سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) عورتوں اور مردوں کے باہمی اختلاط کے شرعی حدود

  • 23922
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-15
  • مشاہدات : 3843

سوال

(19) عورتوں اور مردوں کے باہمی اختلاط کے شرعی حدود

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مخلوط طرز زندگی (عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ پڑھنا یاکام کرنا زندگی کے دوسرے کام انجام دینا)کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مردوں عورتوں کے اس قسم کے اختلاط کو علماء حضرات بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے ناجائز قراردیتے ہیں۔ بعض اتنے سخت گیرہیں  کہ عورتوں کے گھر سے نکلنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں حتی کہ عورتوں کا مسجد جانا بھی ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا ایک قول نقل کرتے ہیں۔

"لو علم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء بعده لمنعهن المساجد"

’’اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو علم ہو جاتا کہ ان کی موت کے بعد عورتوں  نے کیا رویہ اختیار کر لیا تو انھیں مسجد جانے سے منع کر دیتے۔

متحرم! آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ دور حاضر میں گونا گوں انسانی ضروریات کی بنا پر عورتیں گھر سے باہر قدم نکالنے پر مجبور ہیں۔ کیوں کہ مردوں کی طرح انھیں بھی تعلیم حاصل کرنی ہے بسااوقات انھیں بھی نوکری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اور انھیں بھی حق حاصل ہے کہ دنیا کی مختلف خوشیوں اور نئی نئی ایجادات سے لطف اندوز ہوں اور یہ سب حاصل کرنے کے لیے تھوڑا یا زیادہ مردوں کے ساتھ اختلاط ضروری ہے۔ کیوں کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنا ضروری ہے جہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہے اور کلاس میں عام طور پر مرد اساتذہ پڑھاتے ہیں اگر نوکری کرنی ہے تو ایسی جگہ نوکری ملنا بہت زیادہ مشکل ہے جہاں صرف عورتیں ہوں۔ اس لیے مجبور اً ایسی جگہ نوکری کرنی پڑتی ہے جہاں ساتھ میں مرد حضرات بھی ہوتے ہیں اور اگر علاج کرانا ہے تو بسااوقات مرد ڈاکٹر سے علاج کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

کیا اس طرح اختلاط اسلام کی نظر میں جائز ہے؟ اس ترقی یافتہ دور میں اورزندگی کی بے شمار ضرورتوں کے پیش نظر عورتوں کے لیے کیسے ممکن ہے کہ مردوں سے علیحدہ ہو کر ان سے بے نیاز ہو کر زندگی گزاریں اور گھر کے اندر قید ہو کر رہ جائیں خواہ اس گھر کے اندر انھیں دنیا بھر کا آرام ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

ایسا کیوں ہے کہ عورتوں کے لیے وہ سب کچھ جائز نہیں ہے جو مردوں کے لیے جائز ہے؟ مرد گھر سے باہر رہ کر کھلی اور تازہ ہوا کا مزہ لیتے ہیں اور عورت اس مزے سے محروم کر دی گئی ہے۔ مرد اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہیں۔جب کہ عورتوں پر بے شمار پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔آخر عورتوں کے سلسلے میں اس قدر خوف اور بد گمانیاں کیوں ہیں؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی عقل اور سمجھ داری عطا کی ہے۔ اگر عورتیں غلطیاں کر سکتی ہیں۔ تو مرد بھی غلطیاں کرتے ہیں پھر سارے مزے صرف  مرد کی جھولی میں کیوں ہیں؟

امید ہے کہ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں گے۔ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ فلاں شیخ اور فلاں عالم دین اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔ ہمیں صرف اللہ اور اس کے رسول کا حکم معلوم کرنا ہے۔ اس لیے براہ مہربانی صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمارے سوالوں کا جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم مسلمانوں کی بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم بیشتر معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔اسلام نے ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور اسی بنا پر ہمیں "امت وسط"(مستدل امت)کا خطاب دیا گیا ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ شاذونادر ہی ہم اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔بیشتر مسائل میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ افراط وتفریط کا معاملہ سب سے زیادہ عورتوں اور ان کے مسائل میں ہے عورتوں کے معاملے میں ہمارے یہاں عموماً دو قسم کی سوچ پائی جاتی ہے۔

پہلی قسم کی سوچ ان مغرب پرست لوگوں کی ہے مغربی تہذیب اور اس کی ہر ہر ادا سے مرعوب ہیں اور اسی لیے وہ اسے مکمل طور پر اختیار کر لینا چاہتے ہیں۔ مغربی تہذیب چونکہ عورتوں کی مکمل آزادی عریانیت بےلگام فیشن اور مردوں سے برابری کی علمبرداری ہے اس لیے یہ لوگ بھی اپنی عورتوں کو اسی رنگ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں خواہ اس تہذیب میں اخلاقی دیوالیہ پن اپنے عروج پر ہو۔ یہ لوگ اس بات سے انجان ہیں کہ اس بے لگام آزادی اور جنسی بے راہ روی نے مغربی سماج کو کن خطرناک مسائل دوچار کر دیا ہے حتی کہ اب ان کے مفکر ین اور مصلحین اس  سے قید آزادی پر پابندی لگانے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

اس کے بالکل برعکس دوسری سوچ ان لوگوں کی ہے جو عورتوں اور ان کی نسوانیت کے معاملے میں بڑے حساس اور سخت گیر واقع ہوئے ہیں انھیں عورتوں کی طرف سے ہر وقت فتنوں کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ عورتوں کی ذراسی بھی آزادی کو گوارا نہیں کرتے ہیں ۔انھوں نے عورتوں کو مختلف سماجی اور مذہبی پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ حالانکہ دین اسلام کا ان پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسلام نے ان پابندیوں کی ہدایت کی ہے۔

یہ دونوں قسم کے لوگ افراط و تفریط کا شکار اور عورت کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔ آپ نے اپنے سوال میں جو باتیں پوچھی ہیں آج کے دور میں عورتوں کے یہ حقیقی مسائل ہیں اور ہر عورت کے ذہن میں کم و بیش اسی قسم کے سوالات اٹھتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا تفصیلی جواب دیا جائے۔

جہاں تک اختلاط (عورتوں اور مردوں کا ساتھ مل کر کوئی کام انجام دینا) کا تعلق ہے اس سلسلے میں اسلام کا کوئی عمومی (Genera)حکم نہیں ہے کہ ہر قسم کے حالات میں اس حکم کوچسپاں کیا جا سکے۔ بلکہ مختلف حالات اور مختلف ماحول کے لحاظ سے اس کا حکم بھی مختلف  ہے اور اس حکم سے پہلے مختلف عوامل کی رعانیت بھی ناگزیر ہے مثلاً یہ کہ اس اختلاط کی کس حد تک ضرورت ہے۔ وہ کون سے مقاصد ہیں جن کی تکمیل کے لیے یہ اختلاط ضروری ہے۔ کیا ماحول اس اختلاط کا متحمل ہو سکتا ہے اور اس اختلاط کے منفی اور مثبت اثرات کس حد تک ہو سکتے ہیں؟

اس سلسلے میں سب سے عمدہ اور قابل تقلید نمونہ بلا شبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے میں یہ اختلاط جائز تھا یا ناجائز اور اگر جائز تھا تو کس حد تک جائز تھا؟

عورتوں کو گھر کے اندر مقید رہنے اور قسم کے اختلاط سے دور رہنے کا جو تصور آج پایا جاتا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں نہیں تھا چنانچہ اس زمانے میں عورتیں نہ گھروں میں قید ہو کر اور نہ مردوں سے بالکل الگ اور علیحدہ ہو کر زندگی گزارتی تھیں۔ یہ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں پر بے جا پابندیوں کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہو گیا جب مسلم امت قرآن و حدیث کی صحیح تعلیمات سے دور ہونے لگی تعلیم کے بجائے جہالت پھیلنے لگی اور ترقی کے بجائے پسماندگی غالب آنے لگی ، جہالت و پسماندگی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

عہد نبوی میں عورتوں کی زندگی ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک تھی۔سارے معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ان کے یہاں اعتدال تھا۔ نہ وہ گھروں میں اس طرح قید تھیں جس طرح بعض نادان قسم کے دین دار لوگ اپنی عورتوں کو رکھتے ہیں اور نہ مغرب کی عورتوں کی طرح سارا وقت گھر سے باہر رہ کر مکمل آزادی کے ساتھ گزارتی تھیں انھیں گھر سے باہر نکلنے کی آزادی تھی لیکن اخلاقی پابندیوں کے ساتھ چنانچہ عہد نبوی میں عورتیں مسجد جاکر مردوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں مسجد آنے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ اس زمانے میں مرد پاجامہ نہیں پہنتے تھے بلکہ کھلی ہوئی چادر باندھتے تھے جس کی وجہ سے سجدے کی حالت میں ستر نظر آنے کا اندیشہ رہتا تھا ۔ اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں کو مسجد آنے سے منع نہیں  کیا بلکہ انھیں حکم دیا کہ تم مردوں سے الگ ہو کر صف لگاؤ۔ حتی کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی دیوار بھی نہیں کھڑی کی۔ شروع شروع میں مرد اور عورتیں ایک ہی دروازہ سے مسجد کے اندر جاتے تھے جس کی وجہ سے اکثر دروازے پر بھیڑ ہو جاتی تھی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں کے لیے علیحدہ دروازہ بنوایا۔ آج بھی اس دروازے کو باب النساء(عورتوں کا دروازہ) کہتے ہیں۔

پنج وقتہ نمازوں کی طرح جمعہ کے دن بھی عورتیں خطبہ سننے کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں عیدوبقر عید کے موقع پر بھی عورتیں مسجد جایا کرتی تھیں اور مردوں کے ساتھ عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتی تھیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ عید کے دن اپنی عورتوں اور جوان لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکالوتاکہ وہ بھی کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔

"عن أُمِّ عَطِيَّةَ قالَت: «أَمَرَنَا رسولُ اللَّه صلى الله عليه وسلم  أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ والْأَضْحَى: الْعَوَاتِقَ والْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، ويَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، ودَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ: يا رسولَ اللَّهِ، إِحْدَانَا لا يكونُ لها جِلْبَابٌ؟ قال: «لِتُلْبِسْهَا أُخْتُها مِنْ جِلْبَابِهَا" (مسلم)

’’اُم عطیہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں گھروں سے باہر نکالیں۔نوجوان لڑکیوں کو، حیض والی عورتوں کو اور پردہ نشیں عورتوں کو(بھی )حیض والی عورتیں نماز سے دور رہیں گی۔لیکن خوشیوں اور دعاؤں میں شریک ہوں گی۔ میں نے کہا کہ اے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ! کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی وہ کیسے نکلنے ؟آپ نے فرمایا کہ اس کی کوئی دینی بہن اسے اپنی چادر دے دے۔‘‘

افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور میں چند سخت گیر قسم کے علماء نے اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کو جان کر فراموش کر دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  گھر کی عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر عید و بقر عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور یہ علماء حضرات محض وہمی اندیشوں اور فتنوں کا عذر لنگ پیش کر کے عورتوں کو گھر کے اندر بیٹھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔

اس طرح عہد نبوی میں عورتیں گھروں سے باہر نکل کر علم حاصل کرنے کے لیے درس و تدریس کی ان مجلسوں میں شریک ہوتی تھیں جہاں مرد حضرات بھی موجود ہوتے تھے۔ حدیہ ہے کہ اس مجلس میں عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایسے سوالات بھی پوچھتی تھیں۔ جنھیں بیان کرنے میں عورتیں عام طور پر شرماتی اور جھجکتی ہیں۔ مثلاً حیض جنابت اور احتلام کے متعلق سوالات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہ کبھی ان عورتوں کو تدریسی مجلسوں میں آنے سے منع کیا اور نہ اس قسم کے سوالات ہی سے روکا۔ بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   انصار کی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ شرم و حیانے انھیں کبھی علم حاصل کرنے سے نہیں باز رکھا۔

عہد نبوی میں گھر سے باہر عورتوں کی سر گرمیاں اور دوڑ بھاگ صرف مسجد اور تعلیم گاہ تک محدود نہیں تھی بلکہ جہاد اور جنگ کے موقع پر بھی انھوں نے مختلف ذمےداریاں نبھائی مثلاً زخمیوں کو سنبھالنا۔نرس بن کران کی مرہم پٹی کرنا انھیں کھانا پانی پیش کرنا اور وقت پڑنے پر دشمنوں پروارکرنا۔ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔

"غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ،وَأُدَاوِي الْجَرْحَى، وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى" (مسلم)

’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں سات جنگیں لڑی ہیں میں ان کے پیچھے ان کے سازو سامان کی حفاظت کرتی تھی میں ان کے لیے کھانا بناتی زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی  تھی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔‘‘

مسلم شریف ہی کی روایت ہے کہ جنگ احد کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا  اپنی پیٹھ پر مشکیزہ اٹھائے مجاہدین کو پانی پلانے کاکام انجام دے رہی تھیں۔ احد کے موقع حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اپنی عمر کے لحاظ سے جوانی کے میدان میں قدم رکھ رہی تھیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کی سر گرمیوں میں صرف ادھیڑ اور بوڑھی عمر کی عورتیں ہیں نہیں شریک ہوتی تھیں بلکہ نوجوان لڑکیاں بھی پیش پیش رہتی تھیں جہاد میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں متعدد صحیح روایات ہیں اور ان سب کا یہاں بیان ممکن نہیں ہے۔

عہد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں عورتوں نے صرف اپنے شہر یا شہر سے قریبی علاقے میں رہ کر جہاد میں شرکت نہیں کی بلکہ دور دراز علاقوں میں جاکر بھی جہاد میں شریک ہوئی ہیں۔ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیوی اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے لیے دعا کی تھی کہ سمندر میں سفر کر کے جہاد میں جائیں ۔ چنانچہ حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عہد خلافت میں اُم حرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  جہاد کی خاطر قبر ص تشریف لے گئیں وہاں جہاد میں شریک ہوئیں اور وہیں انھوں نے وفات پائی۔

اسی طرح عہد نبوی میں عورتیں سماجی کاموں میں بھی مردوں کے ساتھ مل کر اپنے فرائض انجام دیتی تھیں۔مثلاً سماج میں برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں کو روکنے کو فروغ دینے کا فریضہ جسے اللہ نے مردوں اور عورتوں پر یکساں طور پر فرض کیا ہے۔ اللہ کاارشاد ہے:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ ...﴿٧١﴾... سورة التوبة

’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔"یہ سب مل کر نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘

خلفائے راشدین کے عہد میں عورتوں کی سر گرمیاں صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں تھیں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دینا کافی ہو گا جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ اسلام کے درخشاں دور میں عورتیں بھی مردوں کی طرح سماج میں ایک افعال کردار ادا کرتی تھیں۔حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اپنے دور خلافت میں حضرت شفاء بنت عبد اللہ  کو باز ار کا نگراں مقرر کیا۔[1]

قرآن کریم میں جابجا مختلف انبیاء و رسل کے واقعات اور ان کی حیات طیبہ کا ذکر موجود ہے۔ ان میں بعض واقعات عورتوں کے حوالہ سے بھی ہیں۔ ان واقعات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان انبیاء کے زمانے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان وہ آہنی پردہ نہیں تھا جسے دور حاضر کے مسلم معاشرہ نے کھینچ رکھا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام  پوری آزادی کے ساتھ گوشہ تنہائی میں بیٹھی مریم علیہ السلام  کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان گفتگو فرماتے تھے۔یہ واقعہ سورہ آل عمران میں موجود ہے حضرت سلیمان علیہ السلام  سبا کی رانی کو اپنے یہاں دعوت دیتے ہیں اسے اپنے محل کی سیر کراتے ہیں اس سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں سبا کی رانی حضرت سلیمان علیہ السلام  کی عمدہ ضیافت اچھے اخلاق اور سیاسی رعب و دبدبہ دیکھ کر اسلام قبول کر لیتی ہے۔ یہ واقعہ سورہ نمل میں موجود ہے۔

یہ سارے واقعات اللہ کے برگزیدہ نبیوں کے ہیں اور چونکہ کہیں پر بھی اللہ نے یا اس کے رسول حضرت محمداللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے اس عمل پر تنقید نہیں کیا ہے اس لیے ان نبیوں کا عمل ہمارے لیے بھی مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔

﴿أُولـٰئِكَ الَّذينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدىٰهُمُ اقتَدِه ... ﴿٩٠﴾... سورةالانعام

:یہ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ نے ہدایت عطا کی تھی تو تم بھی ان کی راہ ہدایت کی اتباع کرو۔"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان اختلاط کوئی ناجائز اور گناہ کاکام نہیں ہے۔اسلام کسی ایسے معاشرہ کا تصور نہیں پیش کرتا ہے جس میں مرد کسی اور وادی میں ہوں اور عورتیں کسی اور وادی میں۔عورتوں کا دائرہ کار صرف گھر تک محدود ہواور مردوں کا دائرہ کار صرف گھر سے باہر ہو۔

مرد اور عورتیں دونوں معاشرے کا حصہ ہیں اور ان دونوں کو مل کر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے اس لیے یہ اختلاط نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ بسااوقات یہ اختلاط ضروری ہو جاتا ہے جب کوئی عظیم مقصد کا کا حصول مقصود ہو یا کسی بھلائی اور نیک کام کی انجام دہی میں دونوں کی مشترکہ جدو جہد اور باہمی تعاون کی ضرورت ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس اختلاط کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان کی حدوں کو ختم کردیا جائے اور تمام شرعی قواعد و ضوابط کو فراموش کر دیا جائے۔ جیسا کہ مغربی ممالک  یا غیر مسلم معاشرہ میں ہوتا ہے۔ مسلم معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ شریعت کی حدوں میں رہتے ہوئے معاشرہ کی فلاح و بہبود اور اس کی ترقی و اصلاح کی خاطر مل جل کر کام کریں اور ایک دوسرے کا تعاون  کریں ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان شرعی حدود کی وضاحت کردی جائے۔

(1)مرد اور عورت دونوں غض بصرسے کام لیں۔ ایک دوسرے کی طرف شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں ۔ اللہ کا ارشاد ہے:

﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ...﴿٣٠﴾... سورة النور

’’مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور

’’مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘

(2)عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ساتر لباس میں ہو چہرہ اور ہتھیلی کے علاوہ بدن کے سارے اعضا ڈھکے ہوئے ہوں،لباس نہ تنگ ہو کہ جسم کے نشیب و فراز کا حال معلوم ہواور نہ باریک  اور شفاف ہو کہ بدن نظر آئے اور سینے پر دوپٹہ ہو۔ اللہ نے فرمایا ہے:

﴿وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور

’’اور یہ عورتیں اپنی زینت و زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اس کے جوخود بہ خود ظاہر ہو جائے۔ اور انھیں چاہیے کہ اپنے سینوں پر دوپٹہ ڈال لیں۔‘‘

عورتوں کو ساتر اور شریفانہ لباس پہننے کی ہدایت اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے لباس سے مہذب شریف اور پر وقار نظر آئیں اور اوباش قسم کے لوگ چھیڑ خانی کی جرات نہ کرسکیں۔ اللہ کا فرمان ہے:

﴿ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ ...﴿٥٩﴾... سورة الأحزاب

’’اس طریقہ سے یہ عورتیں پہچان لی جائیں گی(یعنی نظر آئے گا کہ یہ شریف عورتیں ہیں) اور تنگ نہیں کی جائیں گی۔‘‘

(3)مردوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی آداب(Islamic Manners)کا خیال رکھیں۔

(الف) گفتگو کا انداز شریفانہ ہو اور گفتگو اخلاقی حدود کے اندررہ کر کی جائے ۔ گفتگو میں ادائیں دکھانے اور ناز ونخرے کرنے کا انداز نہ ہو۔ اللہ کا حکم ہے:

﴿إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾... سورة الأحزاب

’’اگر تم اللہ سے ڈرتی ہوتو بات کرنے میں نرمی اور گدازنہ پیدا کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص تمھارے سلسلے میں کوئی لالچ کر بیٹھے اور بھلے طریقے سے بات کرو۔‘‘

(ب)ان کی چال ڈھال میں حیا اور وقار ہو۔ پھوہڑپن اور بےباکی نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ... ﴿٣١﴾... سورة النور

’’اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔‘‘

(ج)ایسی حرکتیں نہ کریں جن میں ناز وادا اور لبھانے والا انداز ہو۔ ایسا کرنے والیوں کو حدیث میں"ممیلات و مائلات" کہہ کر ان کی سرزنش کی گئی ہے۔

(4)ہر اس چیز سے اجتناب کریں جن میں مردوں کے لیے کشش ہو مثلاً تیز خوشبو یا شوخ رنگ کے کپڑےیا زیب وزینت وغیرہ۔

(5)تنہائی میں کسی مرد کے ساتھ نہ بیٹھیں اس طرح کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو ۔

(6)کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ بلا ضرورت مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ مردوں کے ساتھ زیادہ گھلنے ملنے سے لوگ عورتوں کے سلسلے میں باتیں بنانے لگتے ہیں اور انگلیاں اٹھاتے ہیں عورتوں کو چاہیے کہ لوگوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ ان پر شک کر سکیں۔


[1]۔یہ ایک طرح کا سرکاری عہدہ تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اگر باصلاحیت ہے تو شرعی حدود میں رہتے ہوئے سروس کر سکتی ہے عورتوں کو سروس کرنے سے یکلخت روک دینا یا ان کے لیے فتنہ کی بنیاد پر سروس کرنے کو ناجائز قراردینا مناسب  بات نہیں معلوم ہوتی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:118

محدث فتویٰ

تبصرے