سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(4) حدیث" لَاتَقُومُ السَّاعَةُ "کی تشریح

  • 23907
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1497

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے:

"لَاتَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي ، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ "

’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تمہاری یہودیوں سے جنگ نہ ہوگی۔اس جنگ میں یہودی کسی پتھر یاپیڑ کے پیچھے چھپ جائے گا تو پتھر اور پیڑ بی بول پڑیں گے کہ اے مسلم،اےاللہ کے بندے ادھر ایک یہودی ہے۔آؤ اور اسے قتل کردو۔‘‘

میرا سوال یہ ہے کہ اس حدیث کی رو سے کیا یہودیوں کے ساتھ ہماری جنگ قیامت تک جاری گی؟کیا واقعی پیڑ اور پتھر حقیقت میں بولیں گے؟کیا یہ سب کچھ مسلمانوں کی عزت افزائی کے لیے ہوگا؟کیا آج کے مسلمان اس عزت افزائی کے اہل ہیں؟یااس کی حقدار ہماری آئندہ نسلیں ہوں گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ حدیث کی روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کی ہے اور یہ متفقہ طور پر صحیح حدیث ہے۔بخاری ومسلم شریف کی عبارت یوں ہے:

"لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا الْيَهُودَ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ وَرَاءَهُ الْيَهُودِيُّ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ"

’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تمہاری یہودیوں سے جنگ نہ ہوگی۔  حتیٰ کہ اس جنگ  میں جس پتھر کے پیچھے یہودی چھپا ہوگا وہ بھی بول پڑے گا کہ اسے مسلم میرے پیچھے یہودی ہے اسے قتل کرو۔‘‘

اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیشن گوئی کی ہے۔اس پیشین گوئی کو کئی صدیاں گزر چکی ہیں اور آج کا مسلمان اس حدیث کو پڑھ کر عجیب صورت حال سے دوچار ہوجاتا ہےجب وہ یہ سوچتا ہے کہ یہودیوں کی طاقتور پوزیشن اورمسلمانوں کی ابتر صورتِ حال کے پیش نظر یہ پیشین  گوئی کیونکر شرمندہ تعبیر ہوسکتی ہے۔تاریخ پر نظر ڈالیے تو پتاچلتا ہے کہ جب ساری دنیا نےیہودیوں کو ٹھکرادیا اور انھیں اپنے ظلم کا نشانہ بنایا اور کسی نے بھی انہیں پناہ نہیں دی تو اسلام اور اہل اسلام کے آغوش میں انہیں پناہ ملی۔مسلمان انھیں اپنے ملکوں میں لائے،انھیں بسایا اورمکمل مذہبی آزادی عطا کی۔کیونکہ مسلمانوں کی نظر میں یہ اہل کتاب ہیں۔

ماضی کا مسلمان حیران تھا کہ اس قوم سے ہماری جنگ کیسے ہوسکتی ہے ،جسے ہم نے پناہ دی ہے ۔ آخر کہاں سے اسے قوت وطاقت نصیب ہوگی کہ ہمارے مقابلے میں آکر وہ جنگ کرسکے۔لیکن اس کے باوجود جنگ کا آغاز ہوگیا۔یہ جنگ اس دن سے شروع ہوگئی جب یہودیوں نے فلسطین اور مسجد اقصیٰ پر غاصبانہ تسلط قائم کرلیا۔فلسطینیوں کو ان کے  گھروں سے نکال باہرکیا اور فلسطین کی سرزمین پر یہودی حکومت ومملکت کی بنیاد ڈالی دی۔

لیکن وہ جنگ جس کی پیشین گوئی اس حدیث میں ہے اور جس میں مسلمانوں کو یہودیوں پر فتح حاصل ہوگی ہمیں پورا یقین ہے کہ لامحالہ وہ جنگ شروع ہوگی۔لیکن کب شروع ہوگی اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی خبر کے مطابق کبھی نہ کبھی یہ جنگ شروع ہوگی۔یہ جنگ نہ قومیت اوروطنیت کی بنیاد پر ہوگی اور نہ زمین اور حدود کے لیے ہوگی۔بلکہ یہ جنگ مسلمانوں اور یہودیوں کےدرمیان ایک مذہبی جنگ ہوگی۔یہ جنگ یہودیوں،فلسطینیوں یا مصریوں کے درمیان نہیں ہوگی بلکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہوگی۔

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ یہودی قوم چاہے دنیا کے کسی کونے میں ہو متحد ہوکراور اپنی تمام ترقوت وطاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔اس راہ میں وہ اپنامال بھی خرچ کررہی ہے،حالانکہ وہ دنیاکی بخیل ترین قوم ہے۔وہ اپنی جانیں بھی قربان کررہی ہے،جب کہ انھیں اپنی جان بہت عزیز ہے۔وہ انتہائی سنجیدگی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔اس نے اپنی جنگ کی بنیاد اپنی مذہبی کتاب توریت وتلمود پررکھی ہے۔اور اس کی تمام تر جدوجہد اپنے مذہب کی سربلندی کےلیے ہے۔اس کے برعکس ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ یہودیوں کے ساتھ اس معرکہ آرائی میں اسلام کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ہمارے اربابِ اقتدار اس جنگ کو قومیت اور زمین کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں،جس میں دین ومذہب کاکوئی عمل دخل نہ ہو۔یہودی تو اس جنگ کو یہودیت کی بنیاد پر لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں اسلام کا نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔وہ یہودیت کی بنیاد پر ساری دنیا سے ہجرت کرکے اسرائیل میں اکٹھا ہورہے ہیں اور ہم ایک جگہ اکٹھا ہونے کے باجود اسلام کے نام پر متحد نہیں ہورہے ہیں وہ اس جنگ کو موسیٰ کے نام پر لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام لیتے ہوئے بھی شرماتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی  تردد نہیں کہ اس جنگ میں یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے رویے اور طرز جنگ کو بدلنا ہوگا۔ہمیں بھی اس انداز میں مذہب کی بنیاد پر جنگ لڑنی ہوگی جس طرح وہ ہمارے ساتھ جنگ لڑرہے ہیں۔

یہ حدیث جو ہمیں یہودیوں پر فتح کی بشارت سناتی ہے،یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ کون خوش نصیب مسلمان ہوں گے جنھیں یہ فتح حاصل ہوگی۔ان کے اوصاف کیا ہوں گے اور وہ کس طرز کی جنگ لڑیں گے۔یہ اوصاف حدیث کے الفاظ میں یوں ہیں"عبداللہ" یعنی اللہ کا بندہ اور "مسلم"وہ اللہ کے بندے ہوں گے ،مال ودولت اور جاہ وکرسی کے نہیں۔وہ مسلم ہوں گے یعنی اس جنگ کو اسلام کی بنیاد پر لڑیں گے۔عربیت اور وطنیت کی بنیاد پر نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ پیڑ اور پتھرکابولنا کیا واقعی حقیقی انداز میں ہوگا یا محض زبان حال سے؟اس کاجواب یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں کے امکانات ہیں۔اللہ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے بے جان پیڑ  پتھر بول پڑیں۔ہم نے رواں صدی میں انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی سینکڑوں اسی محیر العقول چیزیں دیکھی ہیں جن کا ماضی میں تصور بھی محال تھا۔اللہ کی قوت وطاقت سے پیڑپتھروں کا بولنا بہت معمولی سی بات ہے اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ پیڑ اور پتھر زبان حال سے بولیں گے۔بلکہ زبان حال،زبان قال کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلیغ اور پُرتاثیر ہوتی ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ یہودیوں کے ساتھ ہماری جنگ کیا قیامت تک جاری رہے گی؟اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کا ہرگز یہ مفہوم نہیں ہے کہ یہودیوں سے اس قسم کی جنگ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ کہ یہ جنگ قیامت تک جاری رہے گی۔بلکہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے برپاہونے سے پہلے یقیناً ایک ایسی جنگ ہوگی،جس میں مسلمانوں کو یہودیوں پر  حتمی غلبہ نصیب ہوگا۔

حدیث کی کتاب"الجامع  الصغیر" میں پچیس ایسی حدیثیں ہیں جن میں"لَاتَقُومُ السَّاعَةُ....." کا صیغہ موجود ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک فلاں فلاں چیزیں وقوع پذیر نہ ہوجائیں گی۔ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جو واقع ہوچکی ہیں۔مثلاً کسی حدیث میں قیامت سے قبل ترکوں سے جنگ کی  پیشین گوئی ہے اور مسلمانوں کی ترکوں سے جنگ واقع ہوچکی ہے۔کسی حدیث میں یہ تذکرہ ہے کہ قیامت سے قبل لوگ مسجدوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے تاکہ دوسروں کوزیر کیا جاسکے۔مسجدوں کی تعمیر میں یہ دوڑ عرصہ ہوا  شروع ہوچکی ہے۔ان میں بعض ایسے امور ہیں جو ابھی واقع نہیں ہوئے ہیں لیکن قیامت سے قبل ان کا واقع ہونا ناگزیر ہے۔مثلاً سورج کامغرب سے طلوع ہوناوغیرہ۔

یہودیوں سے جنگ والی حدیث پڑھ کر سوال کرنے والے نے غالباً یہ مفہوم اخذ کرلیا کہ یہودیوں سے ہماری فیصلہ کن جنگ قیامت سےقریبی زمانہ میں ہوگی حالانکہ حدیث میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ یہ جنگ کس زمانے میں ہوگی۔بہت ممکن ہے کہ وہ زمانہ اب بہت دور نہ ہو کیونکہ ایک طرف یہودیوں نے جس طرح فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرکے مسلمانوں پر ظلم وستم کا بازار گرم کررکھا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں میں اسلامی بیداری کی لہر ہر چہار جانب سے امڈ رہی ہے اور مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہورہے ہیں اور جہاد میں ان کا یقین بڑھتا جارہا ہے۔یہ سارے آثار اشارہ کررہے ہیں کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ہونےو الی ہے۔اور اس جنگ میں ان شاء اللہ فتح ہم مسلمانوں کی ہوگی:

"أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ"

’’سن لو بلاشبہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآن اور حدیث،جلد:2،صفحہ:32

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ