سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) عہد نبوی میں مسجد کا دعوتی اور سرکاری مرکز ہونا

  • 23915
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2259

سوال

(12) عہد نبوی میں مسجد کا دعوتی اور سرکاری مرکز ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے درمیان ایک اہم مسئلہ موضوع بحث بناہوا ہے۔ہم نے مناسب سمجھا کہ اس معاملے میں آپ سے رجوع کریں۔مسئلہ یہ ہے کہ مسجد کو سیاسی اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟اگر ہاں تو اس کےکیادلائل ہیں اور اگر نہیں تو اس کی کیا توجیہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عہد نبوی میں مسجد مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کامرکز ہوا کرتی تھی۔یہ محض عبادت اور نماز کی جگہ نہیں تھی بلکہ جس طرح نماز کے لیے مسجد عبادت گاہ تھی اسی طرح حصول علم کے لیے یونیورسٹی،ادبی سرگرمیوں کے لیے اسٹیج،مشاورتی امور کے لیے پارلیمنٹ اور باہمی تعارف کی خاطر نقطہء ملاقات کا کام دیتی تھی۔عرب کے دور دراز علاقوں سے وفود آتے تو مسجد ہی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملاقات کاانتظام ہوتا اور تمام دینی ،معاشرتی اور سیاسی تربیت کے لیے آپ مسجد ہی میں وعظ فرمایا کرتے تھے۔

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں دین اور سیاست علیحدہ علیحدہ چیز نہیں تھی جیسا کہ آج  تصور کیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دینی مسائل کے حل کے لیے اور سیاسی مسائل سے نبرآزما ہونے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس الگ الگ مراکز نہیں تھے۔دونوں طرح کےمسائل مسجد ہی میں نمٹائے جاتے تھے۔

عہد نبوی کی طرح خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عہد میں بھی مسجد مسلمانوں کی تمام دینی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔چنانچہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے خلیفہ نامزد ہونے کے بعداپنا پہلاسیاسی خطبہ مسجد ہی میں دیا تھا،جس میں انھوں نےاپنی سیاست کے خدوخال بیان فرمائے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےاپنے خطبہ میں فرمایا تھا"اے لوگو!میں تمہارا خلیفہ مقرر کیاگیا ہوں حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر شخص نہیں ہوں۔اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مددکرو اور اگر باطل پر پاؤ تو مجھے سیدھا کردو۔"اسی مسجد میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی اپنا پہلا سیاسی خطبہ دیا تھا اور فرمایا تھا’’اے لوگو!تم میں سےجوشخص مجھ میں کجی دیکھے تو اسے چاہیے کہ مجھے سیدھا کردے۔"کسی شخص نے دوران خطبہ برملا کہا کہ باخدا اگر ہم نے آپ کے اندر کوئی کجی پائی تو تلوارکی دھار پر آپ کو سیدھا کردیں گے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ شکر ہے اللہ کاجس نےعمر کی رعایامیں ایسے لوگ پیدا فرمائے ہیں جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو تلوار کی دھار پر سیدھا کرسکتے ہیں۔یہ رول ہواکرتا تھا مسجدوں کا اس زمانے میں جب مسلمانوں کو عروج حاصل تھا۔لیکن جب اُمت مسلمہ میں انحطاط اور زوال کا دور شروع ہوگیا اور مسلم معاشرہ پسماندگی کا شکار ہوگیا تو مسجدوں نے بھی اپنا ہمہ جہت رول کھودیا،وہ صرف نمازوں تک محدود ہوکررہ گئیں اور جمعہ کے خطبے بے جان اور بے اثر ہوگئے۔

مجھے نہیں معلوم کہ سیاست کو اس قدر غلیظ اور بدنام کیوں تصور کیا جاتا ہے حالانکہ سیاست باحیثیت علم نہایت سنجیدہ اوراعلیٰ وارفع علم ہے۔سیاست بذات خود نہ گندگی ہے اور نہ جرم ،لیکن جس سیاست میں اچھے بُرے کی تمیز نہ ہو اور مقصد حاصل کرنے کے لیے جائز وناجائز ہتھکنڈے اختیار کیے جائیں وہ سیاست اپنے غلط طریقے کار کی وجہ سے یقیناً گندی سیاست ہے۔رہی وہ سیاست جس کا مقصد کارہائے حکومت کو اس طرح انجام دینا ہوکہ معاشرے میں ظلم وفساد کی سرکوبی ہو۔مصالح عامہ کی بازیابی ہو اور معاشرے میں عدل وانصاف کا قیام ہو تو یقیناً ایسی سیاست ہمارے دین کاایک اہم حصہ ہے۔اور اس اہم حصے کی انجام دہی کے لیے مسجدوں کو ان کے فعال کردارسے محروم کرنا زبردست غلطی ہوگی۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل نظام حیات ہے۔جس میں عقیدہ بھی ہے،عمل صالح بھی اور عمل صالح کی طرف لوگوں کوبلانا بھی۔لوگوں کو اچھی باتیں بتانا اوربُری باتوں سےخبردار کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔اللہ فرماتا ہے:

﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...﴿١١٠﴾... سورةآل عمران

’’تم وہ بہترین امت ہو جسے انسانوں کی خاطر نکالا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

حدیث شریف ہے:

"الدِّينُ النَّصِيحَةُ" (مسلم)

’’دین نام ہے اس کا کوئی لوگوں کو نصیحت کی جائے اور انھیں بھلی بات بتائی جائے۔‘‘

قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جن قوموں نے اس فریضے کی طرف سے غفلت برتی وہ اللہ کےنزدیک ملعون قرار پائی۔

﴿لُعِنَ الَّذينَ كَفَروا مِن بَنى إِسر‌ٰءيلَ عَلىٰ لِسانِ داوۥدَ وَعيسَى ابنِ مَريَمَ ذ‌ٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٧٨ كانوا لا يَتَناهَونَ عَن مُنكَرٍ فَعَلوهُ لَبِئسَ ما كانوا يَفعَلونَ ﴿٧٩﴾... سورة المائدة

’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اورع عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔انھوں  نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوردیا تھا۔بڑابُرا عمل تھا جووہ کررہے تھے۔‘‘

اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس اہم دینی فریضے کی ادائی میں مساجد کا بھی رول ہوا اور اس عظیم الشان پلیٹ فارم سے لوگوں کی سیاسی اور فکری تربیت کاعمدہ انتظام ہو۔ضرورت اسی بات کی ہے کہ اس عظیم منبر سے مسلمانوں کو ان کے دینی،سیاسی اور ملی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور ان مسائل کاحل پیش کیا جائے۔

مجھے یاد ہے کہ 1956ء میں جب مصر پر دشمنوں نے حملہ کیا تھا تو وزارت اوقاف کی طرف سے مجھے حکم ملا تھا کہ میں قاہرہ کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دوں اور لوگوں میں دشمنوں کے خلاف جذبوں اور حوصلوں کا اضافہ کروں۔وقت کا شدید تقاضا تھا کہ میں اس منبر کو سیاسی اورجنگی مسائل پر خطبہ دینے کےلیے استعمال کروں اور میں نےایسا ہی کیا۔اس کے خاطر خواہ مفید نتائج برآمد ہوئے۔حالانکہ خودمصری حکومت نے اس سے قبل مجھ پر ہر قسم کی تدریسی وتقریری پابندی لگارکھی تھی۔

مسجدوں میں ایسے خطبے بھی دیے جاسکتے ہیں جن میں حکومت کی غلط اور غیر مفیدپالیسیوں پر تنقید کی جائے اور اربابِ حکومت کو ان کی کوتاہیوں سے آگاہ کیا جائے بشرط یہ کہ ان خطبوں میں نام لے کر کسی خاص شخص کو لعن طعن کرنے سے پرہیز کیا جائے اور ان تمام باتوں سے اجتناب کیا جائے،جو شرعی حدود سے تجاوز کرتی ہوں۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسجدوں کے خطبے اصلاح معاشرہ اور اقامت شریعت کے لیے ہوتے ہیں اس لیے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ برسرِاقتدار پارٹی یا اپوزیشن پارٹی محض اپنی سیاست چمکانے یا سیاسی پروپیگنڈہ کے لیے مسجدوں کو استعمال کریں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

ارکانِ اسلام اور عبادات،جلد:2،صفحہ:79

محدث فتویٰ

تبصرے