سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(151) تصوف اور صوفیوں کی حقیقت

  • 23903
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2569

سوال

(151) تصوف اور صوفیوں کی حقیقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تصوف کی حقیقت کیا ہے؟ اسلام کا تصوف کے متعلق کیا موقف ہے! لوگ کہتے ہیں کہ صوفیوں میں بعض نے اپنے علم وعمل سے اسلام کی خدمت  کی ہے اور بعض نے بدعات و گمراہیوں کے ذریعہ سے اسلام کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان دونوں قسم کے صوفیوں میں کیا فرق ہے۔؟ بعض دوست تصوف اور صوفیوں کے سخت مخالف ہیں جبکہ بعض ان کے زیر دست مداح ہیں۔ امید ہے کہ آپ تصوف اور صوفیوں کی حقیقت پر تشفی بخش روشنی ڈالیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تصوف ایک ایسا نظر یہ زندگی ہے جس کا وجود تقریباً سارے مذاہب میں ہے ہندوستان میں ہندوؤں میں جو گی پائے جاتے ہیں جو روحانیت کی تربیت کا بہت زیادہ احتمام کرتے ہیں اور اسی تربیت کی خاطر اپنے جسموں کو مختلف طریقے سے عذاب و اذیت دیتے ہیں عیسائیوں میں بھی رہبانیت نے جنم لیا جس کا تذکرہ سورہ حدید کے آخر میں ہے

اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت کی ہے اس طرح یونانی و فارس میں بھی اس قسم کے رجحانات پائے جاتے تھے۔

تصوف درحقیقت روحانیت کے احتمام کا نام ہے۔ اس تصوف کی بنیاد یہ ہے کہ روحانیت کے ذریہ سے انسان کی تربیت ہوتی ہے اس میں مادی اور جسمانی ضرورتوں کا زیادہ احتمام نہیں کیا جاتا ۔ روحانیت کے اس احتمام میں کبھی اتنا غلو ہو جاتا ہے کہ صاحب تصوف اپنی جسمانی اور مادی ضرورتوں کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔

جب اسلام آیا تو اس نے لوگوں کو روحانی زندگی اور مادی زندگی کے درمیان توازن (Balance)کی تعلیم دی اسلام کی نظر میں انسان روح جسم اور عقل کا مجموعہ  ہے اور یہ ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک پہلو پر کماحقہ توجہ دی   جائے۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب دیکھا کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کسی ایک پہلو سے غفلت برت رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی سرزنش کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبر ملی کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوتے نہیں ہیں ہر دن روزہ رکھتے ہیں اور بیویوں کے پاس جانا چھوڑ دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی سرزنش کی اور فرمایا:"اےعبد اللہ ! تم پر تمھاری آنکھوں کا حق ہے۔ تمھارے گھروالوں کا حق ہے۔ تمھاری بیویوں کا حق ہے تم پر تمھارے بدن کا حق ہے تمھیں چاہیے کہ ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو‘‘

بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عبادت کے بارے میں دریافت کیا اور اس کے بعد ان میں سے ایک نے عہد کیا کہ وہ تازیست روزہ رکھیں گے۔ دوسرے نے عہد کیا کہ وہ تمام نمازیں پڑیں گے اور سوئیں گے نہیں تیسرے نے عہد کیا کہ وہ کبھی شادی نہیں کریں گے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو جمع کرکے خطبہ دیا اور فرمایا:

"أما إني أعلمكم بالله وأخشاكم له، ولكني أقوم وأنام، وأصوم وأفطر، وأتزوج النساء . فمن رغب عن سنتي فليس مني "

’’میں تم سے زیادہ اللہ کو جانتا ہوں اس سے ڈرتا ہوں۔ پھر بھی نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا  بھی ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ اور عورتوں سے شادی کرتا ہوں جو بھی میری سنت سے رو گردانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں میں توازن اور اعتدال کا حکم دیتا ہے۔اس توازن اور عتدال کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے بھی قائم رکھا اور آپ کے بعد سلف صلحین نے بھی یہی روش اختیار کی۔ اس کے بعدوہ دور آیا جب اللہ نے مسلمانوں کو خوشحالی سے نوازا ان میں دولت عام ہوئی۔ مال و دولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کا بازار بھی گرم ہوا اور لوگوں کا رجحان علم و عقل کی باتوں کی طرف مائل ہوا۔ ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندر مختلف فرقے وجود میں آئے ۔ ایک وہ فرقہ تھا جس نے مال و دولت کو خاص اہمیت دی اور زندگی کے مادی پہلوؤں میں گم ہو گیا۔ دوسرا فرقہ علم و عقل کے کارناموں میں اتنا محوہوا کہ ان کی عقلوں نے بعض ایسے علوم کی اختراع کی جو اصل اسلامی تعلیمات سے دور تھے مثلاً علم کلام وغیرہ اسی طرح فقہاءکرام فقہ شریعت کی بحثوں میں ایسا الجھے کے انھوں نے دین کے روحانی اور باطنی پہلو کو فراموش کر کے ساری محنت ظاہری اور جسمانی پہلوؤں کی نذر کر دی۔

اس معاشرہ میں ایسا کوئی نہیں تھا جو روحانی اور باطنی پہلوؤں کی طرف توجہ کرتا اور روحانیت کی تعلیم دیتا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے علماء کرام کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جنھوں نے دین کے روحانی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی اور روحانیت کا طریقہ اپنایا۔ اسی طریقے پر چل کر خود اصلاح کی اور لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دی۔ یہ طبقہ صوفیائے کرام کا طبقہ تھا ان کی تعلیم یہ تھی کہ زہد کے زریعہ سے مادیت سے دامن بچا کر اور اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو اللہ کی ناراضی اور جہنم کی آگ سے بچایا جائے۔ ان کی تعلیم یہ تھی کہ سب سے پہلے انسان اپنے باطن کی اصلاح کرےاپنے اندر سے نفسیاتی بیماریوں اور آلائشوں کو دور کرے اور دل کی دنیا کوروحانیت سے آباد کرے۔ چنانچہ اس طبقہ کی ساری دوڑ بھاگ روحانیت کی تربیت کے لیے تھی ان میں سے بعض نے اللہ کے خوف کو متحضر کرنے کے لیے اسے جسمانی شباہت بخشی حسن بصری جو کہ ایک معروف تابعی ہیں۔ بعض نے اپنے تمام اعمال کی بنیاد اللہ کی محبت کو قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ ہم اللہ کے دیوانے ہیں ہم نیک اعمال جنت پانے یا جہنم سے بچنے کے لیے نہیں کررہے ہیں بلکہ اللہ کی محبت میں کر رہے ہیں مثلاً رابعہ العدویۃ اور ذی النون المصری ۔

شروع دور کے صوفیائے کرام نیک و صالح اور قرآن و سنت کی اتباع کر نے والے تھے چنانچہ جنید بغدادی جو کہ زبردست صوفی تھے کہا کرتے تھے کہ انسان کے لیے ہر راستہ بند ہے سوائے اس کے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کی۔ ابو یزید کہا کرتے تھے کہ اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ اپنی کرامات کی وجہ سے ہوامیں اڑرہا ہے تو تم اس سے اس وقت تک متاثر نہ ہونا جب تک تم یہ یقین نہ کر لو کہ وہ شریعت اسلامیہ کا کس قدر محافظ ہے اور اس پر عمل پیرا ہے۔

ایسے تھے شروع دور کے صوفیا ئےکرام لیکن ان کے بعد ان صوفیہ کا وجود ہوا جنھوں نے روحانیت اور روحانی تربیت میں غلو کا راستہ اختیار کیا۔ ان میں روحانیت کے حوالہ سے اور اس کے نام پر مختلف قسم کی خرافات اور بدعات درآئیں ۔ ان میں سب سے بڑا خرافاتی فلسفہ تھا وحدۃ الوجود کا جس کا موجدمحی الدین ابن عربی تھا اس فلسفہ میں اس نے یہ عقیدہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی ساری چیزوں میں جلوہ فگن ہے۔ ہر چیز میں اللہ موجود ہے یہاں تک کہ اسے بتوں اور پتھروں میں بھی خدا نظر آتا تھا۔

ان میں بعض نے اپنے ذوق و جدانی کیفیت اور اپنی تخیلات کو شاعر کا درجہ دیا یعنی ان کی جدانی کیفیت اور ان کے تخیلات نے جو بات کہہ دی وہ گویا شریعت بن گئی جس پر عمل ضروری ہے۔ وہ کہتے کہ میرے دل نے میرے رب سے بات کی اور میرے رب نے میرے دل کو فلاں بات بتائی۔

ان میں ایسے پیر ظاہر ہوئے جنھوں نے اپنے مریدوں کو اتنا کمتربنادیا گویا ان کی کو ئی حیثیت نہیں ہے پیر نے جو کہا مرید کو اس پر لازماً عمل کرنا ہے اسے یہ حق حاصل نہیں کہ پیر سے کیوں اور کیا کے سوالات کرے۔

ان غلط نظریات نے مسلمانوں میں ایک ایسے طبقہ کو جنم دیا جو عملی طور سے بالکل ہی مفلوج طبقہ تھا۔ زہد اور فقیری میں اس طبقہ نے اتنا غلو کیا کہ دنیا کو ترک کر دیا ۔ صوفیوں کا یہ طبقہ ہے جسے ہم گمر اہ قرارادیتے ہیں۔

مختصراً یہ کہ ان صوفیہ میں ایسے بھی تھے جنھوں نے کتاب و سنت پر سختی سے عمل کیا اور کچھ دوسرے ایسے بھی تھے جو راہ راست سے منحرف ہو گئے۔ہمارے لیے قابل تقلید وہ تصوف ہے جو راہ راست سے منحرف نہیں ہے اور جس کی طرف صلح صوفیائے کرام نے دعوت دی یعنی قرآن سنت پر سختی سے عمل کرنا۔دنیاوی زندگی کے فتنوں سے حتی الامکان اجتناب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں جاگزیں کرنا اور دل کو نفسیاتی آلائشوں سے پاک کرنا تاکہ شیطان اس طرف رخ نہ کرے۔ یہ ہے تصوف کا روشن پہلو جو قابل تقلید ہے۔ رہا تصوف کا وہ رخ جو راہ راست سے منحرف ہے تو وہ یقیناً قابل مذمت ہے۔اور کسی قیمت پر لائق عمل نہیں ہے۔

اہل تصوف کے سلسلہ میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے نہایت عمدہ بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اہل تصوف کے سلسلہ میں لوگ مختلف رائے رکھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اہل تصوف طبقہ سے وہ لوگ تعلق رکھتے ہیں جن کی ہر سعی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے ہے اور جن کا مقصد اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جن کی نسبت اصل تصوف کی طرف کی جاتی ہے حالانکہ وہ اللہ کے نا فرمان ہیں۔(واللہ اعلم بالصواب)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:387

محدث فتویٰ

تبصرے