سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(6) صفائی ستھرائی اور احادیث ِرسولﷺ

  • 23909
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 34300

سوال

(6) صفائی ستھرائی اور احادیث ِرسولﷺ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

"انظافۃ من الایمان"(صفائی ایمان کا حصہ ہے) ۔کیا یہ کسی حدیث نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم )۔الفاظ ہیں جیساکہ مشہور ہے؟اگر یہ حدیث نہیں ہے تو صفائی ستھرائی کا اسلام میں کیا مقام ہے؟( پچھلے سوال کی طرح یہ سوال بھی ہمارے معاشرہ میں ایک زبردست غلط فہمی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔دین میں صفائی ستھرائی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اس کے باجود ہمارے معاشرہ میں اس کاکچھ خاص اہتمام نہیں کیا جاتا۔تنبیہ کے باوجود بعض لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے کہ ان کے کپڑے یا گھر وغیرہ گندے یا غیر منظم ہیں۔ان میں بعض توایسے ہیں جو صفائی ستھرائی کے بہت زیادہ اہتمام کو دنیا داری سمجھتے ہوئے اسے فضول عمل تصور کرتے ہیں۔حالانکہ کہ صفائی ستھرائی شخصیت کو مضبوط ومستحکم بنانے اور متعدد بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کے بے شمار دنیوی اور اخروی فوائد ہیں۔ہمیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔(مترجم)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعینہ ان ہی الفاظ میں کوئی حدیث منقول نہیں ہے۔البتہ اس مفہوم اور مدعا کو بیان کرنے والی ہے بے شمار صحیح احادیث ہیں۔مثلاً صحیح مسلم کی یہ حدیث:

"الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ "

’’صفائی آدھا ایمان ہے‘‘

الطھور یعنی طہارت معنوی گندگی یعنی کفر وشرک اورگناہوں سے پاکی کا نام بھی ہے اور مادی گندگی یعنی جسمانی اور ظاہری گندگی سے پاکی کانام بھی۔چنانچہ طہارت کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی۔اس میں کپڑے اور جسم کی صفائی بھی شامل ہے اور نماز سے قبل وضو کرنا بھی۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ " (مسلم)

’’اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اسلامی فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا باب پڑھایا جاتاہے۔کیونکہ طہارت نماز کی کنجی ہے۔اور نماز جنت کی کنجی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی متعدد مقامات پر تعریف کی ہے جوصفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔اس صفائی کی وجہ سے اللہ ان سے محبت بھی کرتا ہے۔اللہ فرماتا ہے :

﴿لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ ﴿١٠٨﴾... سورة التوبة

’’جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی ،وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں عبادت کرو۔اس میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے:

﴿ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

حدیث کی کتابوں میں بے شمار صحیح احادیث ہیں،جو مختلف پہلوؤں سےصفائی ستھرائی کا حکم دیتی ہیں۔ذیل میں ایسی چند احادیث پیش کرتاہوں:

"حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا يَغْسِلُ فِيهِ رَأْسَهُ وَجَسَدَهُ "(بخاری ومسلم)

’’ہرمسلمان پر اللہ کا حق ہے کہ سات دنوں میں ایک ایسا دن ہوکہ جس میں وہ اپنے سر اور بدن کو غسل دے۔‘‘

اور یہ نہانا اور غسل کرنا اس وقت فرض ہوجاتا ہے جب انسان کے جسم پر ظاہری یا معنوی گندگی(احتلام) ہو۔اسی طرح بعض احادیث میں جسم کے مختلف اعضاء کی صفائی ستھرائی کی تلقین ہے۔مثلاً دانتوں اور منہ کی صفائی کی تلقین بہت واضح انداز میں یوں کی گئی ہے:

"لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ"(بخاری،مسلم،ترمذی)

’’اگر میرا یہ حکم امت پر گراں نہ ہوتاتو میں انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے (دانتوں کی صفائی) کاحکم دیتا۔‘‘

اسی طرح بالوں کی صفائی کا حکم اس انداز میں ہے:

"مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْهُ" (ابوداؤد)

’’جس کسی کے بال ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ ان کی دیکھ بھال کرے۔‘‘

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے  گھر تشریف لائے اور ان کی نگاہ ایک ایسے شخص پر پڑی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ شَعْرَهُ"

’’کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی،جس سے یہ اپنے بال سنوار لے؟‘‘

ایک دوسرے شخص پر نگاہ پڑی جس کے کپڑے گندے تھے۔آپ نے فرمایا:

"أَمَا كَانَ هَذَا يَجِدُ مَاءً يَغْسِلُ بِهِ ثَوْبَهُ" (مسند احمد)

’’کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولے۔‘‘

ان احادیث کو پڑھ کر کوئی بھی شخص باخوبی سمجھ سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ انسان اس حالت میں رہے کہ اس کے بال بے ترتیب اور بکھرے ہوئے ہوں اور اس کے کپڑے گندے ہوں۔

بعض صحیح احادیث میں اس بات کا بیان ہے کہ اسلام ظاہری زیب وزینت اورفطری حسن وزبیائش کی بھی ترغیب دیتا ہے۔مثلاً یہ حدیث کہ:

"إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ"

یعنی اللہ صاحب جمال ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کے جواب میں فرمائی تھی،جس نے یہ سوال کیا تھا کہ میں اچھے اور عمدہ کپڑے زیب تن کرنا پسند کرتا ہوں۔گھمنڈ اور ریاکاری کی وجہ سے نہیں بلکہ زیب وزینت کے لیے کیا یہ جائز ہے؟اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بات فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ بھی زیب وزینت کو پسند کرتا ہے۔

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ناخن ترشوانے،زیر ناف اور غیر ضروری بالوں کو صاف کرنے اور  گھروں کو ساف ستھرا رکھنے کاحکم دیا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:

"إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ، كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ، فَنَظِّفُوا أُرَاهُ قَالَ أَفْنِيَتَكُمْ وَلا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ "  (ترمذی)

’’بلاشبہ اللہ کی ذات پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے۔صاف ستھرا ہے اور صفائی کو پسند کرتا ہے۔پس اپنے گھروں کو صاف رکھا کرو اور یہودیوں سے مشابہت نہ اختیار کرو(غالباً اس زمانے میں یہودی اپنے گھروں کو گندارکھتے ہوں گے)‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے گھر سے باہر سڑکوں کی صفائی کا بھی حکم دیا ہے۔اور اس بات سے سختی سے منع کیا ہے کہ لوگ  راستوں اور دیواروں کے سایہ میں پیشاب یا پاخانہ کریں۔حدیث نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے:

"اِتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ ، قَالُوا : وَمَا اللَّعَّانَانِ يَا رَسُول اللَّه ؟ قَالَ : الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيق النَّاس أَوْ فِي ظِلّهمْ " (مسلم)

’’دونوں قابل لعنت چیزوں سے بچو،پیشاب پاخانےسے اور اس شخص سے جو لوگوں کے راستے یا سایے میں پیشاب  پاخانہ کرتا ہو۔‘‘

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھانے پینے کی چیزوں میں صفائی ستھرائی کی تلقین کی ہے،فرمایا:

"أَغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ ، وَأَوْكُوا أَسْقِيَتَكُمْ ، وَخَمِّرُوا آنِيَتَكُمْ ، وَأَطْفِئُوا سُرُجَكُمْ" (مسلم)

’’اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیاکرو(یعنی سوتے وقت تاکہ جانور وغیرہ نہ گھس جایا کریں) اور اپنے برتنوں کو ڈھک دیا کرو اوربتی گل کردیا کرو اورپانی کے برتنوں کو ڈھک دیا کرو۔‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآن اور حدیث،جلد:2،صفحہ:40

محدث فتویٰ

تبصرے