سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) حدیث " بَدَأَ الإِسْلامُ "کا مطلب

  • 23906
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5459

سوال

(3) حدیث " بَدَأَ الإِسْلامُ "کا مطلب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مشہور حدیث ہے:

"بَدَأَ الإِسْلامُ غَرِيبًا ، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"

’’اسلام شروع میں اجنبی تھا اور دوبارہ اجنبی بن جائے گا جیسا کہ پہلے تھا پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لیے۔‘‘

یہ حدیث اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیا لفظ ’’غرابت سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم ہے انوکھا پن یا لفظ ’’غربت‘‘سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم ہے اجنبیت اگر لفظ ’’غریب‘‘ غربت ماخوذ ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام کمزور ہو جائے گا اور اس کا ستارہ غروب ہو جائے گا؟ کیا قرآن و حدیث میں اس بات کے دلائل ہیں کہ اسلام ایک بار پھر طاقتور اور فاتح بن کرابھرے گا جیسا کہ قرون اولیٰ میں تھا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث متفقہ طور پر صحیح اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے مروی ہے اس کا ذکر مسلم شریف و سنن ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ اور طبرانی میں بھی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ احادیث جن میں قیامت کی نشانیوں کا ذکر ہوتا ہے یا جن میں آخری زمانے کی علامتیں بیان ہوتی ہیں اکثر پڑھنے والے انہیں پڑھ کر مایوسی کے غارمیں چلےجاتے ہیں سوچتے ہیں کہ اب تو بڑا خراب زمانہ آگیا ہے اور اس پر آشوب زمانے میں معاشرے کی اصلاح کا کوئی امکان نہیں ہے۔حالانکہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کو مایوسی اور بے علمی کی تعلیم دی ہو یا ہمیں یہ سکھایا ہو کہ دنیا میں فساد اور برائیوں کے عام ہو جانے کے باوجود ہم اصلاح معاشرہ کی طرف سے مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں۔ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ہم آخری لمحوں تک بلکہ آخری سانس تک عمل کوشش اور جدو جہد کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ایک مشہور حدیث کا مفہوم ہے اگر قیامت شروع ہو جائے اور ہم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہے جسے وہ لگانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ مرنے سے قبل اسے لگادے۔قابل غور بات ہے کہ دنیوی معاملات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے آخری لمحے تک عمل کا حکم دیا ہے تو دینی معاملات میں مایوسی اور بے عملی کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟

اب آئیے لفظ ’’غریب ‘‘کے مفہوم کا تعین کریں یہ لفظ غربت سے ماخوذ ہے نہ کہ غرابت سے اور اس بات کی دلیل خود اس حدیث کا آخری جملہ ہے۔"فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ" لفظ "غُرَبَاءِ" اس غریب کی جمع ہے جو غربت سے ماخوذ ہے۔

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام اجنبی بن کر آیا تھا اور پھر اجنبی بن جائے گا۔ پس خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اجنبی ہو ں گے وہ اجنبی اپنی شخصیت کی وجہ سے نہیں ہوں گےبلکہ اس اسلام کی وجہ سے ہو جائیں گے جو کہ خود اجنبی بن چکا ہو گا۔

یہ امر واقعہ ہے کہ دور حاضر میں اور اس سے قبل بھی اسلام اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ لوگ اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں لوگ صحیح اسلام کو نہیں جانتے اور جو تھوڑے بہت لوگ صحیح اسلام کو جانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں وہ لوگ معاشرے میں نکواور اجنبی بن کر زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ بسااوقات انھیں معاشرے اور اصحاب اقتدار کی طرف سے ظلم و اذیت کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ دراصل مذکورہ حدیث میں بشارت انھیں مومنین صالحین کے لیے ہے جو ایسے دور میں بھی حق پر جمے رہتے ہیں جب کہ باطل کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اسلام معاشرے میں بے نام اجنبی اور باعث ذلت بن جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اجنبیت دائمی اور عالمی ہو گی ؟ یا وقتی اور علاقائی؟ میری اپنی رائے یہ ہے کہ یہ اجنبیت دائمی نہیں ہو گی۔ایسا ہر گز نہیں ہو گا کہ اسلام پر جب اجنبیت کا دور آئے گا تو قیامت تک کے لیے برقرار رہے گی۔ قیامت تک اسلام اور مسلمان کمزور اور بے وقعت رہیں گے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس دور کے شروع ہو جانے کے بعد اسلام دنیا کے ہر گوشے میں اجنبی اور بے وقعت ہو کر رہ جائے گا بلکہ بعض علاقے اور ممالک ایسے بھی ہوں گے جہاں اسلام اور اہل اسلام باعزت اور طاقتور ہوں گے۔

میرا خیال ہے کہ اسلام اور اہل اسلام پر اجنبیت اور بے وقعتی کا دور آتا جا تا رہے گا ۔ جیسا کہ تمام مذاہب اور ملتوں کے ساتھ ہو تا آیا ہے۔ یہی اللہ کی سنت اور طریقہ کار ہے۔ اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور نہ قوموں اور ملتوں کو دو پیمانوں سے ہی ناپتی ہے اللہ کی سنت سب کے لیے ایک جیسی ہے۔ اللہ کی سنت ہے کہ ہر مذہب و ملت پر عروج و زوال آتا جاتا رہے گا ۔ اور یہی معاملہ اسلام کے ساتھ بھی ہو گا۔

اس حدیث میں محض یہ پیش گوئی ہے کہ اسلام پر کبھی ایسا دور بھی آئے گا جب اسلام بے وقعت کمزور اور گم نام ہو کر رہ جائے گا۔ اس میں اس بات کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے کہ تاقیامت اسلام اسی طرح بے وقعت اور کمزور رہے گا اور نہ اس حدیث میں اس بات کی ہی تعلیم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی وجہ سے مقدر سمجھ کر ہم مایوس ہو کر بیٹھ رہیں۔ بلکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں کامیاب اور جنتی وہ لوگ ہوں گے جو اسلام کی بعض قوت و عظمت کی بہ حالی اور اس کے اقتدار کو واپس لانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں گے۔ بعض روایتوں میں "غرباء" کی تشریح فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اصلاح  معاشرہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے اور برائیوں کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جائیں گے۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ"غرباء"کی یہ قلیل سی تعداد مایوس ہو کر گھر بیٹھ جانے والوں میں سے نہیں ہو گی بلکہ یہ لوگ قوم و ملت کے معمار ہوں گے اور اسلام کی عظمت و رفعت واپس لانے کے لیے حددرجہ جدو جہد کرنے والے ہوں گے ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا کہ یہ "غرباء"کون ہیں جن کے لیے بشارت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الَّذِينَ يُصْلِحُونَ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ"

’’یہ وہ لوگ ہوں گے کہ جب لوگ بگڑ چکے ہوں گے تو ان میں اصلاح کاکام کریں گے۔‘‘

ایک دوسری روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"نَاسٌ صَالِحُونَ فِي نَاسِ سَوْءٍ كَثِيرٍ "

’’بہت سارے لوگوں کے درمیان یہ تھوڑے سے نیک اور صالح لوگ ہوں گے۔‘‘

اس توضیح سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ حدیث مایوسی اور بے علمی کی دعوت نہیں دیتی نہ اس میں اس بات کی ہی پیشین گوئی ہے کہ اسلام کا ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے گا۔

بلکہ محض اس بات کا بیان ہے کہ اسلام پر ایسا دور بھی آئے گا جب اسلام اور اہل اسلام اجنبی اور کمزور بن کر رہ جائیں گے لیکن بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جو اجنبیت اور بے وقعتی کے اس دور میں اصلاح معاشرہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا قرآن و سنت میں اس بات کے دلائل ہیں کہ اسلام کو ایک بار پھر قوت و غلبہ نصیب ہو گا؟ تو آپ جان لیں کہ قرآن و سنت میں اس کے بہت سے دلائل ہیں۔

ارشاد الٰہی ہے:

﴿هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ ﴿٣٣﴾... سورة التوبة

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ یہ کتنا ہی ناگوارہو۔‘‘

اسی مفہوم کی دوسری آیتیں سورہ فتح اور سورہ صف میں بھی ہیں۔ احادیث میں اسلام کے دوبارہ غالب آنے کی بہت سی بشارتیں ہیں۔ میں صرف چند کے بیان پر اکتفا کروں گا۔

"إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الارْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا"

’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو لپیٹا تو میں نے اس کے مشرق و مغرب کو دیکھا ۔ میری امت کی بادشاہت زمین کے ان تمام حصوں پر ہوئی جو مجھے لپیٹ کر دکھائے گئے۔‘‘

اس حدیث میں اس بات کی بشارت ہے کہ امت مسلمہ کی بادشاہت اس رائے زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل جائے گی۔ابھی یہ پیشن گوئی مکمل طور سے پوری نہیں ہو ئی ہے اور ہم سب اس دور کے انتظار میں ہیں جب یہ پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہوگی۔اور اسلام طاقتور بن کر پوری دنیا میں حکمرانی کرے گا۔ ابن حبان کی صحیح حدیث ہے:

"ليَبْلُغن هذا الأمر ما بلغ اللَّيل والنَّهار، ولا يترك الله بيت مَدَرٍ ولا وَبَرٍ إلَّا أدخله اللهُ هذا الدِّين، بِعِزِّ عَزِيزٍ أو بِذُلِّ ذَليلٍ، عِزًّا يُعِزُّ الله به الإسلام، وذُلًّا يُذِلُّ الله به الكفر" (ابن حبان)

’’یہ معاملہ یعنی اسلام دنیا کے اس کونے تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک رات اور دن پہنچتا ہے۔اور اللہ کسی بھی گھر کو نہ چھوڑے گا مگر یہ کہ اس میں اس دین کو داخل کرے گا۔طاقتور کی طاقت کے ذریعہ اور کمزوری کی وجہ سے، ایسی طاقت جس کے ذریعے اللہ اسلام کومضبوط بنائے گا اور ایسی ذلت و کمزوری جس کے ذریعے اللہ کفر کو ذلیل و کمزور کرے گا۔‘‘

اگر پہلی حدیث میں اسلامی حکومت کے مشرق و مغرب میں پھیلنے کی بشارت ہے تو دوسری حدیث میں دین اسلام کے پھیلنے کی بشارت ہے۔

ایک اور حدیث ہے جس میں یورپ تک اسلامی حکومت کے پہنچنے کی خوش خبری ہے:

"عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال بينما نحن حول رسول الله صلى الله عليه وسلم نكتب ، إذ سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم : أى المدينتين تفتح أولا القسطنطينية أو رومية ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا "

’’عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارد گرد بیٹھے کچھ لکھ رہےتھے کہ کسی نے پوچھا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قسطنطنیہ اور روم میں سے کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا کہ ہرقل کا شہر یعنی قسطنطنیہ پہلے فتح ہو گا۔‘‘

  قسطنطنیہ یا استنبول تو پہلے ہی(1453میں) ترکی خلیفہ محمد بن الفاتح کےہاتھوں فتح ہو چکا ہے اب اٹلی کی راجدھانی روم کی باری ہے اور ہمیں یقین ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بشارت کے مطابق کبھی نہ کبھی یہ شہر بھی اسلامی حکومت کے دائرہ اختیار میں آئے گا اور یہ وہ وقت ہو گا جب سلام طاقتور بن کر دوبارہ یورپ میں داخل ہو گا۔

الحمد للہ اسلام کے غلبہ کی علامتیں اب ظاہرہونے لگی ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر ہر طرف سے اٹھ رہی ہے۔ غیر مسلموں میں بھی اسلام سے واقفیت کا جذبہ ابھر رہا ہے اور مسلمان بھی رفتہ رفتہ بدعات و خرافات کے چکروں سے نکل کر صحیح اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں وہ جابر و فاسق نظام حکومت نیست و نابود ہو رہے ہیں جنھوں نے اسلام پر پابندی لگا رکھی تھی اور مسلمانوں کو بزور طاقت اسلام سے دور کر رکھا تھا۔ مثال کے طور پر کمیونزم کا جنازہ نکل چکا ہے اور بہت سارے ایسے مسلم ممالک آزاد ہو چکے ہیں جہاں پر پہلے کمیونزم نے اسلام پر پابندی لگا رکھی تھی بلکہ ہر اسلامی شناخت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا جو حال کمیونزم کا ہوا ہے ان شاء اللہ وہی حال ان تمام نظام ہائے حکومت کا بھی ہو گا جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ بشرطے کہ امت مسلمہ میں جب ایسے "غرباء" اٹھ کھڑے ہوں جنھیں مذکورہ حدیث میں بشارت دی گئی ہے۔امت مسلمہ میں جب ایسےغرباء پیدا ہوں گئے تو یقیناً اسلام کو فتح و نصرت اور غلبہ حاصل ہو گا اور وہ ہوگا جو اللہ نے فرمایا ہے:

﴿ وَيَومَئِذٍ يَفرَحُ المُؤمِنونَ ﴿٤ بِنَصرِ اللَّهِ ...﴿٥﴾... سورةالروم

’’اس دن مسلمان اللہ کی نصرت و مدد سے خوش ہو جائیں گے۔‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآن اور حدیث،جلد:2،صفحہ:25

محدث فتویٰ

تبصرے