سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) عورتوں کا نوکری کرنا

  • 23925
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 3415

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت گھر سے باہر نکل کر نوکری کرے اس سلسلے میں اسلامی شریعت کا کیا موقف ہے؟ کیا یہ بات مناسب بلکہ ضروری نہیں معلوم ہوتی کہ عورت ذات بھی اپنے علم و ہنر اور اپنی خدمتوں اور صلاحتیوں کے ذریعے معاشرے کی ترقی و بہبودی میں اپنے حصے کا رول ادا کرے؟یا یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کی چاردیواری میں محصورہوکر اپنی تمام صلاحتیں اور محنتیں گھر کی تعمیر و ترقی پر صرف کردے۔ ہم نے بہت سنا ہے کہ ہمارے دین اسلام نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ جس سے وہ پہلے محروم تھی اور اسلام ہی نے عورت کو وہ انسانی اور بنیادی حقوق عطا کیے جن کا وہ پہلے تصور نہیں کرسکتی تھی۔ کیا عورت کا نوکری کرنا انسانی اور بنیادی حقوق میں شامل نہیں ہے؟اس نوکری کے ذریعے اس کی اپنی شخصیت مضبوط ہوتی ہے خواہ اعتمادی حاصل ہوتی ہے۔اور وقت پڑنے پر اسے ہاتھ پھیلانے کی ذلت نہیں اٹھانی پڑتی ہے۔لیکن جس اسلام نے عورتوں کو اتنی عزت بخشی ہے اس اسلام کے نام پر عورتوں کو نوکری کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ علماء نے اسے ناجائز قراردیا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک متقی اور پرہیز گار عورت شرعی حدود میں رہتے ہوئے کیا نوکری کر سکتی؟ اور کون سی نوکری کر سکتی ہے؟ ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جواب چاہتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کی رائے سننا چاہتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں بڑے سخت گیر ہیں۔اور جن کے نزدیک عورت کا تعلیم حاصل  کرنا بھی ناجائز ہے۔ اور نہ ان لوگوں کی رائے سننا چاہتے ہیں جو عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر شمع محفل بنانا چاہتے ہیں۔ ہم تو فقط قرآن وحدیث کی روشنی میں اللہ کا حکم سننا چاہتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد کی طرح عورت بھی ایک انسان ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و اور اٹوٹ حصہ ہیں۔ جس طرح ایک مرد کام کرنے اور عمل کرنے کا مکلف ہے۔ اسی طرح ایک عورت بھی کام کرنے اور عمل کرنے کی مکلف ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَاستَجابَ لَهُم رَبُّهُم أَنّى لا أُضيعُ عَمَلَ عـٰمِلٍ مِنكُم مِن ذَكَرٍ أَو أُنثىٰ...﴿١٩٥﴾... سورةآل عمران

’’پس ان کے رب نے ان کی پکارسنی اور فرمایا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔‘‘

اعداد شمار بتاتے ہیں کہ عورت انسانی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہے۔ اگر ہم نے عورتوں کو کام سے روک کر گھروں میں بٹھا دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی آبادی کا پچاس فیصد حصہ ناکارہ پرزوں کی طرح غیر مفید اور برباد ہوجائے گا ۔اور اسلام جیسے مکمل اور سچے دین سے یہ تصور ناممکن ہے کہ وہ انسانی آبادی کے نصف حصے کونا کارہ اور برباد کر دینے کی ترغیب یا حکم دے گا۔کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ عورت دنیا کی تمام لذتوں سے لطف اندوز تو ہو لیکن خود اتنی بے صلاحیت اور ناکارہ ہو کہ دنیا والوں کو اس کی ذات سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہو؟ کیا یہ معقول بات ہوگی کہ عورت دنیوی ترقیوں اور نت نئی ایجادات سے استفادہ تو کرے لیکن ان ترقیوں میں اس کا اپنا کوئی رول نہ ہو؟ یہ کس قدر عظیم اور ناقابل تلافی نقصان والی بات ہوگی کہ انسانی آبادی کے نصف حصے کو گھروں میں بٹھا کرنا کارہ بنا دیا جائے۔

اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورتوں کو چاہیے کہ گھروں میں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور اپنی صلاحتیوں کو زنگ نہ لگنے دیں بلکہ مردوں کی طرح انھیں بھی کام کرنا چاہیے اور معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنے حصے  کی صلاحتیں پیش کرنے چاہئیں۔تاہم اگر عورت کی جسمانی ساخت اور اس کی جملہ دارباتوں پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔

بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی اخراجات کے لیے ناکافی ہو یا عورت کے بوڑھے ماں باپ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہوں وغیرہ۔ان حالات میں اسے ملازمت کا اختیار ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔

﴿قالَتا لا نَسقى حَتّىٰ يُصدِرَ الرِّعاءُ وَأَبونا شَيخٌ كَبيرٌ ﴿٢٣﴾... سورة القصص

’’انھوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔

باپ چونکہ بوڑھے تھے اس لیے گھر سے باہر جا کر پانی بھرنے اور دوسرے کام کرنے کی ذمے داری ان دونوں جوان بیٹیوں پر تھی ۔ یہ بوڑھے باپ جیسا کہ دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  تھے۔

اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صاحبزادی حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا   گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ امت مسلمہ تعلیم اور دوسری ترقیوں کے میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری مسلم عورتوں میں بھی ڈاکٹر ہوں، نرس ہوں، لیکچرر اور پروفیسر ہوں، عورتیں بیمار ہوتی ہیں تو مسلمان لیڈی ڈاکٹرنہ ملنے کی وجہ سے مجبوراًمرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اسکول اور کالج میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے غیر مسلم اساتذہ اور لیکچررہوتے ہیں۔ جن سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کہ وہ مسلم لڑکیوں کی تربیت اسلامی انداز میں کریں گے۔ غرض کہ دور حاضر میں بہت سارے ایسے پرو فیشن(Profession)ہیں جن میں مسلم عورتوں کی شدید قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری عورتیں بھی ان شعبوں میں آئیں۔ بہر کیف ضرورت اور حالات کے مطابق عورت کا نوکری کرنا جائز اور حلال ہے لیکن اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے:

(1)یہ ضروری ہے کہ نوکری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز اور غلط ہو۔ مثلاً کسی کنوارے لڑکے کے یہاں خادمہ کی نوکری کرنا یا کسی شخص کی پرسنل سکریٹری بننا کیوں کہ تنہائی میں کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ڈانس اور گانے وغیرہ کی نوکری ہویا ایرہوسٹس کی نوکری کرنا کیوں کہ غیر شرعی لباس پہننا اور شراب پیش کرنا اور تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس نوکری کے لازمی اجزا ہیں اسی طرح ہر وہ نوکری جس میں کوئی غیر شرعی کام ہو جائز نہیں ہے:

(2)یہ ضروری ہے کہ نوکری کرتے ہوئے عورت تمام اخلاقی اور اسلامی آداب کا خیال رکھے۔

(3)یہ ضروری ہے کہ اس کی نوکری کرنے سے اس کی دوسری اولین اور زیادہ اہم ذمے داریاں متاثر نہ ہوں۔ مثلاً بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری میں غفلت نہ ہو یا اس کی نوکری کی وجہ سے گھر کا سکون وآرام غارت نہ ہو۔ کیوں کہ بچوں کی نگہداشت اور گھر کے ماحول کو پر سکون بنانا عورت کی اولین ذمے داری ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:142

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ