سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوانے کی ذمے داری

  • 23918
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 5789

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت حوا کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام  جنت سے نکالے گئے تھے؟ کیوں کہ انھوں نے ہی حضرت آدم علیہ السلام   کو ممنو عہ پھل کھانے پر آمادہ کیا تھا۔ کیا ایسا کر کے انھوں نے پوری نسل انسانی کو جنت سے محروم نہیں کر دیا؟ عورتوں پر تنقید کرنے والے اور انھیں تمام فسادات اور مصائب کا ذمے دار سمجھنے والے عام طور پر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں کیا اسلامی نقطہ نظر سے یہ بات درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ نقطہ نظر کہ حضرت حوانہ الفاظ دیگر عورت تمام نسل انسانی کی بدبختی اور بربادی کی ذمہ دار ہے بلا شبہ غیر اسلامی نقطہ نظر ہے۔ اس نقطہ نظر کا ماخذ تحریف شدہ تورات ہے۔ جس پر یہودو نصاری ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کے دانشور اور مفکرین لکھتے اور بولتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلم دانشور بھی بلا سوچے سمجھے ان کے راگ میں راگ ملاتے ہیں۔

قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں حضرت آدم علیہ السلام   اور ان کے جنت سے نکالے جانے کا قصہ بیان ہوا ہے۔اس قصے سے متعلق آیتوں کو یکجا کرنے اور ان کے مطالعے سے درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں ۔

1۔اللہ تعالیٰ نے ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانے کا حکم بیک وقت حضرت آدم علیہ السلام   اور حضرت حوا دونوں کو دیا تھا۔ اللہ کے حکم کے مطابق دونوں ہی اس بات کے مکلف تھے کہ اس درخت کے قریب نہ جائیں۔ اللہ فرماتا ہے۔

﴿وَقُلنا يـٰـٔادَمُ اسكُن أَنتَ وَزَوجُكَ الجَنَّةَ وَكُلا مِنها رَغَدًا حَيثُ شِئتُما وَلا تَقرَبا هـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكونا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿٣٥﴾... سورة البقرة

’’اور ہم نے حضرت آدم علیہ السلام    سے کہا کہ تم اور تمھارے بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ مگر تم دونوں اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے۔‘‘

2۔ حضرت آدم علیہ السلام   کو ورغلانے والی حضرت حوا نہیں تھیں بلکہ ان دونوں کو بہکانے والا اور جنت سے نکلوانے والا شیطان تھا۔ اس سلسلے میں اللہ کا فرمان ملاحظہ ہو۔

﴿فَأَزَلَّهُمَا الشَّيطـٰنُ عَنها فَأَخرَجَهُما مِمّا كانا فيهِ... ﴿٣٦﴾... سورة البقرة

’’مگر شیطان نے ان دونوں کو اسی درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انھیں اس حالت سے نکلوا چھوڑا جس میں وہ تھے۔‘‘

سورہ بقرۃ کے علاوہ سورہ اعراف میں بھی اس واقعے کی تفصیل ہے۔ ملا حظہ فرمائیں۔

﴿ وَيـٰـٔادَمُ اسكُن أَنتَ وَزَوجُكَ الجَنَّةَ فَكُلا مِن حَيثُ شِئتُما وَلا تَقرَبا هـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكونا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٩ فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِىَ عَنهُما مِن سَوء‌ٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَبُّكُما عَن هـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـٰلِدينَ ﴿٢٠ وَقاسَمَهُما إِنّى لَكُما لَمِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢١﴾... سورة الاعراف

’’اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے (19) پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالاتاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ (20) اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں‘‘

سورۃ طہٰ میں بھی اس واقعہ کا تذکرہ ہے اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے جو تعبیر اختیار کی ہے اس کے مطابق بہکنے اور گمراہ ہونے کی پہلی ذمے داری حضرت آدم علیہ السلام   پر عائد ہوتی ہے نہ کہ حضرت حوا پر اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کی سرزنش اور تنبیہ کا سارا رخ حضرت آدم علیہ السلام   کی طرف ہے نہ کہ حوا  کی طرف ۔ ملا حظہ ہو۔

﴿فَقُلنا يـٰـٔادَمُ إِنَّ هـٰذا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوجِكَ فَلا يُخرِجَنَّكُما مِنَ الجَنَّةِ فَتَشقىٰ ﴿١١٧ إِنَّ لَكَ أَلّا تَجوعَ فيها وَلا تَعرىٰ ﴿١١٨ وَأَنَّكَ لا تَظمَؤُا۟ فيها وَلا تَضحىٰ ﴿١١٩ فَوَسوَسَ إِلَيهِ الشَّيطـٰنُ قالَ يـٰـٔادَمُ هَل أَدُلُّكَ عَلىٰ شَجَرَةِ الخُلدِ وَمُلكٍ لا يَبلىٰ ﴿١٢٠ فَأَكَلا مِنها فَبَدَت لَهُما سَوء‌ٰتُهُما وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَقِ الجَنَّةِ وَعَصىٰ ءادَمُ رَبَّهُ فَغَوىٰ ﴿١٢١﴾... سورة طه

’’تو ہم نے کہا اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وه تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے (117) یہاں تو تجھے یہ آرام ہے کہ نہ تو بھوکا ہوتا ہے نہ ننگا (118) اور نہ تو یہاں پیاسا ہوتا ہے نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاتا ہے (119) لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا، کہنے لگا کہ میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو (120) چنانچہ ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے۔ آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی، پس بہک گیا‘‘

مذکورہ آیت میں نافرمانی اور گمراہی کی نسبت واضح طور پر صراحت کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام   کو کس غرض و غایت کے تحت پیدا کیا ہے ۔ اور اس غرض وغایت کی وضاحت آدم کی تخلیق سے قبل ہی کر دی گئی تھی۔ اللہ فرماتا ہے۔

﴿وَإِذ قالَ رَبُّكَ لِلمَلـٰئِكَةِ إِنّى جاعِلٌ فِى الأَرضِ خَليفَةً قالوا أَتَجعَلُ فيها مَن يُفسِدُ فيها وَيَسفِكُ الدِّماءَ وَنَحنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قالَ إِنّى أَعلَمُ ما لا تَعلَمونَ ﴿٣٠﴾... سورة البقرة

’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں، تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘

صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام   اور موسیٰ علیہ السلام  کے درمیان عالم بالا میں ملاقات ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام  نے گفتگو کے دوران نسل انسانی کی بد بختی اور اس کے جنت سے محروم ہوجانے کی ذمہ داری حضرت آدم علیہ السلام    پر ڈالنی چاہی تو حضرت آدم علیہ السلام   نے قطع کلام کرتے ہوئے انھیں سمجھایا کہ یہ سب کچھ میری غلطی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے قبل ہی سب کچھ طے کر دیا تھا۔ اور تمھیں تورات میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ملے گا۔

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ حضرت موسیٰ نے اس معصیت کا ذمہ دار حضرت آدم  علیہ السلام کو قراردینا چاہا حضرت حوا کو نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ تورات میں اس معصیت کاحضرت حوا کی طرف منسوب ہونا اس کے تحریف شدہ ہونے کی واضح دلیل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ حضرت آدم  علیہ السلام  کا ممنوعہ درخت کا پھل کھانا اور اس کی پاداش میں انھیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا جانا ۔ یہ بس کچھ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم  علیہ السلام  کی تخلیق سے قبل ہی طے کر رکھا تھا۔ اس لیے تقدیر کے مطابق ان باتوں کا وقوع پذیر ہونا طے شدہ تھا۔

(4)وہ جنت جس میں حضرت آدم  علیہ السلام  تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے اور جس کے درخت کا پھل کھانے کی وجہ سے زمین پر بھیج دیے گئے تھے کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ وہی جنت ہو جو آخرت میں نیک اور صالح بندوں کے لیے بناگئی ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس جنت میں حضرت آدم علیہ السلام  تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے وہ اسی زمین کی کوئی جنت ہے اور جنت سے مراد خوبصورت باغ اور سر سبز و شاداب علاقہ ہے کیوں کہ عربی زبان میں جنت خوبصورت باغ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں متعدد مقامات پر لفظ جنت کو اسی زمینی باغ کے معنی میں استعمال کیا ہے ملاحظہ سورہ قلم کی یہ آیت

﴿إِنّا بَلَونـٰهُم كَما بَلَونا أَصحـٰبَ الجَنَّةِ ...﴿١٧﴾... سورة القلم

’’ہم نے ان لوگوں کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔‘‘

﴿ وَاضرِب لَهُم مَثَلًا رَجُلَينِ جَعَلنا لِأَحَدِهِما جَنَّتَينِ مِن أَعنـٰبٍ وَحَفَفنـٰهُما بِنَخلٍ وَجَعَلنا بَينَهُما زَرعًا ﴿٣٢﴾... سورة الكهف

’’ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ ان دو لوگوں کی جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی ۔ دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور پھل دینے میں کوئی کمی نہیں کی۔‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:95

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ