سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) گناہ کبیرہ سے توبہ

  • 23899
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1177

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے جس نے زنا جیسا فعل کیا ہویا پاک دامن عورت پر زنا کا جھوٹا  الزام لگایا ہو یا لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھا یاہو۔ اس نے کبائر میں سے کسی ایک گناہ کا ارتکاب کیا ہو یا سارے گناہ کیے ہوں اور اب اس نے اللہ کے حضور اپنے ان گناہوں سے توبہ بھی کر لی ہو۔ جہاں تک لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھانے کا تعلق ہے تو اب اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ان کا حق واپس کر سکے۔ تب اسے کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جن تین گناہوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور بعض کا حقو ق العبادسے۔

زنا کے بارے میں جمہور علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ چنانچہ جب کسی بندے سے یہ غلطی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے کیے پر نادم ہو۔اور اللہ سے مغفرت کی دعا کرے اور عزم مصحم کرے کہ اب آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی اس توبہ کے بعد اللہ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ اللہ اس بندے کی توبہ قبول کر لے گا اور اس کا گناہ معاف کردے گا۔

بعض سخت گیر قسم کے علماء کہتے ہیں کہ زنا کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے اور زنا کرنے والے کو چاہیے کہ جس لڑکی کے ساتھ اس نے یہ جرم کیا ہے اس کے اہل خانہ کے پاس جائے اور اپنے کیے کی معافی مانگے تب خدا بھی اسے معاف فرمائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جس جرم پر پردہ ڈال رکھا تھا وہ خود ہی لڑکی کے گھر والوں کے پاس جاکر یہ بتائے کہ میں نے تمھاری لڑکی کے ساتھ زنا کیا ہے اور تم مجھے معاف کردو۔

نتیجہ یہ ہو گا کہ بات اور بڑھے گی اور معاملہ جنگ و جدال تک پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے یہ رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی۔

جہاں تک پاک دامن عورت پر زنا کا الزام لگانے کا معاملہ ہے تو یہ ان سات بھیانک گناہوں میں سے ہے جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے:

"السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ"

’’یعنی سات تباہ کن چیزیں ‘‘

کا لفظ استعمال کیا ہے۔قرآن میں ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔آیت یوں ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ يَرمونَ المُحصَنـٰتِ الغـٰفِلـٰتِ المُؤمِنـٰتِ لُعِنوا فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٢٣﴾... سورة النور

’’جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘

دنیا میں اس جرم کی سزا اسی کوڑے ہیں اور دوبارہ کبھی اس شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ لیکن ایسے شخص کے لیے توبہ کی کیا شکل ہو گی اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ کیوں کہ اس کا تعلق حقوق اللہ سےبھی ہےاورحقوق العباد سے بھی۔

اس سلسلہ میں میری رائے یہ ہے کہ جس طرح اس شخص نے لوگوں کے سامنے اس پاک دامن عورت پر الزام تراشی کی ہے اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کے سامنے جا کر اپنے جھوٹا ہونے کا اعتراف کرے تاکہ تمام لوگ جان لیں کہ اس نے غلط الزام لگایا تھا۔ اس کے بعد اس عورت سے معافی مانگے جس پر الزام لگایا تھا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔ تب جا کر امید ہے کہ اللہ اسے معاف فرمائے گا۔ صرف اللہ سے معافی مانگ لینا کافی نہیں ہے۔

جہاں تک ناحق طریقہ سے دوسروں کا مال کھانے کا تعلق ہے تو اس کی توبہ اس وقت قبول ہو گی جب حق والے کو اس کا حق واپس کر دیا جائے۔ جیسا کہ پچھلے اسی باب میں بتایا جا چکا ہے کہ ایک شہید کے سارے گناہ شہادت کی وجہ سے معاف ہو جاتے ہیں سوائے اس گناہ کے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہےجب ایک شہید کی معافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق والے کا حق لوٹادے تو دوسروں کے لیے یہ بات بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔

البتہ اگر وہ صاحب حق کو انتہائی مفلسی کی وجہ سے مال واپس نہیں کر سکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ صاحب حق کے پاس جائے اور اسے اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کرے کہ وہ اسے معاف کردے۔ اگر وہ معاف نہیں کرتا تو اس بات کا پکا ارادہ کرنا چاہیے کہ جوں ہی اس کے پاس پیسے آئیں گے پہلی فرصت میں صاحب حق کو اس کا حق واپس کردے گا۔ اگر پیسے مہیا نہ ہو سکے اور وہ مرگیا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیت کو یکھتے ہوئے اسے معاف کر دے گا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:377

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ