السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بچپن ہی سے ایک عقیدہ میرے ذہن میں راسخ ہے اور یہ لوگوں میں مشہور ومعروف بھی ہے،وہ یہ کہ جہنم ایک دائمی اور ابدی ٹھکانا ہے۔کفار ومشرکین کے لیے اس کی آگ کبھی فنا نہیں ہوگی۔لیکن چند دنوں قبل میں نے کسی کتاب میں پڑھا کہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد رشید علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اس رائے سے اختلاف رکھتے تھے۔ان کی رائے یہ ہے کہ جہنم ابدی اور دائمی جگہ نہیں ہے۔اسے کبھی نہ کبھی فنا ہونا ہے۔ایک دن وہ بھی آئے گا جب اس میں سارے لوگ نکال لیے جائیں گے اور اس میں کوئی بھی نہیں بچے گا۔براہِ کرم بتائیں کہ یہ رائے علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کی ہے یا غلط پر ان کی طرف منسوب کردی گئی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عرصہ دراز سے میں علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کامطالعہ کررہاہوں۔پورے وثوق سے کے ساتھ میں کہہ سکتا ہوں کہ علامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کسی کتاب میں بھی مذکورہ رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔البتہ اس رائے کا اظہار ان کے شاگرد رشید علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نےکیاہے۔لیکن لوگوں نےغلط فہمی میں یہ رائے ان کے استاد علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کردی۔
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نےجہنم کے فناہونے کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے میں اس کا خلاصہ پیش کررہا ہوں۔علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے جہنم کےفنا ہونے یا اس کےابدی ہونے کے سلسلے میں علمائے کرام کےسات اقوال نقل کیے ہیں۔ان میں سےایک قول یہ ہے کہ تمام جہنمی اپنی اپنی سزائیں بھگت کرکبھی نہ کبھی جنت کی طرف منتقل کردیے جائیں گے۔اور ایک دن وہ آئ گا جب اس میں کوئی بھی نہ بچے گا اور اس کے بعد جہنم فنا کردی جائے گی۔علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے اسے اختیار کیا ہے اور انھوں نےاس کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے ہیں۔
1۔قرآن کریم میں تین آیتیں ایسی ہیں جن میں اس بات کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ جہنم ابدی اوردائمی ٹھکانا نہیں ہے۔
﴿لـٰبِثينَ فيها أَحقابًا ﴿٢٣﴾... سورة النباء
’’جس میں(جہنم میں) وہ مدتوں پڑے رہیں گے۔‘‘
قرآن کا یہ طرزِ بیان کہ جہنمیوں کاجہنم میں قیام مدتوں رہے گا واضح کررہا ہے کہ جہنم میں ان کاقیام ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ مدتوں پر محیط ہوگا۔کیونکہ ہمیشہ رہنے والوں کے لیے عربی زبان میں"لابِثِينَ أَحْقَاباً" کی تعبیر استعمال نہیں کی جاتی۔یہی رائے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ قرآن کوہم سے بہتر سمجھتے تھے۔
دوسری آیت ہے:
﴿قالَ النّارُ مَثوىٰكُم خـٰلِدينَ فيها إِلّا ما شاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكيمٌ عَليمٌ ﴿١٢٨﴾... سورة الانعام
’’اللہ فرمائے گا جہنم تم لوگوں کا ٹھکاناہے۔اس میں تم ہمیشہ رہوگے الا یہ کہ اللہ تمھیں جتنی مدت تک رکھناچاہے۔بے شک تمہارا رب حکمت والا اور علم والا ہے۔‘‘
تیسری آیت یوں ہے:
﴿خـٰلِدينَ فيها ما دامَتِ السَّمـٰوٰتُ وَالأَرضُ إِلّا ما شاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعّالٌ لِما يُريدُ ﴿١٠٧﴾... سورة هود
’’جہنم میں وہ اس وقت تک رہیں گے جب تک آسمان وزمین قائم ہے الا یہ کہ تیرا رب جیسا چاہے۔بے شک تیرا رب جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
آخر الذکر دونوں آیتوں میں اس بات کا بیان ہے کہ جہنم کی مدت ِبقا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی مدت بقا دائمی اور ابدی نہیں ہے۔
2۔متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ،تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کی رائے بھی یہی ہے کہ جہنم ابدی اور دائمی ٹھکانا نہیں ہے بلکہ اسے کبھی نہ کبھی فناہوناہے،مثلاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:"اگرجہنمی جہنم میں ریت کے ذروں کے برابر دن بھی رہ جائیں تب بھی ایک دن ایسا آئے گا جب وہ اس سے نکال لیے جائیں گے۔"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم پر ایک دن ایسا آئے گا جب اس کے دروازے بند کردیے جائیں گے اور اس میں کوئی بھی نہیں بچے گا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئےگا کہ جہنم میں کوئی بھی نہیں بچے گا۔یہی رائے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت ابوسعیدالخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ہے۔تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ ۔اسحاق بن راہویہ وغیرہ بھی یہی رائے رکھتےہیں۔
3۔عقلی اور نقلی تمام دلیلیں ثابت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ حکیم اور رحیم ہے اور یہ بات اس کی حکمت ورحمت کے منافی ہے کہ قصور وار لوگ ہمیشہ کے لیے عذاب جہنم کے مستحق قراردیے جائیں۔دلیلوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نےدنیوی سزائیں حکمت ومصلحت کی بنا پر عائد کی ہیں۔حکمت ومصلحت یہ ہےکہ ان سزاؤں کے ذریعے لوگوں کو ان کے گناہوں سے پاک کیا جائے،لوگ ان سزاؤں سے سبق حاصل کریں اوردوبارہ وہ ایسی غلطیاں نہ کریں۔گویا یہ سزائیں خودانسان کے فائدے کے لیے ہیں اور یہ دنیوی سزائیں وقتی ہوتی ہیں،دائمی نہیں۔دنیا کی طرح آخرت کی سزائیں بھی اللہ کی حکمت اور رحمت کی وجہ سے ہیں۔ان سزاؤں کے پیچھے نعوذباللہ اللہ کاظلم کارفرما نہیں ہے۔بلکہ صحیح حدیث میں ہے کہ دنیا میں اللہ کی رحمت آخرت میں اس کی رحمت کا ایک چھوٹا ساجز ہے۔آخرت میں اس کی رحمت بے پایاں اور بے حد وحساب ہوگی۔اور اس کی رحمت کاتقاضا ہے کہ جہنم کا عذاب ہمیشہ باقی نہ رہے۔اس پر مستزاد یہ ہے کہ اللہ کو اس سےکوئی غرض نہیں ہے کہ وہ اپنے بندوں کو خوامخواہ عذاب دے۔اللہ فرماتا ہے:
﴿ما يَفعَلُ اللَّهُ بِعَذابِكُم إِن شَكَرتُم وَءامَنتُم ...﴿١٤٧﴾... سورة النساء
’’آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خوامخواہ سزادے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔‘‘
اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک متعینہ مدت تک عذاب دےکر انھیں جہنم سے نکالے گا۔اور جہنم کا وجودختم کردیاجائے گا۔
4۔اللہ تعالیٰ نےاپنے بارے میں ہمیں بتایا ہے کہ اس کی رحمت ہر چیز،حتی کہ اس کے غیظ وغضب پر بھی حاوی ہے۔اور یہ کہ اس کی رحمت جس طرح مومنین کےلیے ہے اسی طرح کے کفار ومشرکین کے لیے بھی ہے ۔اس نے اپنے لیے غفور،رحیم اور رحمان جیسےناموں کاانتخاب کیا ہے جن میں رحمت ومغفرت کی صفت پائی جاتی ہے۔لیکن اس نے اپنے لیے کسی ایسے نام کا انتخاب نہیں کیا ہے،جس میں عذاب دینے اورانتقام لینے والے کی صفت پائی جاتی ہے۔گویا عذاب دینا اور انتقام لینا اسکی دائمی صفت نہیں ہے بلکہ اس کاوقتی عمل ہے،جو ضرورت کی بنا پر ظاہر ہوتا ہے اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔
5۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تخلیق کسی عظیم غرض وغایت کے لیے کی ہے۔انھیں عذاب دینے کے لیے نہیں ۔بندوں کو عذاب دینابندوں کی تخلیق کا مقصد ہرگز نہیں ہے۔چنانچہ یہ بات اس غرض وغایت کے منافی ہے کہ بندوں کوہمیشہ کےلیے عذاب میں مبتلا رکھا جائے۔
6۔وہ دلائل جو جہنم کی ابدیت کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں ان پر جرح اورتنقید کرتے ہوئے علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل جہنم کی ابدیت کو ثابت نہیں کرتی۔مثلاً قرآن کی وہ تمام آیتیں جن میں جہنم کے لیے"خلود" کی خبر دی گئی ہے اورلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خلود کامفہوم ایسی ہمیشگی ہےجوکبھی ختم نہیں ہوگی۔حالانکہ لفظ خلودایسی ہمیشگی کے لیے نہیں استعمال ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔لفظ خلود کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فلاں چیز بہت زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رہے گی۔چنانچہ قرآن نے بعض گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والوں مثلاً قتل کرنے والے مسلمان کو جہنم میں خلود کی وعید سنائی ہے۔
﴿فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها...﴿٩٣﴾... سورة النساء
’’پس اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ مسلم شخص اپنے اس قتل کی سزا بھگت کرایک نہ ایک دن جہنم سے نکال لیاجائے گا۔اس کامطلب یہ ہے کہ لفظ خلود اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ اس کی سزا کبھی ختم ہی نہیں ہوگی۔رہی قرآن کی وہ آیتیں جن میں یہ خبر دی گئی ہے کہ کفارومشرکین جہنم سے کبھی نہیں نکالے جائیں گے۔مثلاً:
﴿ وَما هُم بِخـٰرِجينَ مِنَ النّارِ ﴿١٦٧﴾... سورة البقرة
’’اور وہ لوگ جہنم سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پائیں گے۔‘‘
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک جہنم کاوجود باقی رہے گا یہ کفار ومشرکین بھی اسی جہنم میں رہیں گے۔اس آیت سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جہنم ہمیشہ باقی رہنے والی چیزہے۔
اس ساری تفصیل کے بعد علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کو اللہ کی مشیت پر چھوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔نہ جہنم کے دائمی ہونے کےبارے کامل یقین کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے اور نہ اس کےفنا ہونے کے بارے میں۔اس معاملے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے اکابر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کا قول نقل کرنا زیادہ مناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ جیسا چاہے گا ویسا معاملہ کرے گا۔یہ کام اللہ کا ہے اور سب کچھ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔
﴿ إِنَّ رَبَّكَ فَعّالٌ لِما يُريدُ ﴿١٠٧﴾... سورة هود
’’بےشک تیرا رب جو چاہتا ہے کرتاہے۔‘‘
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب