سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(7) حضور ﷺ اور جادو

  • 23910
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 947

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک طالب علم ہوں اور میری تمنا ہے کہ میرے علم میں زیادہ سے زیادہ وسعت اور گہرائی آئے۔میں ان علمائے کرام کی بے حد عزت کرتاہوں جنھوں نے علم کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور امت مسلمہ کو بحرضلالت سے نکالنے اورراہِ ہدایت دکھانے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ان علمائے کرام میں ایک قابل قدر نام علامہ سید رشید رضا مرحوم کا ہے،جوساری زندگی بدعات وخرافات کے خلاف جنگ کرتے رہے۔لیکن چند دنوں قبل مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے صحیح بخاری کی ایک حدیث کو صحیح ماننے سے انکار کردیا ہے۔اس حدیث میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کردیاتھا۔

آپ کی کتابوں کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علامہ سید رشید رضا کے زبردست مداح ہیں۔انھوں نے جب ایک صحیح حدیث کاانکار کیا ہے تو کیا پھر بھی آپ کی نظروں میں ان کی وہی قدرومنزلت ہے؟کیا واقعی انھوں نے مذکورہ حدیث کاانکار کیا ہے؟کیا اس انکار کے باوجود وہ عالم دین کہلائیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قابل تحسین وتعریف ہیں وہ لوگ جو حصول علم کاشوق رکھتے ہیں اور علمائے کرام کی عزت واحترام کرتے ہیں۔علم ایک قیمتی شے ہے ،جس کا حصول اورجس میں اضافہ کی تمنا ہر عقل مند شخص کو کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو حکم دیا کہ وہ علم میں اضافہ کی دعا کرتے رہیں۔

﴿وَقُل رَبِّ زِدنى عِلمًا ﴿١١٤﴾... سورة طه

’’اے میرے رب!مجھے زیادہ علم عطا فرما‘‘

 لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ نہ خود علم حاصل کرنے کی فکرکرتے ہیں اورنہ ہی علمائے کرام کےلیے ان کے دلوں میں عزت واحترام کاجذبہ ہوتا ہے۔بلکہ بعض توایسے ہوتے ہیں جو موقع ملنے پر علماء کرام کو ذلیل ورسوا کرتے ہیں اور اس پر فخر اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔

بے شک میں علامہ سید رشیدرضا مرحوم کا زبردست مداح ہوں۔انھیں جلیل القدر عالم دین تسلیم کرتا ہوں جو ساری زندگی امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرتے رہے۔انھیں علم وعمل کی طرف بلاتے رہے اور بدعتیوں اور جہالتوں کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔لیکن وہ بھی ایک انسان تھے اورغلطیاں ہی سے ہوتی ہیں۔نہ انھوں نے کبھی اپنے بارے میں معصوم عن الخطا ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی ان کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔بلکہ وہ تو ساری زندگی اس بات کے خلاف جنگ کرتے رہے کہ معزز شخصیتوں کو مقدس مان کر انھیں معصوم عن الخطا تصور کیا جائے۔جہاں تک مجھے علم ہے علامہ مرحوم نے مذکورہ حدیث کاانکار نہیں کیا ہے۔تاہم اگر ہم فرض کرلیں کہ انھوں نے اس حدیث کا انکار کیا ہے تو کیا کیا اس انکار کی وجہ سے ان کے وہ عظیم الشان کارنامے کالعدم قراردیے جائیں گے جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین میں بے شمار ایسے بزرگ علمائے حدیث میں جنھوں نے ایک یا ایک سے زائد حدیث کاانکار کیا ہے کیونکہ یہ احادیث ان کےنزدیک کسی نہ کسی معقول سبب کی بنا پر معتبر نہیں ہیں لیکن اس انکار کے باوجود ان کی شان اور منزلت میں ذرہ برابرفرق نہیں آیا۔خودحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے بعض احادیث کا انکار کیا ہے کیونکہ یہ احادیث ان کی اپنی سمجھ کے مطابق قرآن سے ٹکرارہی ہیں۔پھر یہ سمجھنا بھی درست نہیں ہے کہ جس نے بخاری یامسلم کی ایک یا دو احادیث کاانکار کردیا گویا اس نے کل کی کل بخاری یا مسلم ہی کاانکار کردیا ہے۔

علامہ مرحوم نے جادو والی حدیث کاانکار نہیں کیا ہے بلکہ اپنی سمجھ کے مطابق اس کی توضیح وتشریح کی ہے۔حالانکہ سلف صالحین میں سے بعض علمائے حدیث نے اس حدیث کاانکار بھی کیا ہے۔مثلاً اما ابوبکر الرازی جو ایک زبردست حنفی عالم دین تھے انھوں نے اس حدیث کو ماننے سے انکار کیا ہے۔

علامہ مرحوم نے اس حدیث کی جو تشریح کی ہے اسے بیان کرنے سے قبل  مناسب ہوگا کہ میں اس حدیث کو پیش کردوں۔جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:

"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ بنو زریق قبیلہ کے ایک آدمی نے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جادو کردیا۔اس آدمی کا نام لبید بن الاعصم تھا۔اس جادو کیوجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایسامحسوس ہوتا تھا مکہ آپ نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیاہوتا۔ایک دن آپ میرے پاس موجود تھے پھر بھی بار بار آپ نے مجھے آواز دی۔آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کیاتمھیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ سے جس چیز کے بارے میں دریافت کیاتھا اللہ نے مجھے اس کے بارے میں باخبر کردیا۔میرے پاس دو شخص (فرشتے) آئے۔ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھا اور دوسرا میرے پیر کے پاس۔ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اسے کیا تکلیف ہے؟دوسرے نے جواب دیا کہ کسی نے جادو کردیا ہے۔پہلے نے پوچھا کہ کس نے جادو کیا ہے؟دوسرے نے جواب دیا کہ لبید بن الاعصم نے ۔پہلے نے پوچھا کہ کس چیز میں پڑھ پھونک کرجادو کیا ہے؟دوسرے نے جواب دیا کہ کنگھی اور اس کے بالوں میں اورکھجور کے خوشوں میں۔پہلے نے دریافت کیا کہ یہ چیزیں کہاں رکھی ہوئی ہیں؟دوسرے نے جواب دیا کہ ذروان نامی کنویں کے اندر۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کے ساتھ اس کنویں کے پاس تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ! اس کا پانی مہندی کے پانی کی طرح سرخ تھا اور کھجور کے خوشے شیطان کے سر کے بالوں کی طرح لگ رہے تھے۔میں نے دریافت کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اسے کنویں سے باہر نہیں نکالا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفایابی بخش دی تو مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں خوامخواہ اس واقعہ کی تشہیر کرکے لوگوں میں فتنہ کھڑا کروں۔"[1](بخاری)

اس حدیث کے الفاظ:

"يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ"

یعنی جادو کے اثر کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ گمان ہوتا تھا کہ آپ نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ کہ انھوں نے اس کام کو نہ کیا ہوتا۔حدیث کے ان الفاظ سے اکثر علمائے حدیث نے یہ مفہوم اخذ کیا ہے کہ جادوگرلبید بن الاعصم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی عقل پرجادو کردیا تھا۔اس جادو کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  یہ خیال فرماتے تھے کہ آپ نے فلاں کام کرلیا ہے جب کہ آپ نے اس کام کو نہ کیا ہوتا۔ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی فلاں بیوی سے مباشرت نہیں کی پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایسالگتا تھا کہ آپ نے مباشرت کرلی ہے۔گویا یہ جادو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی عقل اورسمجھ پر تھا۔

علامہ سید رشید رضا مرحوم علمائے حدیث کے اس تشریح اور مفہوم کو  صحیح تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ جادوگرنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی عقل پر جادو کردیا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت اوررسالت کی بہت ساری باتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔وہ یوں کہ ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے جادو کے اثر کی وجہ سے نبوت اور وحی کی کچھ باتیں اپنی اُمت کو نہ بتائی ہوں اور آپ سمجھ رہے ہوں کہ آپ نے یہ باتیں بتادی ہیں یا یہ کہ جادو کے اثر کی وجہ سے بعض باتوں اور احکام کو آپ نے اس انداز میں نہ بتایا ہو جس انداز میں بتانے کا حکم ملا ہو۔اس لیے اس حدیث سے یہ مفہوم اخذ کرنا کہ جادوگر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی عقلی اورذہنی حالت پر جادو کردیا تھا غلط ہے۔علامہ مرحوم فرماتے ہیں کہ حدیث کےیہ الفاظ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ گمان ہوتا تھا کہ انھوں نے فلاں کام کرلیاہے حالانکہ انھوں نے یہ کام نہیں کیاہوتا،یہاں کام سےمراد کوئی بھی کام نہیں بلکہ صرف ایک کام ہے اور وہ ہے آپ کا اپنی بیوی سے مباشرت کرنا جیسا کہ بعض روایتوں میں  اس کی صراحت ہے۔صرف یہی ایک عمل ہے جس کے سلسلے میں جادو گر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کردیا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  یہ سمجھتے تھے کہ آپ نے اپنی بیویوں سےمباشرت کرلی ہے حالانکہ آپ نے ایسا نہیں کیا ہوتا۔گویا جادو کا اثرصرف بیویوں سے مباشرت تک محدود تھا۔نبوت اور وحی کی باتوں پر جادو کااثر نہیں تھا۔

یہ ہے توضیح وتشریح جسے لوگوں نے اس بات پر محمول کرلیاکہ علامہ مرحوم نے اس حدیث کاانکار کردیا ہے۔حالانکہ انھوں نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا ہے۔بلکہ انھوں نے جمہور علمائے حدیث کی تشریح وتوضیح سے مختلف تشریح پیش کی ہے۔


[1]۔جادو کی حقیقت کیا ہے؟اس سلسلہ میں علمائے کرام کااختلاف ہے۔بعض علمائے کرام کہتے ہیں کہ جادو محض تخیلاتی اورتصوراتی چیز ہے۔ٹھوس حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔بعض اہل علم جادو کاانکار کرتے ہیں اور اسے نہیں مانتے ہیں۔لیکن علمائے کرام کی اکثریت جادو کو ایک ٹھوس حقیقت تسلیم کرتی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآن اور حدیث،جلد:2،صفحہ:44

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ