کہ آپ اس موضوع پر بالتفصیل روشنی ڈالیں گے۔

بہ راہ مہربانی آپ یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش نہ کریں کہ ہم آپ کی فلاں فلاں کتاب میں اس موضوع کو پڑھ لیں کیوں کہ بہت کچھ لکھنے کے باوجود بات بحث و مباحثہ کا موضوع بنی ہوئی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب "اسلام میں حلال و حرام"اور دوسری کتابوں میں بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن ہماری بہنیں اور بیٹیاں چاہتی ہیں کہ میں مزید تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر لکھوں حالانکہ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے مختلف فیہ مسائل ہمیشہ موضوع بحث بنے رہیں گے چاہے ان پر ہزاروں کتابیں لکھ دی جائیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مزاج عقل اور پسندو ناپسند میں مختلف ہوتا ہے۔ بعض لوگ فطری طور پر سخت مزاج ہوتے ہیں اس لیے دینی مسائل میں سخت موقف اپناتے ہیں اور بعض لوگ نرم مزاج ہوتے ہیں اس لیے شرعی مسائل میں بھی نرم پہلوؤں کوترجیح دیتے ہیں۔ بعض لوگ کم عقل ادر کوتاہ فہم ہوتے ہیں اس لیے قرآن و سنت کی باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں جب کہ بعض لوگ دینی مسائل کو سمجھنے میں خداداد صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ فقہی مسائل میں اختلاف ہمارے لیے رحمت ہے۔ مسائل میں اختلاف کو دیکھ کر گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ اس اختلاف سے ہماری شریعت میں وسعت آتی ہے اور مختلف راویوں میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  بھی مسائل میں اختلاف کرتے تھے لیکن ان میں سے ہر ایک اپنے سینے میں اتنی وسعت رکھتا تھا کہ دوسروں کی رائے اختیار کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا تھا اور نہ اس اختلاف کی وجہ سے ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی رنجش پیدا ہوتی تھی۔

اس تمہید کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے ہی سے فقہائے کرام کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ پردے میں نقاب کا استعمال لازمی اور ضروری نہیں ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ ذیل میں میں ہر مسلک کا موقف مختصراًبیان کرتا ہوں۔

(1)امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک

احناف کی مشہور کتاب"الاختیار التعلیل المختار"میں اس موضوع پر یوں بحث  کی گئی ہے۔

’’کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔‘‘

بشرطے کہ چہرہ اور ہاتھ دیکھنے میں کوئی جنسی لذت نہ ہو۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ پیر بھی کھلارکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کام کاج اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے جس طرح ہاتھ کھلا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح پیر کا کھلا رکھنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔"

(2)امام مالک کا مسلک

مالکی مسلک کی مشہور کتاب"اقرب المسالک الی مذہب مالک"کی عبارت کچھ یوں ہے۔

’’غیر محرم مرد کے سامنے عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ستر میں شامل نہیں ہیں۔ اور ان کا کھلا رکھنا جائز ہے۔بشرطے کہ شہوت کی نظر نہ ہو۔‘‘

(3)امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک

شافعی مسلک کی مشہورکتاب"المہذب " میں اس موضوع پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے۔  

’’آزاد عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے احرام کی حالت میں عورت کو ہاتھ میں دستانہ اور چہرہ پر نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے۔اگر چہرہ اور ہاتھ بدن کے دوسرے اعضاء کی طرح ان کا چھپانا بھی ضروری ہوتا اور اس لیے بھی کہ کام کاج کی وجہ سے ان کا کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ان کے چھپانے میں زبردست اذیت اور پریشانی ہے۔‘‘

(4)امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک

حنبلی مسلک کی مشہور کتاب" المغنی "میں کچھ اس قسم کے الفاظ ہیں۔"

’’حنبلی مسلک میں اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنا جائز ہے البتہ ان کے علاوہ کچھ اور کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔‘‘

یہ تو ہوئی چاروں مشہور مسالک کی رائے ان کے علاوہ بھی دوسرے مشہور اور قابل قدر علماء اور فقہاء ہیں جن کی یہی رائے ہے۔ چنانچہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  بھی عورت کے ستر سے چہرے اور ہاتھ کو مستثنیٰ قراردیتے ہیں جیسا کہ ان کی کتاب "المحلیٰ"میں درج ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب"المجموع"میں اس موضوع پر علماء کی رائے لکھتے ہوئےکہتے ہیں ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  شافعی رحمۃ اللہ علیہ  مالک رحمۃ اللہ علیہ  احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ  ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ  اور دوسرے بہت سارے علماء کی رائے یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن سترہے۔ سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ یہی مسلک امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے۔ یہ تمام علمائے کرام اپنے مسلک کی حمایت میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں انھیں میں ذیل میں مختصراً بیان کرتا ہوں۔

(1)قرآن کی آیت:

﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾

’’اور وہ اپنی زینت و زیبائش کھلانہ رکھیں مگروہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے‘‘

 کی تفسیر میں صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی اکثریت﴿إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾سے مراد چہرہ اور ہاتھ لیتی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین کے اس موقف کی تائید ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کی یہ حدیث کرتی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا   حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تشریف لائیں۔ ان کے بدن پر باریک اور شفاف کپڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے نگاہیں پھیر لیں اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو مناسب نہیں ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ نے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اس مفہوم کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔

(2)سورہ نورکی آیت﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ﴾ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیاہے کہ وہ اپنے "خمار"سے اپنے سینے کو ڈھک کر رکھیں۔"خمار"وہ دوپٹا ہے جسےعورتیں اپنے سر پر رکھتی تھیں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ سر کے دوپٹے سے سر کے علاوہ سینے کو بھی ڈھک کر رکھیں۔ اگرچہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو انھیں سینہ کے ساتھ چہرہ چھپانے کا بھی حکم دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چہرے کا ذکر نہیں کیا ہےبلکہ صرف سینہ کا ذکر کیا ہے۔اس سے اس بات کی صراحت ہو جاتی ہے۔ کہ چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے۔

(3)سورہ نور کی آیت ﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ﴾ میں اللہ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی خواہ مخواہ عورتوں پر نگاہیں نہ ڈالتے پھریں ۔ کسی موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب بار بار کسی خوبصورت عورت کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا:

"لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ"(ترمذی )

’’ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت ڈالو کیوں کہ پہلی نظر تو جائز ہے لیکن دوسری نہیں ‘‘

غور طلب بات یہ ہے کہ عورتیں اگر مکمل برقع پوش ہوں اور ان کے ہاتھ اور چہرے بھی نظر نہ آئیں تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے اور ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے۔

نظر باربار ادھر اٹھتی ہے جہاں کشش ہوتی ہے۔ اور یہ کشش عورت کے چہرے میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حکم نہیں دیا کہ تم اپنی اس کشش کو چھپا کر رکھو بلکہ مردوں کو حکم دیا کہ نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار اس پرکشش چیز کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں۔ اسی لیے مردوں کو حکم دیا گیا کہ تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار ان کی طرف نہ دیکھو ۔ اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو عورتوں کو بھی حکم دیا جاتا کہ اپنے چہرے کو چھپاکر رکھو اور ایسی صورت میں مردوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا ۔

(4)اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرماتا ہے:

﴿لا يَحِلُّ لَكَ النِّساءُ مِن بَعدُ وَلا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِن أَزو‌ٰجٍ وَلَو أَعجَبَكَ حُسنُهُنَّ ...﴿٥٢﴾... سورة الأحزاب

’’اس کے بعد تمھارے لیے عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں ہے اور نہ یہ حلال ہے کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آؤخواہ ان عورتوں کا حسن تمھیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے۔‘‘

سوچنے کی بات ہے کہ اگر چہرہ کھلا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہو گا کہ فلاں عورت خوبصورت ہے یا بد صورت ۔ کیوں کہ چہرے ہی سے عورت کی خوب صورتی یا بد صورتی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور عین ممکن تھا کہ اپنے حسن کی وجہ سے کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو پسند آجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اب مزید شادی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع کر دیا۔

(5)دلائل اور حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں پردہ کرتی تھیں لیکن نقاب کا استعمال نہیں کرتی تھیں اور چہرہ کھلا رکھتی تھیں مثال کے طور پر چند دلیلیں پیش کر رہا ہوں۔

مسلم شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی نظر کسی عورت پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو وہ عورت اچھی لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس تشریف لائے اور ان سے اپنی جنسی خواہش پوری کی اور فرمایا:

" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَأَى امْرَأَةً ، فَأَتَى امْرَأَتَهُ زَيْنَبَ وَهْىَ تَمْعَسُ مَنِيئَةً لَهَا ، فَقَضَى حَاجَتَهُ ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ : ( إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ ، وَتُدْبِرُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ ، فَإِذَا أَبْصَرَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ ، فَإِنَّ ذَلِكَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ" (مسلم)

’’عورت شیطان کی صورت میں آتی اور جاتی ہے(اسے دیکھ کر آدمی بہکنے کی پوزیشن میں ہو جاتا ہے) پس اگر تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے۔ کیوں کہ یہ چیز اس کے دل میں جو خواہش ہے اسے ختم کر دے گی۔‘‘

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جس عورت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی نظر پڑی تھی اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔اور اسی وجہ سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اچھی لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  چونکہ انسان تھے اور بشری تقاضے کے تحت ان کے دل میں بھی جنسی خواہشیں پیدا ہوتی تھیں لیکن ایسے موقعے پر کوئی غلط قدم اٹھانے کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی بیوی کے پاس چلے آتے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے۔ اور یہی تعلیم آپ نے اپنی امت کو بھی دی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس طرح آپ نے اپنی امت کو غلط حرکت کی بجائے اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی چہرہ ڈھک کر رکھنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کوئی ایسا حکم نہیں دیا۔

اسی طرح ایک حدیث بخاری اور مسلم کی ہے جس کی روایت حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ خود کو آپ کے حوالہ کردوں(آپ سے شادی کر لوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کی طرف نظر اٹھائی اور دیر تک اسے دیکھتے رہے پھر نظر گھمالی۔ عورت نے سمجھ لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس میں اور اس کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ بیٹھی رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بھی تشریف فرما تھے۔ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا کہ اگر آپ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو میری شادی کرادیجیے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ مسلم عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے پاس آکر بیٹھی اور اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی طرف دیر تک دیکھتے رہے۔ اس کا چہرہ کھلا ہونے کی وجہ سے کسی اور صحابی کو وہ عورت پسند آگئی اور انھوں نے شادی کی درخواست کر ڈالی۔

سنن نسائی کی ایک حدیث ہے جس کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس کچھ سوال کرنے آئی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بھائی فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرا تھے۔ وہ اس عورت کی طرف بار بار مڑ کر دیکھنے لگے کیوں کہ وہ خوب صورت تھی۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  با ربار فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا چہرہ دوسری طرف کر دیتے تھے۔

اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اس عورت کو بھرے مجمع میں چہرہ کھلا رکھنے پر یقیناً تنبیہ کرتے اور خاص کر ایسی حالت میں کہ لوگ اس کے حسن کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو رہے تھے سنن ترمذی میں یہی روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حوالہ سے مذکورہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی گردن دوسری طرف موڑدی ان کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ آپ نے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی گردن دوسری طرف کیوں گھمائی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا کہ میں نے ایک نوجوان لڑکے اور نوجوان لڑکی کو اس حالت میں یکھا کہ شیطان انھیں بہکانے میں مصروف  تھا۔

علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر چہرہ کھلا رکھنا جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس عورت کو اس کے کھلے چہرے پر ضرور تنبیہ کرتے۔ خاص کر ایسی حالت میں کہ شیطان ان دونوں کو بہکانے کی کوشش کر رہاتھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کو چہرہ ڈھکنے کی بجائے صرف فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حکم دیا کہ اپنا رخ دوسری طرف کر لیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  مزید فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کی وجہ سے عورت سے بات کرنا ضروری ہواور شیطان کے بہکانے کا خوف نہ ہو تو اس کی طرف دیکھنا بھی جائز ہے۔

ایسی ہی ایک حدیث بخاری شریف میں ہے جس کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ عید کی نماز کے لیے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی پھر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں نصیحتیں کیں اور فرمایا کہ عورتو! تم صدقہ دیا کرو کیوں کہ تم میں اکثریت جہنم کی ایندھن ہے۔ جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ بات سن کر ایک معزز عورت کھڑی ہوئی اور اس کے دونون گال سرخ مائل کالے ہو رہے تھے۔ اس نے دریافت کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں عورتوں کی اکثریت جہنم کی ایندھن کیوں بنے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا۔"اس لیے کہ تم بہت زیادہ شکایتیں کرتی ہواور اپنے شوہر کی نا فرمانی کرتی ہو۔ چنانچہ عورتوں نے صدقہ کرنا شروع کیا۔ حضرت بلال  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنا کپڑا پھیلائےہوئے تھے اور عورتیں اپنے کان کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتاراتار کر اس میں رکھنے لگیں۔"

اس روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو حضرت جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو معلوم ہو سکا کہ اس عورت کے دونوں گال سرخی مائل کالے تھے۔

بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   روایت کرتی ہیں کہ ہم عورتیں چادر اوڑھ کر فجر کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ مسجد نبوی میں باجماعت ادا کرتے۔پھر نماز سے فراغت  کے بعد اپنے گھروں کو واپس آ جاتے تاریکی کی وجہ سے ہمیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرتاریکی نہ ہوتی تو انھیں پہچان لیا جاتا اور معلوم ہو جا تا کہ کون کون سی عورتیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ کسی عورت کو اسی وقت پہچانا جاسکتا ہے جب کہ اس کا چہرہ کھلا ہوا ہو۔

یہ تمام حدیثیں ثابت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی انھیں چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا اور نہ چہرہ کھلا رکھنے پر کبھی ان کی سرزنش کی۔

(6)صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں چہرے پر نقاب لگانے کا رواج نہیں تھا بلکہ چہرے پر نقاب لگانے والیوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا چنانچہ ابو داؤد کی روایت ہے جس کے راوی حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن شماس ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی۔ اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی تھی۔ ایک صحابی نے حیرت سے کہا کہ تم چہرے پر نقاب لگاکر اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی ہو؟ اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی شرم نہیں کھوئی ہے۔ ابو داؤد نے یہ حدیث کتاب الجہاد میں بیان کی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو اس کے نقاب لگانے پر تعجب تھے کیوں کہ یہ چیز معاشرے کے رواج سے ہٹی ہوئی تھی۔ اس تعجب کے اظہار پر عورت نے یہ نہیں جواب یا کہ تم لوگ تعجب کیوں کرتے ہو۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق یہ نقاب لگایا ہے بلکہ اس نے یہ جواب دیا کہ شرم و حیا کی وجہ سے اس نے چہرہ پر نقاب ڈال لیا ہے۔ اگر نقاب لگانا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کبھی اس کے نقاب لگانے پر نہ تعجب کرتے اور نہ اس عورت سے ایسا سوال کرتے۔

(7)اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت عورت کی اپنی شخصیت جانی پہچانی رہے خریدو فروخت اور دوسرے لین دین کے معاملات میں یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ اس کا معاملہ ہو رہا ہو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عورت کون ہے۔ اسی لیے تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ عدالت میں گواہی کے موقع پر عورت کا چہرہ کھلا رہنا ضروری ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ گواہی دینے والی عورت کون ہے؟

ان لوگوں کے دلائل جو چہرہ پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تلاش بسار کے باوجود چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے مجھے قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل نہ مل سکی جسے صریح اور دوٹوک کہی جا سکے۔ اور یہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ان علماء کی تعداد نہایت کم ہے جو چہرے پر نقاب کو لازمی قراردیتے ہیں یہ علماء اپنی رائے کے حق میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں ان کا بیان حسب ذیل ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزو‌ٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥٩﴾... سورة الأحزاب

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔‘‘

اس آیت میں"جلابیب " کی تشریح کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ جلابیب اسے کہتے ہیں جس سے پورا بدن حتی کہ ہاتھ اور چہرہ بھی ڈھک  جائے اور صرف آنکھ کھلی ہو۔

لیکن جلا بیب کی بہ تشریح خود ان کی اپنی تشریح ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری ہے۔

(2)سورہ نور آیت:﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ میں إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾کی تفسیر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا اوپری کپڑاہے۔ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں ۔ سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہو جاتا ہے یعنی ان کا اوپری لباس کیوں کہ اسے چھپانا ممکن نہیں ہے۔

لیکن ان کی یہ تفسیر کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ"إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ " کا اضافہ کر کے اللہ تعالیٰ نے پردے کے حکم میں کچھ تخفیف اور آسانی عطا کرنی چاہی ہے۔ اب اگر اس سے مرد عورت کا اوپری کپڑا مراد لیا جائے تو اس میں عورتوں کے لیے کوئی آسانی نہ ہوئی اور یہ بات اللہ کے منشاء کے خلاف ہے۔ اور میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور علمائے کرام کی اکثریت "إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ " سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیتی ہے۔

(3)سورہ احزاب کی آیت:

﴿ وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتـٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَراءِ حِجابٍ...﴿٥٣... سورة الأحزاب

’’اور جب ان سے کوئی شے مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو‘‘

 کی تفسیر کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگنے کا مقصد اور منشایہ ہے کہ عورت کا مکمل جسم حتی کہ چہرہ اور ہاتھ بھی نہ نظر آئے۔

یہ دلیل اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویوں کے لیے خاص تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پورے سیاق و سباق کی ابتدایوں کی ہے:

﴿ يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ﴾

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کی بیویو! تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو‘‘

 تمھارا رتبہ اور مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاص مقام کی وجہ سے ان کے لیے کچھ خاص احکام تھے مثلاً یہ کہ وہ اپنا زیادہ وقت گھر پر گزاریں انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد دوسری شادی کی اجازت  نہیں تھی۔ انھیں مسلمانوں کی ماؤں کا درجہ عطا کیا گیا ان ہی خاص  احکام میں سے ایک خاص حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویوں سے کچھ مانگو تو پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگو۔

(4)بخاری شریف کی حدیث ہے:

"وَلاَ تَنْتَقِبِ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلاَ تَلْبَسِ الْقُفَّازَيْنِ "

’’احرام کی حالت میں عورت نہ نقاب لگائے گی اور نہ دستانے پہنے گی۔‘‘

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانے میں عورتیں چہرہ نقاب اور ہاتھوں میں دستانے استعمال کرتی تھیں اور احرام کی حالت میں ان کے استعمال سے روک دیا گیا۔

لیکن اس حدیث کو بہ طور دلیل پیش کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ اس زمانے میں عورتیں چہرے پر نقاب اور ہاتھوں میں دستانے پہنتی تھیں پھر بھی اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں  کہی ہے کہ عورتوں کے لیے ان دونوں کا استعمال ضروری اور لازمی ہے۔

(5)ترمذی کی حدیث ہے:

"المرأة كلها عورة"

’’عورت مکمل ستر ہے‘‘

اس حدیث سے علماء یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ عورت کا مکمل جسم ستر میں داخل ہے اس لیے چہرہ اور ہاتھ سمیت مکمل جسم کو ڈھکنا لازمی ہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ اس حدیث کا یہ منشا نہیں ہے کہ عورت کا مکمل جسم ستر ہے اس لیے اسے مکمل طور پر چھپانا ضروری ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کا جسم اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے سر تاپاکشش ہوتا ہے۔ اس حدیث میں عورت کے پورے جسم کو"عورت" کہا گیا ہے۔ عورت (ستر) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اسے چھپانا ضروری  ہے ورنہ احرام کی حالت میں عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا کیوں کہ جو ستر ہوتی ہے اسے کسی بھی حالت میں کھولنا جائز نہیں ہے۔

(8)چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے یہ علماء حضرات جس بات کو کثرت کے ساتھ بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ عورت کا سارا حسن اور ساری کشش اس کے چہرے میں ہوتی ہے چہرہ کھلا رہے تو باعث فتنہ ہوتا ہے۔ اس فتنہ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ چہرہ ڈھکارہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ کے وہم اور خوف کی وجہ سے سخت گیر قسم کے علماء نے معاشرےمیں بہت ساری ایسی چیزوں کو ناجائز قراردیا ہے جو اصلاًجائز اور حلال ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حددرجہ رحمت کی بنا پر ان چیزوں کو حلال قرار دیا ہے ہے اور ان کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن بعض فتنہ پھیلنے کے خوف سے اور احتیاط کے نام پر بعض علماء کرام نے ان حلال چیزوں پر پابندی لگادی ہے۔ مثال کے طور پر علماء نے فتنے کے خوف سے عورتوں کومسجد میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنے سے منع کردیاحالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم ہے کہ:

"لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ "

’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو‘‘

اس کے باوجود ان علماء نے محض خیالی فتنہ کے ڈرسے انھیں مسجد جانے سے روک دیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں نماز سے دور ہونے لگیں۔ ان ہی علماء نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں جاہل اور ناکارہ ہوگئیں ۔ اب ان علماء کو ہوش آیا ہے تو انھوں نے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے کی اجازت دے دی۔ اگر پہلے ہی عورتوں پر تعلیم کا دروازہ نہ بند کردیا گیا ہوتا تو اتنی کثرت سے ہماری عورتیں جاہل اور غیر مفید بخش نہ رہتیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھام ضروری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھام ضروری ہے۔ لیکن ان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھا م کی وجہ سے جائز باتیں ناجائز کردی جائیں۔ فتنے کی روک تھام کے لیے اللہ کے وہ احکام اور اسلامی آداب کافی ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے۔ اپنی طرف سے مزید اور نئی نئی بند شیں لگانا اللہ کی مرضی و منشا کے خلاف بھی ہے اور ہمارے معاشرے کے لیے مہلک اور نقصان دہ بھی۔

یہ ہیں وہ دلائل جنھیں نقاب کو لازمی قراردینے والے علماء پیش کرتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل اتنی مضبوط اور اتنی واضح نہیں ہےکہ اس کی بنیاد پر نقاب کو واجب قراردیا جا سکے۔ فقہ اصول ہے کسی چیز کو واجب قراردینے کے لیے قرآن و سنت کی واضح اور صریح دلیل ضروری ہے۔ ان کے مقابلہ میں ان علماء کے دلائل زیادہ مضبوط اور واضح ہیں جو نقاب کو لازمی نہیں قرار دیتے ۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس لیے میرا اپنا موقف بھی وہی ہے جو جمہور علماء کا ہے۔وہ یہ کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری اور واجب نہیں ہے۔ اپنے اس موقف کی تائید میں میں مزید دلائل پیش کرتا ہوں۔

(1)کسی امر کو اس وقت تک واجب العمل نہیں قراردیا جا سکتا جب تک اس کے حق میں قرآن یا حدیث کی واضح اور صریح دلیل نہ ہو۔ محض شک کی بنیاد پریا اندیشے اور احتیاط کے نام پر کسی شے کو نہ تو واجب قراردیا جا سکتا ہے اور نہ کسی حلال چیز کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے فقہ کا اصول ہے کہ واجب صرف وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے واجب کیا ہے اور حرام وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرام قراردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کسی چیز کو واجب یا حرام قرار دینے میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے۔ بلکہ قرآن و سنت سے ثابت ہونے کے بعد ہی واجب یا حرام قراردیتے تھے۔

اسلامی فقہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اصلاً تمام چیزیں حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرام قراردیا ہے کسی چیز کے حلال ہونے کے لیے دلیل پیش کرنا ضروری نہیں ہے کیوں کہ اصلاً یہ چیز حلال ہے۔ بلکہ اس کے لیے دلیل پیش کرنا ضروری ہے جہاں تک چہرے پر نقاب لگانے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ہے جواسے واجب قرار دے۔ محض احتیاط اور اندیشے کی وجہ سے اسے واجب قرار دینا یا کسی حلال چیز کو ناجائز قراردینا اللہ کی منشا اور اصول فقہ دونوں کے خلاف ہے۔ لوگوں نے جب جائز اور حلال کھانوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا تو اللہ نے ان کی اس طرح سر زنش کی تھی۔

﴿ قُل ءاللَّهُ أَذِنَ لَكُم أَم عَلَى اللَّهِ تَفتَرونَ ﴿٥٩﴾... سورة يونس

’’کہو کہ کیا اللہ نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ پر بہتان تراشی کر رہے ہو۔‘‘

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عورتوں کی شخصیت اور ان کے امیج(Image)کو بہتر بنانے کے لیے جدو جہد کریں معاشرے میں انھیں ان کا جائز مقام دلائیں اور ان کے تعلیمی اور معاشرتی معیار کو بلند کریں تاکہ ایک طرف عورتیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید اورکار آمد بن سکیں ۔اور دوسری طرف دشمنان اسلام کو اسلام پر کیچڑاچھالنے کا موقع نہ مل سکے۔

(2)پرانے زمانے کے مقابلے میں آج کے ترقی یافتہ دور میں روزمرہ کی بنیادی ضرورتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ہماری عورتیں بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ گھروں سے نکل کر اپنی ضروریات کی تکمیل کریں۔ایسی حالت میں انھیں نقاب کا پابند کر کے مزید مشقتوں اور زحمتوں میں مبتلا کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ بات اللہ کی منشا کے بھی خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین میں زخمت و مشقت نہیں رکھی ہے بلکہ حتی الامکان ہمارئے لیے آسانیاں رکھی ہیں۔

اللہ فرماتا ہے:

﴿ وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ...﴿٧٨﴾... سورة الحج

’’اور ا س دین میں تمھارے لیے کوئی مشقت نہیں رکھی ہے۔‘‘

دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے۔

﴿ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ ... ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة

’’اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ تنگی اور پریشانی نہیں چاہتا ہے۔‘‘

اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’إِنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ " (مسند احمد)

"میں ایسے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جو عقیدہ میں پاک اور خالص ہے اور معاملات میں نرم ہے۔‘‘

جو لوگ چہرہ پر نقاب کے سختی سے قائل ہیں اور وقتاً فوقتاً ان پردہ دار خواتین پر تنقید کرتے رہتے ہیں جو چہرے پر نقاب نہیں لگاتی ہیں ان سے میری گزارش ہے کہ وہ ان خواتین پر تنقید کے بجائے ایسی مسلم عورتوں کی اصلاح کی جانب دھیان دیں جو سرے سے پردہ ہی نہیں کرتی ہیں اور نت نئے فیشن کر کے بے حجابانہ گھروں سے باہر وقت گزارتی ہیں۔

آخر میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

(1)چہرہ اور ہاتھ پیر کھلا رکھنا جائز ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چہرے   پر مختلف قسم کے میک اپ کر کے اور ہاتھ پیر ناخنوں کو نیل پالش سے مزین کر کے غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کی بھی اجازت ہے اجازت صرف اس بات کی ہے کہ غیر محروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر بہت ہلکی سی زیبائش کر لی جائے مثلاًآنکھوں میں سرمہ لگالیا جائے یا ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھی پہن لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے غرض کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت شرعی لباس میں رہیں شریفانہ انداز اپنائیں اور الٹے سیدھے میک اپ اور فیشن کے ذریعے غیروں کو لبھانے والا انداز نہ اختیار کریں۔

میں اگر یہ کہتا ہوں کہ چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو عورتیں چہرہ پر نقاب لگانا چاہتی ہیں انھیں میں نقاب لگانے سے منع کر رہا ہوں وہ اگر نقاب لگانا چاہتی ہیں تو شوق سے لگائیں۔ انھیں اس کا پورا حق حاصل ہے۔

چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ عورتوں سے چہروں کو تکا کریں۔ کیوں کہ بہر حال مردوں کو اس بات کا حکم ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اپنی نگاہیں عورتوں پر نہ ڈالیں۔البتہ عورتوں سے معاملات کے دوران کسی ضرورت کے تحت انھیں دیکھنا ضروری ہو تو ان پر نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے بہ شرطے کہ یہ نظر شہوت اور ہوس بھری نہ ہو۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:149

محدث فتویٰ

تبصرے