سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) مصیبت کی گھڑی میں فرد مسلم کا رول

  • 23898
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 719

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک طالب علم ہوں۔ میں نے اپنے گھروالوں کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزاری ہے چند سال قبل میرے والد محترم کا انتقال ہو گیا۔ میری والدہ نے عدت کے بعد دوسری شادی کر لی۔شادی کے دو سال کے بعد میرے دوسرے والد نے مجھے گھر سے نکال باہر کیا۔ اب میرے پاس نہ گھر ہے اور نہ گھر والے ۔ میں بالکل بے سہارا ہوگیا ہوں۔ کیا میں خود کشی کر لوں یا اپنی مصیبت پر صبر کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے بچے تمھارے لیے صبر کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔وہ صبر جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مشکل حالات میں مدد لینے کی تاکید فرمائی ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿ استَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلو‌ٰةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّـٰبِرينَ ﴿١٥٣﴾... سورة البقرة

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو(کیونکہ بے شبہ صبر خوشیوں کی گنجی ہے)‘‘

ضروری ہے کہ مسلمان مشکل حالات اور پریشانیوں کے موقع پر اپنے فولادی ارادوں اور زبردست نفسیاتی طاقت کے ذریعہ سے ان حالات کا مقابلہ کرے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے ان حالات پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ حالات خود اس پر غالب ہو جائیں اور وہ ریزہ ریزہ ہو کر خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے۔

ساری انسانی تاریخ ایسے واقعات اور تذکروں سے بھری پڑی ہے کہ بڑے بڑے لوگوں پر بے انتہا مساعد حالات آئے لیکن انھوں نے صبر اور مضبوط ارادہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور آخر میں سرخرو ہوئے۔ حتی کہ انبیاء کرام بھی اس سے مستثنی نہیں رہے۔ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تمام انبیاء کرام نے بچپن ہی سے تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ ان میں سے کسی کا بچپن خوشحالی میں نہیں گزرا بلکہ نہایت غربت وافلاس میں ان کی نشو ونما ہوئی ہے۔مثلاً آپ موسی  علیہ السلام  کا قصہ پڑھ لیں یوسف علیہ السلام  کا۔ موسیٰ علیہ السلام  پیدائش کے فوراً بعد سمندر میں پھینک دیے جاتے ہیں اور ان کی تربیت اس گھرانے میں ہوتی ہے جو بنی اسرائیل کا جانی دشمن تھا لیکن بالآخر کامیابی آپ علیہ السلام  کا مقدر بنی یوسف علیہ السلام  کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا۔ انہیں بازار میں غلام بنا کر فروخت کیا گیا۔ ان پر زنا کا الزام لگایا گیا۔ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آخر کار منصب وزارت پر فائز ہوئے۔ اسی سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصبِر فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُحسِنينَ ﴿٩٠﴾... سورة يوسف

’’حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوی اور صبر سے کام لے تو اللہ ایسے نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے‘‘

خود کشی کسی طور پر جائز نہیں ہے بلکہ یہ تو کفر کے مشابہ ہے۔ کیوں کہ جان اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمت ہے اور اسے واپس لینے کا حق صرف اللہ کو ہے اور خود کشی کا مطلب ہے کہ بندہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہو گیا ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوس مومن نہیں ہوتا بلکہ کافر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

﴿ إِنَّهُ لا يَا۟يـَٔسُ مِن رَوحِ اللَّهِ إِلَّا القَومُ الكـٰفِرونَ ﴿٨٧﴾... سورة يوسف

’’اللہ کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘

اس لیے میں آپ کو یہی وصیت کرتا ہوں کہ آپ صبر سے کام لیں۔ ایک نہ ایک دن آپ کی مصیبت ضرور دور ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:375

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ