سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) عورتوں سے مصافحہ

  • 23924
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2930

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتوں سے مصافحہ کرنے کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ خاص کر ان عورتوں سے جو ہماری رشتے دار ہیں لیکن محرم نہیں  ہیں مثلاً خالہ زاد یا ماموں زاد بہنیں واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں رشتہ دار عورتوں سے مصافحہ کرنا ایک عام سی بات ہے۔ خاص کر سفر سے واپسی پر یا عیدو بقرعید اور خوشی کے دوسرے مواقع پر، اگر کوئی مصافحے سے ہاتھ کھینچ لے اور مصافحہ نہ کرے تو اسے بے ادبی اور بد اخلاقی تصور کیا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ چیز رنجش اور کدورت پیدا کر دیتی ہے۔

آپ یہ نہ سمجھیں کہ مصافحہ کرنے میں شہوت کار فرما ہوتی ہے یا کوئی جنسی میلان ہوتا ہے۔ بس یہ چیز ہمارے معاشرے کا ایک رواج ہے اور کچھ نہیں میرا سوال  یہ ہے کہ عورتوں سے مصافحہ کرنا قرآن وسنت کی نظر میں کیا ناجائز ہے؟ یا محض علماء حضرات نے بغیر کسی دلیل کے اسے ناجائز قراردیا ہے۔ امید ہے کہ آپ قرآن و حدیث کے حوالے سے ہمارے سوال کا جواب دیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا شبہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور چونکہ قرآن و سنت میں اس سلسلے میں کوئی واضح حکم نہیں ہے اس لیے کسی یقینی رائے تک پہنچنا نہایت مشکل کام ہے۔ تاہم ایک بالغ نظرفقیہ کی ذمے داری ہے کہ قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات اور احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی رائے اختیار کرے جس کا مقصد اللہ کو خوش کرنا ہو انسان کو نہیں۔

اپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں  دو ایسی باتیں بتانا چاہتا ہوں جن پر تمام فقہاء متفق ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ اگر شہوت اور جنسی لذت کی خاطر عورتوں سے مصافحہ کیا جائے یا اس عمل میں کسی بڑے فتنے کا حقیقی اندیشہ ہو تو عمل شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت بوڑھی عورت یا بہت چھوٹی لڑکی سے مصافحہ کرنا جائز ہے کیوں کہ اس میں کوئی شہوت یافتہ نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت بوڑھے مرد کا کسی بھی عمر کی عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے۔کیوں کہ یہ بوڑھا کسی بھی جنسی لذت یا شہوت سے خالی ہوتا ہے۔

روایتوں میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بوڑھی عورتوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے۔ یہ بھی روایتوں میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک بوڑھی عورت کو اپنے یہاں بہ طور خادمہ رکھا۔ وہ بوڑھی عورت ان کی خدمت کرتی تھی بسااوقات انھیں خود سے لپٹاتی تھی اور ان کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی تھی۔ اور یہ سارا عمل قرآن کے خلاف نہیں تھا کیوں کہ قرآن نے بوڑھی عورتوں کو وہ رخصت دی ہے جوجوان عورتوں کو نہیں دی ہے:

﴿وَالقَو‌ٰعِدُ مِنَ النِّساءِ الّـٰتى لا يَرجونَ نِكاحًا فَلَيسَ عَلَيهِنَّ جُناحٌ أَن يَضَعنَ ثِيابَهُنَّ غَيرَ مُتَبَرِّجـٰتٍ بِزينَةٍ وَأَن يَستَعفِفنَ خَيرٌ لَهُنَّ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٦٠﴾... سورة النور

’’بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اور خواہش ہی) نہ رہی ہو وه اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناه نہیں بشرطیکہ وه اپنا بناؤ سنگھار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں، تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے بہت افضل ہے، اور اللہ تعالیٰ سنتا جانتا ہے‘‘

اسی طرح وہ بوڑھے مرد جن کی جنسی حس ختم ہو چکی ہے یا وہ چھوٹے بچے جن کے اندر جنسی حس ابھی بیدار نہیں ہوئی ہے ان کے سامنے عورتوں کو زینت و زیبائش کر کے آنے کی اجازت دی گئی ہے:

﴿ أَوِ التّـٰبِعينَ غَيرِ أُولِى الإِربَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذينَ لَم يَظهَروا عَلىٰ عَور‌ٰتِ النِّساءِ...﴿٣١﴾... سورة النور

’’یا وہ زیردست مرد جو شہوت نہیں رکھتے ہیں یا وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے ہیں۔‘‘

یہ وہ صورتیں ہیں جن پر علماء کرام متفق ہیں کہ ان صورتوں میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز ہے۔ ان کےعلاوہ دوسری صورتوں میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں بحث و تحقیق کی جائے۔

وہ فقہائے کرام جن کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ عورتیں غیر محرموں کے سامنے اپنا چہرہ اور ہتھیلی ہی ڈھک کر رکھیں ان کے نزدیک عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ جب ہتھیلی چھپانا ضروری ہے تو اس کی طرف دیکھنا ہی جائز نہیں ہے اور جب ان کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔تو مصافحہ کرنا بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ مصافحہ کی صورت میں ہاتھ کا ہاتھ سے لمس ہوتا ہے۔ لیکن ان فقہائے کرام کی تعداد تھوڑی ہےاکثریت ان فقہائے کرام کی ہے جو غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنے کو جائز قراردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہاتھ کھولنا تو جائز ہے لیکن کیا مصافحہ کرنا بھی جائز ہے اگر یہ مصافحہ لذت کی خاطر نہیں بلکہ سماجی روایات کی وجہ سے کیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ مجھے قرآن وسنت میں ابھی تک کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ملی ہے جو اس طرح کے مصافحے کو ناجائز قراردے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ یہ عمل باعث فتنہ ہے اور اس فتنے کی وجہ سے اسی عمل کو جائز نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن یہ عمل اس وقت باعث فتنہ ہو سکتا ہے جب مصافحہ جنسی لذت کی خاطر کیا جائے اور ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جنسی لذت کی خاطر مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر مصافحہ جنسی لذت کی خاطر نہیں بلکہ رسم و رواج کی وجہ سے اور روایتی انداز میں کیا جائے تو اس میں کسی قسم کے فتنہ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے تو کیا پھر بھی یہ مصافحہ ناجائز قرار دیا جائے گا؟

بعض علمائے کرام عورتوں سے مصافحہ کو ناجائز قراردینے کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے مردوں اور عورتوں دونوں سے بیعت کی تھی کیوں کہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کا حکم دیا تھا جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اس کا بیان ہے۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی تھی جب کہ عورتوں سے محض زبانی طور پر بیعت کی اور ان سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ نہ ملانا اس بات کی واضح دلیل نہیں ہے کہ عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں  ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہت سارے کام محض اس وجہ سے نہیں کیے کہ یہ کام جائز ہونے کے باوجود ذاتی طور پر آپ کو پسند نہیں تھے۔ مثلاً بنجو کھانا آپ کو پسند نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے نہیں کھاتے تھے حالانکہ اس کا کھانا حلال ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کچی پیاز اور کچا لہسن نہیں کھاتے تھے حالانکہ یہ دونوں چیزیں حلال ہیں۔ محض آپ کا ذاتی عمل تھا اور ہم اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ ہم بھی ان چیزوں کو ناپسند کرکے نہ کھائیں ۔ اسی طرح عورتوں سے بیعت کے وقت ہاتھ ملانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو ناپسند محسوس ہوا اور آپ نے ہاتھ نہیں ملایا اس کا مطلب  یہ نہیں ہے کہ ہم بھی اس بات کے پابند ہیں کہ ہم اسے ناپسند کریں اور عورتوں سے ہاتھ نہ ملائیں ۔ البتہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے قول سے بھی اسے منع کرایا ہوتا تو اور بات تھی۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے قول سے منع نہیں کیا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی تسلیم شدہ اور متفق علیہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ چنانچہ حضرت اُم عطیہ انصاریہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی اور بیعت کے موقع پر عورتوں  سے ہاتھ ملایا تھا۔ یہ روایت صحیح ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ اور طبری  رحمۃ اللہ علیہ میں موجود ہے۔

یہ صحیح ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے موقع پر عورتوں سے جو بیعت کی تھی اس میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   قسم کھا کر فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ البتہ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کسی اور بیعت کے متعلق فرماتی ہیں کہ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔

بعض علمائے کرام عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز قرار دینے کے لیے یہ حدیث بھی بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں۔

"لَأنْ يُطعَنَ في رأسِ أحدِكم بمِخيَطٍ من حديدٍ خيرٌ لهُ مِنْ أن يَمَسَّ امرأةً لا تَحِلُّ لهُ "

’’تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھوئی جائے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ کسی ایسی عورت سے"مس" ہو جائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘

یہ حدیث بھی عورتوں سے مصافحہ کو ناجائز قراردینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتی کیوں کہ علمائے حدیث نے اس حدیث کو صراحت کے ساتھ صحیح نہیں قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے قدیم علماء نے اس حدیث کو کبھی بہ طور دلیل نہیں پیش کیا ہے۔ اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس حدیث میں جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے وہ ہے عورتوں سے’’مس‘‘ کرنا اور ’’مس‘‘ کا مفہوم بدن کے کسی حصہ کا محض چھوجانا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں لفظ"مس"دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

(الف) جماع اور ہم بستری   کے معنی میں مثلاً سورہ آل عمران کی یہ آیت :

﴿أَنّىٰ يَكونُ لى وَلَدٌ وَلَم يَمسَسنى بَشَرٌ...﴿٤٧﴾... سورة آل عمران

’’مجھے بچہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے حالانکہ کسی مرد نے مجھے مس نہیں کیا ہے(میرے ساتھ ہم بستری نہیں کی ہے)‘‘

ظاہر ہے کہ صرف چھوجانے سے عورت حاملہ نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اس آیت میں "مس"سے مراد ہے ہم بستری کرنا، اور اسی طرح قرآن میں جہاں جہاں لفظ مس استعمال ہوا ہے وہاں اس کا یہی مفہوم ہے:

(ب)ہم بستری سے پہلے جوحرکتیں ہوتی ہیں مثلاً بوسہ لینا گلے لگانا اور جسم سے لگا کربھیجنا وغیرہ قرآن کے "الفاظ""أَوْلَامَسْتُمُ النِّسَاءَ" کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔

الغرض قرآن و حدیث میں کوئی ایسی واضح اور صریح دلیل نہیں ہے جو جسم کے کسی حصے سے محض چھو جانے کوناجائز قراردے۔ بلکہ اس کے برعکس ایسی دلیلیں  پائی جاتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ عورت اور مرد کا ہاتھ محض چھوجانا کوئی قابل گرفت عمل نہیں ہے۔ بشرطے کہ یہ شہوت اور جنسی لذت کی خاطر نہ ہو اور نہ اس میں کسی قسم کا فتنہ ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی پر نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہاتھ عورتوں کے ہاتھ میں گیا ہے۔ اگر یہ کام ناجائز ہوتا تو ہر عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہر گز سر زد نہ ہوتا۔چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ" اگر مدینہ کی ایک   لونڈی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہاتھ پکڑ لیتی تو جہاں لے جاتی ۔" یہی حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور اس کے الفاظ یوں ہیں۔"مدینہ کی کوئی لونڈی اگر آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑا تے اور وہ جہاں چاہتی لے جاتی۔"

علامہ حافظہ ابن حجر بخاری شریف کی مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اندر حددرجہ تواضع اور انکساری تھی کہ اگر لونڈی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ پکڑ کر کہیں لے جانا چاہتی تو آپ تو اضعاً اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے اوراس کے ساتھ چل دیتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا لونڈی کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کا ہاتھ پکڑنا جائز ہے۔ بشرطیکہ یہ شہوت اور جنسی لذت کی خاطر نہ ہو۔ یا اس میں کسی قسم کا فتنہ نہ ہو۔ اگر یہ کام جنسی لذت کی خاطر ہو یا اس عمل میں کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر یہ عمل ناجائز قرارپائے گا۔

مذکورہ حدیث سے بھی زیادہ واضح اور صریح جو کہ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے وہ یہ کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خالہ اور عبادہ الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیوی یعنی اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے گھر پر قیلولہ فرمایا اور ان کی گود میں سر گئے اور وہ آپ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہیں۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مہمان اپنے میزبان کے گھر میں اس کی اجازت سے قیلولہ کر سکتا ہے اور یہ کہ عورت اپنے محرم اور اجنبی مہمان کی خدمت کر سکتی ہے۔ اسے کھانا پانی دے سکتی ہے اور اس کے آرام کا انتظام کر سکتی ہے۔

چونکہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی ہے اس لیے عام طور پر یہ حدیث پڑھ کر وہ لوگ بڑی مشکل میں پڑجاتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ذرا سخت گیر واقع ہوئے ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک غیر محرم عورت کی گود میں سر کیسے رکھا اور اپنے بالوں میں ان کی انگلیوں سے کنگھا کروایا اور پھر سوگئے۔جان چھڑانے کے لیے یہ لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا   شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی رضاعی ماں یا خالہ تھیں۔ اور بعض یہ تاویل کرتے ہیں۔ کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے خاص تھا دوسروں کے لیے یہ عمل جائز نہیں ہے بعض یہ تاویل کرتے ہیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے جذبات پر بہت زیادہ قابو تھا اس لیے آپ کے لیے یہ عمل جائز تھا یہ تمام تاویلیں ناقابل قبول ہیں۔ چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر قاضی عیاض اور دیگر بزرگ علماء ان تاویلوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی رضاعی ماں یا خالہ ہونا کسی بھی حوالہ سے ثابت نہیں ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے خاص تھا کیوں کہ اس عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح دلیل چاہیے لیکن اس کے لیے کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ہم محض اپنی مرضی سے کسی عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص نہیں کر سکتے۔اور یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نفسانی خواہشات پر بہت زیادہ قابوتھا اس لیے یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے جائز تھا۔ کیوں کہ خواہشوں پر قابو پانے کی وجہ سے کوئی ناجائز عمل جائز نہیں ہو سکتا ہے اور اس لیے بھی کہ اگر خواہشات پر قابو پانے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے یہ عمل جائز تھا تو پھر یہ عمل ان کی امت میں سے ہر اس شخص کے لیے جائز ہونا چاہیے جسے اپنی خواہشات پر قابو ہو۔ اس لیے تاویلوں کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس عمل کو جائز قراردینا نا مناسب اقدام ہے۔زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ ہم بغیر کسی تاویل کے ہی تسلیم کر لیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح کا عمل کیا اس لیے یہ عمل جائز ہے۔ بغیر کسی شہوت کے کسی عورت سے مصافحہ کرنے کا جواز اُم عطیہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   والی اس حدیث سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جس کا تذکرہ ہم اوپر کر آئے ہیں اور جس میں اُم عطیہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں کہ کسی بیعت کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔

ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر کسی شہوت اور جنسی لذت کے کسی عورت سے ہاتھ ملانا اور مصافحہ کرنا شرعاً جائز ہے۔ خاص کر ایسی صورت حال میں کہ دونوں کے درمیان کوئی قریبی رشتہ داری ہو اور دونوں عرصہ کے بعد ملے یا عیدوبقرعیدوغیرہ کا موقع ہو۔

لیکن مناسب یہ ہو گا کہ مصافحہ کا جواز صرف ضرورت کی حد تک محدود ہو۔ اسی وقت مصافحہ کیا جائے جب اس کی شدید ضرورت ہو مثلاً یہ کہ مصافحہ نہ کرنے کی صورت میں کدورت اور دشمنی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے سوال میں لکھا ہے۔ اور مناسب یہ ہوگا کہ عورتوں سے مصافحہ کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ البتہ اگر ان کی طرف سے پہل ہو تو پھر مصافحہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مصافحے کے جواز کا میرا یہ فتوی اس شخص کے لیے ہے جس کے لیے مصافحہ کرنا ناگزیر ہو جائے۔ جیسا کہ سوال کرنے والے نے اپنی حالت لکھی ہے اور ایسے شخص کو مصافحہ کرتے ہوئے یہ نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کوئی خلاف شرع کام کر رہا ہے۔ اور نہ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے اس عمل کو خلاف شرع قراردے کیوں کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور میں نے نہایت ایمان داری کے ساتھ اور تمام دلائل کی روشنی میں اجتہاد کر کے اپنی یہ رائے قائم کی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:134

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ