سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) عورتوں کو سلام کرنا

  • 23921
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 2500

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم کالج میں پڑھنے والی لڑکیاں ہیں۔ ہمارے اساتذہ کا معمول ہے کہ کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں سلام کرتے ہیں اور ہم ان کو سلام کا جواب دیتے ہیں ۔ کیوں کہ ہماری اپنی سمجھ کے مطابق عورتوں کوبھی مردوں کے سلام کا جواب دینا چاہیے۔ لیکن ایک استاد ہماری اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ چنانچہ کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے انھوں نے کبھی ہمیں سلام نہیں کیا اورنہ ہمارے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے عورتوں کو سلام کرنا جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ عورتیں سلام کا جواب دیں ۔ کیوں کہ عورتوں کی آواز بھی ستر ہے۔ حالانکہ یہی استاد پڑھاتے وقت ہم سے سوال کرتے ہیں اور ہمارے سوال کا جواب دیتے ہیں اور ہم سے باتیں بھی کرتے ہیں تو محض سلام کرنے میں انھیں کیا قباحت محسوس ہوتی ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کیا عورت کی آواز ستر ہے اور مردوں کے درمیان اسے خاموش رہنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کی جن آیات میں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی جن احادیث میں سلام کرنے کی تاکید ہے ان پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان میں مرد اور عورت کے درمیان تفریق نہیں کی گئی ہے اور ان میں مخاطب مرد اور عورت دونوں ہی ہیں مثلاً قرآن کی آیت ملاحظہ کیجیے ۔

﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها ... ﴿٨٦﴾... سورة النساء

’’اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو اس کا بہتر سلام کے ذریعے جواب دویا پھر ویسے ہی سلام سے جواب دو۔‘‘

اس آیت میں مخاطب مرد وعورت دونوں ہی ہیں۔

اسی طرح ایک حدیث ملاحظہ کیجیے۔

"لاَ تَدْخُلُوا الجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلا تُؤمِنوا حَتى تحَابُّوا، أَوَلا أدُلُّكُمْ عَلَى شَئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحاَبَبْتُم؟ أفْشُوا السَّلام بَيْنَكُم" (مسلم)

"قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تو جنت میں نہیں جا سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ۔ اور اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم آپس میں محبت بڑھے گی اپنے درمیان سلام کو رواج دو۔"

اس حدیث میں بھی مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کے مخاطب صرف مرد ہیں عورتیں نہیں ہیں۔ اور نہ قرآن و حدیث میں ہی ایسی دلیل ملتی ہے کہ مرد عورتوں کو سلام نہیں کر سکتے یا عورتیں  مردوں کے سلام کا جواب نہیں دے سکتیں۔ بلکہ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں مردوں نے عورتوں کو سلام کیا ہے اور عورتوں نے ان کے سلام کا جواب دیا ہے اس لیے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا جواب دینا اسلامی آداب میں شامل ہے۔

ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عمل سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔

بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی چچا زاد بہن حضر اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا   حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر تشریف لائیں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نہارہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے پردہ کر رکھا تھا۔ اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت کیا کہ کون آئی ہے؟ اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے جواب دیا کہ میں اُ م ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا"مرحبا بام ہانی‘‘(اُم ہانی کو خوش آمدید ہو)

بخاری شریف میں ایک باب کا عنوان ہے"مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو سلام کرنا"اس عنوان کے ذریعے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کوجواب دینا چاہتے ہیں جو عورتوں کو سلام کرنا یا ان کا جواب دینا پسند نہیں کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی رائے کے حق میں دو حدیثیں پیش کی ہیں پہلی حدیث کی روایت حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت کسی کھجور کے باغ میں ان کے لیے کھانا تیار کر کے رکھتی تھی اور نماز جمعہ کے بعد حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ساتھ ان کے پاس جاتے تھے اور انھیں سلام کرتے تھے اور وہ عورت ان کے سامنے کھانا پیش کرتی تھی۔

دوسری حدیث کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   یہ جبریل علیہ السلام  آئے ہیں اور تمھیں سلام کہہ رہے ہیں چنانچہ حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ان کے سلام کا جواب دیا۔[1]

ترمذی میں ایک حدیث ہے حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں ایک جگہ بیٹھی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا۔

روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بعض عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انھیں سلام کیا اور بتایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا پیغام لے کر تمھارے پاس آیا ہوں۔

امام احمد  بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مسند احمد میں ایک روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب یمن تشریف لے گئے ایک عورت ان کے پاس آئی اور انھیں سلام کیا۔

ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  عورتوں کو سلام کیا کرتے تھے اور عورتیں بھی سلام کا جواب دیتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایت میں ہے۔اوپر میں نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  عورتوں کو سلام کرنے  میں کوئی قباحت  نہیں محسوس کرتے تھے لیکن آج کے بعض علماء حضرات اس سے منع کرتے ہیں۔ انھیں عورتوں کے سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ اور خوف محسوس ہونا ہے۔ ان کے مطابق احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نہ عورتوں کو سلام کیا جائے اور نہ یہ سلام کا جواب دیں۔ احناف کہتے ہیں کہ عورتیں صرف اپنے محرم مردوں کو سلام کر سکتی ہیں بعض علماء کرام کے نزدیک صرف بوڑھی عورتوں کو سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے اور ان سب کی صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ ہے فتنہ کا اندیشہ پتہ نہیں اس طرح کے علماء کرام عورتوں کے معاملے میں اس قدر حساس اور محتاط کیوں واقع ہوئے ہیں کہ انھیں عورتوں کے ساتھ کسی بھی معاملے میں فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہے حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا عمل ثابت کرتا ہے کہ لوگ عورتوں کے معاملے میں اس طرح کے حساس اور سخت گیر نہیں تھے اور نہ اس قدر احتیاط کے زائل تھے۔ ایک بھی ایسی روایت اور حدیث نہیں ہے جس میں اس بات کا بیان ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  عورتوں کو سلام کرے میں کوئی حرج محسوس کرتے تھے۔ خاص کرجب کوئی ملاقات کی غرض سے ان کے پاس جاتا یا معلم اور معالج کی حیثیت سے ان کے پاس جاتا البتہ راہ چلتے کسی عورت کو سلام کرنا مناسب نہیں ہے الایہ کہ اس سے کسی قسم کی قریبی رشتہ داری ہو یا ایسا کوئی قریبی تعلق ہو جیسا کہ استاد اور شاگرد کے درمیان ہوتا ہے۔

آپ نے اپنے سوال میں اپنے ایک استاد کا طرز عمل تحریر کیا ہے کہ وہ عورتوں کو سلام کرنا درست نہیں تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی استاد پڑھاتےوقت آپ عورتوں سے باتیں کرتے ہیں۔ آپ کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور آپ سے سوال کرتے ہیں تو محض سلام کرنے میں انھیں کون سی شرعی قباحت محسوس ہوتی ہے جس فتنہ کے خوف سے یہ عورتوں کو سلام کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں کلاس روم کے اندر اس قسم کے فتنہ کی کہاں گنجائش ہو سکتی ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ تو باپ بیٹے یا تو باپ بیٹی کا رشتہ ہوتا ہے اور پھر کلاس روم کا ماحول انتہائی سنجیدہ اور پروقار ماحول ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی قسم کے فتنہ کا کیوں کر خوف ہو سکتا ہے۔

رہی یہ بات کہ عورتوں کی آواز ستر ہے اور مردوں کے درمیان انھیں خاموش رہنا چاہیے تاکہ ان کی آواز مردوں کے کان نہ پڑے تو یہ ایک بے بنیاد بات ہے جس کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن و حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عورتیں غیر محرم مردوں سے بات کر سکتی ہیں لیکن ادب و احترام کے ساتھ جیسا کہ پچھلے جواب میں میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں۔


[1] ۔اگر کوئی یہ کہے کہ جبریل علیہ السلام  تو فرشتہ تھے۔ تو اس سلسلے میں واضح رہے کہ جبریل عام طور پر مرد کی صورت میں تشریف لاتے تھے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:114

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ