السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اسلامی آداب کی پابند عورت ہوں اور ایک اسکول میں معلمہ کی حیثیت سے درس و تدریس کے فرائض انجام دیتی ہوں۔ اسکول میں عورت اور مرددونوں پڑھاتے ہیں۔ مردوں کے ساتھ کوئی معاملہ ہو تو میں حتی الامکان کوشش کرتی ہوں کہ حسن اخلاق سے پیش آؤں اور اسلامی آداب کی خلاف ورزی نہ کروں۔ اسی حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم سب کا معمول یہ ہے کہ شادی بیاہ یا خوشی کے دوسرے مواقع پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں لیکن ایک بات دل میں کھٹکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مرد استاد بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور تیمارداری کو جانا ہمارے لیے شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟ اور اگر ہم بیمار ہو جائیں تو مرد حضرات ہماری عیادت یا تیمارداری کو آسکتے ہیں یا نہیں؟ امید ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مریض کی مزاج پرسی اور اس کی عیادت کو جانا اہم اسلامی آداب میں شامل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ متعدد احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت کو ان چند حقوق میں شمار کیا ہے جو ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں واجب ہیں مثلاً:
"حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ ) قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ : قَالَ ) إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ" (مسلم،ترمذی)
’’ایک مسلم پر دوسرے مسلم کے چھ حقوق واجب ہیں۔ پوچھا گیا کہ وہ کون سے حقوق ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جب تم کسی مسلم سے ملو تو اسے سلام کرو ۔جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو۔ جب تم سے مشورہ اور نصیحت کا طالب ہو تو اسے نصیحت کرو۔ جب چھینکے تو اس کے الحمدللہ کے جواب میں یرحمک اللہ کہو، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اور جب مر جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جاؤ۔‘‘
دوسری صحیح حدیث ہے:
"إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ"
’’ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو جاتا ہے تو جب تک وہ واپس نہ لوٹ جائے جنت میں رہتاہے۔‘‘
اور صحیح حدیث ہے۔
"إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ" (مسلم)
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو تونے میری عیادت کیوں نہیں کی؟ وہ جواب دے گا کہ اے رب العالمین میں تیری عیادت کیسے کر سکتا ہوں توتو تمام جہان کا مالک ہے اللہ فرمائے گا کیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تجھے پتہ نہیں ہے اگر تم اس کی عیادت کو جاتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔‘‘
ان کے علاوہ ایسی بے شمار حدیثیں ہیں۔ جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت کی ترغیب دی ہے۔ بلکہ اس کا حکم دیا ہے اور اسے اہم اسلامی آداب میں شمار کیاہے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک یہودی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستایا کرتا تھا بیمار ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو تشریف لے گئے اس یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
اس اہم اخلاقی فریضے کی اہمیت اس وقت دو چندہو جاتی ہے جب مریض سے کسی قسم کا قریبی تعلق ہو۔ مثلاً رشتہ داری ہو، دوستی ہو، پڑوسی ہو یا آفس میں ایک ساتھ کام کرتا ہو۔
غور طلب بات یہ ہے کہ تمام احادیث میں عیادت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صیغے کا استعمال کیا ہے اس کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہو سکتے ہیں۔اور لفظ"مریض"استعمال کیا ہے جس سے مراد مریض بھی ہو سکتا ہے اور عورت مریضہ بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو دیا ہے خواہ مریض عورت ہو یا مرد۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مریض چاہے مرد ہو یا عورت اس کی عیادت کو جانا مرد اور عورت دونوں پر واجب ہے۔اور دونوں کے حق میں یہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔
اپنی بات کی مزید تقویت کے لیے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چند عملی نمونے پیش کرتا ہوں جن سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کی مریض خواہ مرد ہو یا عورت اس کی عیادت کو جانا اسلامی آداب(Islamic Manners)میں سے ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے عملی نمونوں سے اس کی تعلیم دی ہے۔
بخاری شریف میں ایک باب کا عنوان ہے"باب عبادۃ النساء للرجال"(عورتوں کا مردوں کی عیادت کو جانا)اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چند عملی نمونے پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو جا سکتی ہیں۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت پیش کی ہے کہ حضرت اُم الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک انصاری صحابی کی عیادت کی۔ ایک دوسری روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے والد محترم! ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کی عیادت کو تشریف لے گئیں اور ان دونوں سے دریافت کیا"کیف تجدک"آپ کی حالت کیسی ہے؟
اسی طرح اُم مبشر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض موت میں ان کی عیادت کو تشریف لے گئیں اور ان سے فرمایا کہ اے عبدالرحمٰن !میرے بیٹے کو سلام کہنا۔
ان تمام روایتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو گئیں اور ان روایتوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو جاسکتی ہیں۔ بشرطے کہ اسلامی آداب کا خاص خیال رکھیں۔ مریض سے تنہائی میں نہ ملیں اور نہ بن سنورکر مریض کے پاس جائیں بلکہ بہتر یہ ہو گا کہ عورتیں گروپ کی شکل میں مریض کی عیادت کو جائیں تاکہ کسی قسم شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔
آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر آپ ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتی ہیں اور مبارکباد پیش کرتی ہیں پر ایسا کیوں ہے کہ غم اور بیماری کے موقع پر مردوں کے یہاں جانے میں اپ کھٹک محسوس کرتی ہیں؟حالانکہ خوشی سے زیادہ غم کے موقع پر مزاج پرسی کی ضرورت ہوتی ہے۔
جہاں تک مردوں کا کسی مریض عورت کی عیادت کو جانے کی بات ہے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے اور اس سلسلے میں بھی متعدد روایتیں موجود ہیں چنانچہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضباعۃ بنت الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت کو تشریف لے گئے اور گفتگو کے دوران ان سے دریافت کیا کہ "لَعَلَّكِ أَرَدْتِ الْحَجَّ"یعنی شاید کہ تمھارا حج کا ارادہ ہے؟ جواب میں حضرت ضباعہ نے فرمایا"وَاللَّهِ لاَ أَجِدُنِي إِلاَّ وَجِعَةً" یعنی بہ خدا بس تھوڑی تکلیف محسوس کر رہی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کو جاؤ اور نیت کے دوران شرط باندھ لویہ نیت کر لو کہ اگر بیماری کیوجہ سے حج نہ کر سکی تو مجھ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے دریافت کیا کہ اے اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم کانپ کیوں رہی ہو؟ اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بخار آگیا ہے۔ برا ہواس بخار کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخارکو برا بھلا مت کرو کیوں کہ اس سے انسان کے گناہ دھلتے ہیں۔
ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ اُم العلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں بیمار تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے۔بخاری شریعت کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت کو تشریف لے گئے جب کہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھیں اور ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت دے دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس اندر تشریف لے گئے اور ان سے ان کی خیریت دریافت کی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اچھی ہی ہوں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ آپ اچھی ہو جائیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور صرف آپ ہی ہیں جو کنوارا پن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں اور آپ کی بے گناہی کا اعلان آسمان سے نازل ہوا۔
ان تمام متواتر اور صحیح روایتوں کی روشنی میں یہ بات بہ آسانی کہی جا سکتی ہے کہ مرد حضرات بیمار عورتوں کی عیادت کو جاسکتے ہیں۔ بشرطے کہ اسلامی آداب کا خاص خیال رکھا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں کو پڑھنے اور سننے کے بعد مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کی عیادت کے لیے جانے کو کیسے ناجائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا محض اس وجہ سے کہ ہمارے معاشرہ کی روایت اس کے خلاف ہے یا ہمارے معاشرہ میں اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب