السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
امریکہ روس اور ان کے علاوہ کچھ دوسرے مغربی ممالک اس بات کا دعوی کر رہے ہیں کہ انسان خلائی گاڑیوں کی مدد سے چاند پر جا سکتا ہے۔ دوسری طرف بعض علماء اسلام اس دعوی کو غلط قراردیتے ہیں اور اسے محض خرافات سے تعبیر کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں اللہ نے آسمان کو "سقف محفوظ" یعنی محفوظ چھت قرار دیا ہے۔ اب اس محفوظ چھت کو کوئی کیسے عبور کر سکتا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
نوٹ :یہ سوال ان دنوں کیا گیا تھا جب انسان کے قدم چاند پر نہیں پہنچے تھے اور ترقی یافتہ ممالک چاند پر پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں سوال کرنے والے بھائی سے کہوں گا کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت یا واضح نص نہیں ہے جو اس بات کی نفی کرے کہ انسان چاند پر جا سکتا ہے یا اس بات کی تائید کرے کہ انسان وہاں جا سکتا ہے۔ قرآن میں آسمان کے سلسلہ میں جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے آسمان کو مزین کیا اور شیطان رجیم کی پہنچ سے محفوظ رکھا ہے اللہ فرماتا ہے۔
﴿وَلَقَد جَعَلنا فِى السَّماءِ بُروجًا وَزَيَّنّـٰها لِلنّـٰظِرينَ ﴿١٦﴾ وَحَفِظنـٰها مِن كُلِّ شَيطـٰنٍ رَجيمٍ ﴿١٧﴾ إِلّا مَنِ استَرَقَ السَّمعَ فَأَتبَعَهُ شِهابٌ مُبينٌ ﴿١٨﴾... سورة الحجر
’’یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے ان کو دیکھنے والوں کے لیے آراستہ کیا اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کردیا۔ کوئی شیطان ان میں راہ نہیں پا سکتا الایہ کہ کچھ سن گن لے اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتا ہے۔‘‘
آسمان کو شیطان رجیم کی پہنچ سے محفوظ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نہ اس تک پہنچ سکتا ہے اور نہ اپنے ناپاک قدم وہاں رکھ سکتا ہے۔ شیطان کا دائرہ کار زمین کی حد تک محدود ہے اور اس کاکم زمین پر بسنے والے انسانوں کو بہکانا ہے۔ رہا آسمان تو وہ ایک مقدس اور پاک علاقہ ہے جہاں اللہ کے فرشتے بستے ہیں اور جس کی طرف رخ کر کے مومنین دعائیں کرتے ہیں شیطان کی پہنچ اس پاک علاقہ تک نہیں ہے۔ جب بھی وہ یہاں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ اور فرشتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے شہاب ثاقب کے ذریعہ سے مار بھگایا جاتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بدمعاش قسم کے جن ملا اعلیٰ کی طرف پرواز کر کے غیب کی باتوں کی سن گن لینے کی کوشش کرتے تھے۔ بعض کو تھوڑی کامیابی مل جاتی تھی اور غیب کی بعض باتیں سن لیا کرتے تھے جنھیں نیچے آکر وہ اپنے موکلین کے گوش گزار کیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض کے بعد جنوں کو پتہ چلا کہ اب تو آسمان محفوظ چھت کی مانند بنا دیا گیا ہے۔اور سن گن لینے کی خاطر ملا اعلی کی طرف پرواز کرنا ممکن نہیں رہا اور نہ ہی غیب کی باتوں کو جاننے کی کوئی سبیل رہی اس بات کا اعتراف جنوں نے یوں کیا ہے۔
﴿ وَأَنّا لَمَسنَا السَّماءَ فَوَجَدنـٰها مُلِئَت حَرَسًا شَديدًا وَشُهُبًا ﴿٨﴾ وَأَنّا كُنّا نَقعُدُ مِنها مَقـٰعِدَ لِلسَّمعِ فَمَن يَستَمِعِ الءانَ يَجِد لَهُ شِهابًا رَصَدًا ﴿٩﴾... سورة الجن
’’اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہریداروں سے پٹا پڑا ہے اورشہابوں کی بارش ہو رہی ہے اور یہ کہ پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔‘‘
اس حفاظت کی کیا شکل ہے؟ حفاظت کا انتظام کس مقام پر کیا گیا ہے؟ پہریدار کہاں متعین کیے گئے ہیں؟ ان تفاصیل کے بارے میں نہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ بتایا ہے نہ انہیں جاننے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ انسانی عقل ان کا پتہ لگا سکتی ہے ہمارے لیے اتنا جاننا کافی ہے جتنا قرآن و حدیث نے بتایا ہے۔ اس سے زیادہ جاننے کی کوشش کرنا وقت کی بربادی ہے اور حق بات تک رسائی کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے۔
یہ ایک آسمان کو محفوظ چھت بنانے کا مطلب جس کا قرآن میں متعدد جگہ تذکرہ موجودہے۔ قرآن و حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انسان کے چاند پر پہنچنے کی نفی یا تائید کرے۔یہ تو ان دنیاوی معاملات میں سے ہے جنھیں خدا نے بندوں کی عقل پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی عقل اور مصلحت کے مطابق جو چاہیں کریں۔
یہ کوئی دانشمندی کی بات نہ ہو گی کہ ہم بالکل یقین کے ساتھ اس بات کا دعوی کریں جس کا تذکرہ قرآن و حدیث میں قطعیت کے ساتھ نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے مستقبل قریب یا بعید میں چاند پر پہنچنے کی کوشش کا میاب ہو جائے۔ ایسی صورت میں وہ حضرات کیا جواب دیں گے جو چاند پر پہنچنے کی کوشش کو خرافات سے تعبیر کرتے ہیں؟
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب