السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہرسال رمضان اور عید کے موقع پر یہ افسوسناک صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے کہ چاند دیکھنے کے مسئلے پر ہمارے درمیان اختلافات رونما ہوجاتے ہیں۔بسا اوقات یہ اختلافات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ ایک ہی شہر کے اندر مسلمان دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ایک کی آج عید ہوتی ہے تو دوسرا گروہ کل عید مناتا ہے۔اس سے غیرمسلموں کو ہم پر ہنسنے اور مذاق اڑانے کا موقع مل جاتا ہے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنے سارے اختلافات کے باجود کم از کم رمضان اور عید جیسے موقعوں پر متحد ہوجاتے اور غیرمسلموں کواپنی قوت واتحاد کا احساس دلاتے۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ چاند کے مسئلے کو لے کر بات بسا اوقات اختلافات سے گزر کر عداوت اور مخاصمت تک پہنچ جاتی ہے۔
کیا مسلمانوں کا ہر سال اس طرح اختلاف کرنا قابل مواخذہ نہیں ہے؟کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مسلم ماہرین فلکیات کی خدمت اورمشوروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چاند نکلنے کی تاریخ کے دن کو طے کرلیاجائے۔آج سائنس ٹیکنالوجی اس قدر ترقی یافتہ ہوچکی ہے کہ انسان کے قدم نہ صرف یہ کہ چاند تک پہنچ چکے ہیں بلکہ اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی شہر اور علاقہ کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ جانا جاسکتا ہے کہ اس شہرمیں چاند کس دن اور کس گھنٹے اور کس منٹ میں نظر آئے گا۔میں سمجھتا ہوں کہ علم فلکیات کی مدد سے چاند نکلنے کے مسئلہ کو بہت آسانی کے ساتھ حل کیا جاسکتاہے اور اس طرح ہم ہرسال رونماہونے والے اختلافات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مختلف صحیح احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان اورعید کی آمد کوتین طریقوں سے ثابت کیاجاسکتا ہے ۔ان طریقوں کے بیان سےقبل اس سلسلے میں پائی جانے والی چنداحادیث کو پیش کرتا ہوں:
1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ: فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ" (بخاری ومسلم)
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کررمضان ختم کرو۔اگر(بادل کی وجہ سے) چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے پورے تیس دن مکمل کرلو(شعبان کو تیس دنوں کاتسلیم کرکے رمضان کی شروعات کی جائے)‘‘
2۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"لا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلالَ ، وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ " (بخاری ومسلم)
’’روزہ نہ رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو۔اوررمضان نہ ختم کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو،لیکن اگر بدلی ہے تو اندازے اور حساب سے روزے رکھو۔"
ان دونوں صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ رمضان اور عید کی آمد کو مندرجہ ذیل تین طریقوں سے ثابت کیاجاسکتا ہے۔
1۔چانددیکھ کر
2۔شعبان کے پورے تیس دن مکمل کرکے
3۔اندازے اور حساب کے ذریعے
جہاں تک چاند دیکھنے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ اس معاملے میں دو اور اس سے زائد لوگوں کی گواہی ضروری ہے یا ایک آدمی کی گواہی کافی ہے۔بعض فقہاء کے نزدیک ایک شخص کی گواہی کافی ہے۔بعض کم از کم دو شخص کی گواہی کو لازمی قراردیتے ہیں۔حنفی مسلک یہ ہے کہ اگر مطلع صاف ہے تو ایک دو آدمی کی گواہی کافی نہیں ہے بلکہ بہت سارے لوگوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ مطلع صاف ہونے کی صورت میں ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ صرف ایک دو آدمی ہی چاند دیکھ سکیں اور باقی نہ دیکھ سکیں۔ہاں اگر مطلع ابر آلود ہے تو ایک دو آدمی کی گواہی کافی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مطلع صاف ہویا ابر آلود اگرشعبان کی انتیس تاریخ کو کسی نے بھی چاند نہ دیکھا تو ایسی صورت میں شعبان کے تیس دن مکمل کرکے رمضان کا آغاز ہوگا۔ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ہم شعبان کی ابتدا اور اس کی تاریخوں کا بھی حساب رکھیں کیونکہ جب تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ آج شعبان کی 28 تاریخ ہے یاستائیس ،اس وقت تک 29 یا تیس تاریخ کا تعین کیسے ہوسکتاہے۔اس بنا پر ضروری ہے کہ امت مسلمہ کےذمے دار حضرات تمام قمری مہینوں کے حساب وکتاب کا اہتمام کریں کیونکہ ہر مہینہ دوسرے مہینے سے جڑا ہوا ہے۔
چاند کے اثبات کا تیسرا طریقہ حدیث میں یوں بیان ہوا ہے"فَاقْدُرُوا لَهُ"احناف اورجمہور علماء وفقہاء اس جملہ کامفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ مطلع ابرآلود ہونے کی صورت میں چاند کو تیس دن کا تصور کرلیاجائے گا اور شعبان کے تیس دن مکمل ہونے کے بعد رمضان کی شروعات ہوگی۔لیکن امام ابوالعباس بن سریج جو ایک زبردست شافعی فقیہ وعالم ہیں،اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ:
" فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ "
’’شعبان کے پورے تیس دن مکمل کرلو‘‘
اس حکم کے مخاطب عوام الناس ہیں جب کہ کےمخاطب کچھ خاص لوگ ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو فلکیات کے اعداد وشمار کا علم رکھتے ہیں اور ان اعدادوشمار کی بنا پر وہ چاندکے طلوع ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ یقینی بات کہہ سکتے ہیں۔ورنہ ایک عام آدمی جسے فلکیات کا علم نہیں ہے چاند کے طلوع ہونے کا اندازہ کیسے لگا سکتا ہے ۔گویا "فَاقْدُرُوا لَهُ" کا مفہوم ان کے نزدیک یہ ہے کہ اعداد وشمار اور حساب کے ذریعے چاند کے طلوع ہونے کا اندازہ اور تخمینہ لگاؤ۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور حنبلی مسلک کے علماء کہتے ہیں کہ اعداد وشمار اور حساب کے ذریعے چاند کے طلوع ہونے کااندازہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ" (بخاری ،مسلم)
’’ہم ایسی اُمت ہیں جو ناخواندہ ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب لگانا جانتے ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات چاند کے طلوع کا حساب لگانے کےسلسلے میں فرمائی تھی کہ ہم تو اَن پڑھ لوگ ہیں چاند کے طلوع کا حساب کتاب لگانا کہاں آتا ہے۔اس بنا پر حنبلی رحمۃ اللہ علیہ مسلک کے ماننے والے کہتے ہیں کہ اگرہم مسلمانوں کو اس بات کا مکلف کردیا جائے کہ ہم اعداد وشمار کے ذریعے چاند کے طلوع ہونے کا اندازہ لگائیں تو یہ بڑی پریشان کن بات ہوگی۔ کیونکہ فلکیات کے اعداوشمار سے واقف کار حضرات مسلمانوں میں شاذونادر ہی پائے جاتے ہیں اور وہ بھی صرف بڑے شہروں میں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث سے یہ مفہوم اخذکرنا کہ اعداد وشمار کے ذریعے چاند کے طلوع کا اندازہ لگانے سےحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ،غلط ہے۔اس حدیث میں فقط اتنی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اُمت اَن پڑھ ہے۔یہ حساب کتاب اور اعدادوشمار سے ناواقف ہے۔اس لیے اس اُمت سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ چاند کے طلوع ہونے کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا سکتی ہے اس حدیث میں حساب لگانے اور اعدادوشمار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور نہ اس بات کی ترغیب دی گئی ہے۔کہ ہم اَن پڑھ اُمت ہیں اور ہمیشہ اَن پڑھ رہیں۔چنانچہ اس اُمت میں جہالت اورناخواندگی کے خلاف آواز اُٹھانے والے سب سے پہلے شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔اور اسی اسلامی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ جلد ہی مسلمانوں میں تعلیم عام ہوگئی۔وقت کے جید علماء پیدا ہوئے اور وہ دور بھی آیا جب مسلمانوں میں سائنس داں،علماء ومشائخ اور ہر علم کے ماہرین کی اچھی خاصی تعدادپائی جانے لگی۔
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ فلکیات کاعلم صرف شازونادر ہی لوگ رکھتے ہیں اور وہ بھی صرف بڑے شہروں میں۔یہ بات پرانے زمانے میں تو صحیح ہوسکتی تھی لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں صحیح نہیں کیونکہ اب علم فلکیات دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
چاند کے گردش اور اس کے مدارج پر نگاہ رکھنے کے لیے بڑی بڑی رصد گاہیں بنائی گئی ہیں اور فضا میں متعدد سیارچے(Satellite) تیررہے ہیں،جن سے چاند کی گردش کی مکمل خبر رہتی ہے۔ان تمام ذرائع سے اب اس بات کا صد فی صد یقینی علم رکھنا بہت آسان ہوگیا ہے کہ چاند کسی شہر میں کتنے بج کر کتنے منٹ پرطلوع ہوگا۔اب علم کے معاملے میں بڑے اور چھوٹے شہروں کی کوئی تفریق نہیں رہ گئی ہے۔اس لیے کہ ذرائع مواصلات اتنے تیز ہیں کہ کوئی بھی خبر پل بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ چاند کے طلوع ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میں علم فلکیات کی خدمت حاصل کی جائے۔کیونکہ یہ علم صد فی صد صحیح واقفیت فراہم کرسکتا ہے۔اس طرح سے ہر قسم کے اختلاف سے بچا جاسکتا ہے۔
بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ فلکی اعداد وشمار سے مراد وہ جنتریاں یا کیلنڈر ہیں،جن میں سال بھر کی تاریخ ،نمازوں کے اوقات،قمری مہینوں کا اندراج اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے۔یہ جنتریاں ہمارے بازاروں میں بھی شرکت سے فروخت ہوتی ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دن تاریخ اور وقت کے معاملہ میں ان جنتریوں میں بڑا اختلاف ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنتریاں جو معلومات فراہم کرتی ہیں ان کی بنیاد ٹھوس علمی اور سائنسی حقائق پر نہیں ہوتی۔اس لیے ان جنتریوں پر اعتماد کرنا غلط ہے۔فلکی اعدادوشمار سے مراد وہ ٹھوس علمی اور سائنسی معلومات ہیں جو فلکی رصد گاہیں(دوربین) سیارچے(Satellite) اور علم فلکیات پیش کرتےہیں۔اور جن کی بنیاد تجربے اور مشاہدے پر ہوتی ہے اور جن میں غلطی کا احتمال تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
بعض علماء اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں علم فلکیات اور اس کی فراہم کردہ معلومات کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور روزہ ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھیں اور عید منائیں۔میں سمجھتا ہوں کہ علم فلکیات کی فراہم کردہ معلومات کو نظر انداز کردینا اور صرف چاند دیکھنے پر اصرار کرنا صحیح بات نہیں ہے کیوں کہ:
1۔یہ بات خلاف عقل ہوتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قوم کو علم فلکیات کے ذریعہ اور اعداد وشمار کےذریعہ چاند کی روئیت کا فیصلہ کرنے کا مشورہ دیتے جو اَن پڑھ اور ناخواندہ تھی۔جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی اعتراف کیا کہ ہم تو ناخواندہ امت ہیں،ہمیں لکھنا اورحساب رکھنا کہاں آتا ہے۔اس ناخواندہ قوم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی روئیت کے لیے ایسے طریقہ کار کاحکم دیا،جو اس کے بس میں تھا اور جو اس قدیم زمانے میں ہرشخص کے لیے آسان ترین طریقہ تھا اور وہ تھا آنکھوں سے چانددیکھنا۔اب اگر اس ترقی یافتہ زمانے میں چاند کا پتہ کرنے کے لیے دوسرے یقینی ذرائع میسر ہیں توان ذرائع کے استعمال میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟
2۔دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھنے کے علاوہ"فَاقْدِرُوا لَهُ" کا بھی حکم دیا ہے۔اس جملہ کا سیدھا سادھا ترجمہ یہ ہے کہ"چاند کا اندازہ کرلو"ظاہر ہے کہ علم فلکیات کے اعدادوشماربھی تو اندازہ کرنے کاایک یقینی طریقہ ہے۔
3۔حدیث میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کاحکم ہے لیکن اصل مقصد چاند دیکھنا نہیں ہے بلکہ اصل مقصد صحیح وقت پر روزہ رکھنا ہے۔اس اصل مقصد کے حصول کےلیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے لحاظس سے ایک آسان طریقہ چاند دیکھنا بتایا ہے۔
لیکن اس حدیث میں اس بات کی ممانعت نہیں ہے کہ ہم دوسرے طریقے اختیار نہیں کرسکتے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر اصل مقصد کے حصول کے لیے دوسرے بہترطریقے میسر ہیں تو انھیں اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔خاص کر ایسی صورتِ حال میں کہ چاند کا دیکھنا اس دور میں کافی مختلف فیہ مسئلہ بن چکا ہے۔اس کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔اگر علم فلکیات کے اعدادوشمار کے ذریعے ان مسائل اور اختلاف کو ختم کیاجاسکتا ہے ،تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس طریقہ کار کواختیار کریں۔
مختصر یہ کہ میں طویل عرصہ سے اپنے مسلمان بھائیوں سے اپیل کرتا آیاہوں کہ ہر سال عید اور رمضان کے موقع پر چاند کی وجہ سے ہمارے درمیان جو شدید اختلافات رونما ہوجاتے ہیں بلکہ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے،یہ کافی افسوس ناک صورت حال ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔
اگر ہم دیکھنے کے ساتھ ساتھ علم فلکیات ،رصد گاہوں اور سیٹلائٹ وغیرہ کی مدد حاصل کریں تو صد فیصد یقین کے ساتھ معلوم کیاجاسکتا ہے کہ چاند کس شہر میں کس وقت طلوع ہوگا اور اس طرح اس جھگڑے پر قابو پایاجاسکتاہے۔اس کے ساتھ ہم غیر مسلموں کے سامنے اپنے اتحاد واتفاق کانمونہ بھی پیش کرسکتے ہیں۔
اگر سارے ملک میں ایک ساتھ رمضان اورعید منائیں۔اگر سارے ملک میں ایک ساتھ رمضان اور عیدکرنا ممکن نہ ہوسکے تو کم از کم اتنا ضرورہونا چاہیے کہ ایک علاقے کی حد تک رمضان اور عید ایک ساتھ ہو۔کیونکہ یہ صورتحال نہایت تکلیف دہ ہے کہ ایک ہی علاقہ اور شہر میں دو الگ الگ دنوں میں عید کی نماز پڑھی جائے اور دو الگ الگ دنوں میں رمضان کا آغاز ہو۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا دین اسلام اس قسم کےتفرقہ کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب