سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) یہودیوں کی معافی

  • 23900
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 773

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وٹیکن سٹی میں مسیحیوں کی طرف سے یہ سرکاری اعلان ہوا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے سولی پر لٹکانے اور ان کا خون کرنے کے جرم سے یہودیوں کو معاف کرتے ہیں۔ اس اعلان پر عرب دنیا میں ہلچل مچ گئی کیوں کہ اسلام کی نظر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام  سولی پر نہیں لٹکائے گئے بلکہ اللہ نے انہیں اوپر اٹھالیا۔ عیسائیوں کا یہ فیصلہ کیا اسلامی نقطہ نظر کے منافی نہیں ہے؟ اور کیا آج کے یہودی اپنے اسلاف کے جرم کے ذمہ دار ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام  نہ سولی پر چڑھائے گئےاور نہ قتل کیے گئے بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اوپر اٹھالیا۔ لیکن مسلمانوں کے اس عقیدہ سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو قتل کرنے کی سازش کی تھی اور وہ اس جرم کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اگرچہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کو قتل نہ کر سکے تاہم انہیں یہی یقین ہوا کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو قتل کر دیا ہے۔ ان کے اسی غلط یقین کی طرف قرآن یوں اشارہ کرتا ہے۔

﴿وَلـٰكِن شُبِّهَ لَهُم...﴿١٥٧﴾... سورة النور

’’بلکہ معاملہ ان کےلیے مشتبہ کر دیا گیا۔‘‘

اس لیے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو قتل کرنے کی پوری کو شش کی اور اپنی دانست میں انھوں نے قتل بھی کر ڈالا یہ جرم ان پر سے ساقط نہیں ہو سکتا انھوں نے یہ جرم صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے ساتھ نہیں کیا بلکہ انھوں نے سینکڑوں انبیاء کو بالفعل قتل کیا ہے چنانچہ انھوں نے حضرت زکریا ان کے بیٹے حضرت یحییٰ اور ان کے علاوہ متعدد انبیاء کا قتل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مخاطب کرتا ہے:

﴿ أَفَكُلَّما جاءَكُم رَسولٌ بِما لا تَهوىٰ أَنفُسُكُمُ استَكبَرتُم فَفَريقًا كَذَّبتُم وَفَريقًا تَقتُلونَ ﴿٨٧﴾... سورة البقرة

’’پھر یہ تمھارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمھاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز تمھارے پاس لے کر آیا تو تم نے اس کے مقابلہ میں سر کشی کی کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو قتل کرنے کی سازش اگرچہ دو ہزار سال قبل کے یہودیوں نے کی تھی تاہم اس کی ذمہ داری ہر دور کے یہودیوں پر عائد ہوگی کیوں کہ ہر دور میں یہودی اپنے اسلاف کے اس فعل پر خوش ہوتے ہیں اور ان کی تعریفیں کرتے ہیں جب تک وہ اس جرم کی نفی نہیں کرتے تب تک عملاً وہ بھی اس جرم میں شریک ہیں۔ بالکل اس طرح جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رہنے والے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے متعدد مقامات پر فرماتا ہے کہ تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ تم نے یہ کیا اور تم نےوہ کیا۔ حالانکہ یہ سارے کام انھوں نے  نہیں بلکہ ان کے اسلاف کیے تھے لیکن چونکہ یہ یہودی اپنے اسلاف کے ان کاموں پر راضی تھے اور ان کی مدح سرائی کرتے تھے اس لیے عملی طور پر وہ بھی ان کاموں میں شریک تصور کیے گئے۔

یہودیوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کی روایت برقرار رکھی ہے اور ہمیشہ جرم و فساد کا بازار گرم رکھا ہے۔ موجودہ زمانہ میں فلسطین کی سر زمین پر جو کچھ وہ بوڑھے مردوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ کر رہے ہیں ان وحشیانہ جرائم کی زندہ مثالیں ہیں۔        

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:379

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ