سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) اسلام میں آزادی کا تصور

  • 23895
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 3794

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آزادی کے سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے؟بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام آزادی کے خلاف ہے۔ اگر اسلام آزادی کے حق میں ہے۔ تو اسلام کس حد تک آزادی کا قائل ہے اور کس قسم کی آزادی کی حمایت کرتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کا آزادی کے سلسلے میں یہ موقف ہے کہ وہ آزادی کا حامی اور اس کا محافظ ہے اس سلسلے میں امیر المومنین عمر بن الخطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا جا سکتا ہے۔

"متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم"

"تم نے لوگوں کو کب غلام بنا لیا حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘

اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ وصیت کی تھی۔

"وَلَا تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللَّهُ حُرّاً"

’’تم کسی اور کے بندے نہ ہو جاؤ اللہ نے تمھیں آزاد پیدا کیا ہے۔‘‘

انسان کے سلسلے میں اسلام کا یہی موقف ہے کہ انسان پیدائشی طور پر آزادہے۔ یہ آزادی اللہ کی بخشی ہوئی ہے جسے کوئی انسان اس سے چھیننے میں حق بجانب  نہیں ہے۔چنانچہ ہر انسان کو عقیدے کی آزادی ہے دین کی آزادی ہے فکر کی آزادی ہے سیاسی و اجتماعی آزادی ہے اور سب سے بڑھ کر قول اور تنقید کی آزادی ہے۔ یہ ساری آزادیاں خدا کی عطا کردہ ہیں۔اور اسلام ان کی حمایت و مدافعت کرتا ہے۔

عقیدہ اور دین کی آزادی یہ ہے کہ ہر انسان اس بات کے لیے مکمل آزاد ہے کہ وہ جس دین کو چاہے اختیار کرے جس عقیدے کو چاہے اپنائے۔ یہ آزادی خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  بھی کسی شخص سے نہیں چھین سکتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔

﴿ أَفَأَنتَ تُكرِهُ النّاسَ حَتّىٰ يَكونوا مُؤمِنينَ ﴿٩٩﴾... سورة يونس

’’تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے حتی کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘

دوسری جگہ فرماتا ہے:

﴿ لا إِكراهَ فِى الدّينِ...﴿٢٥٦﴾... سورة البقرة

"دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔‘‘

اس آیت کا سبب نزول ذہن میں رکھیں تو یہ بات مزید واضح ہو جائے گی۔جاہلیت میں یہ ہوتا تھا کہ اوس و خزرج کی جو عورتیں اولاد سے مایوس ہو جایا کرتی تھیں وہ منت مانتی تھیں کہ اگر ان کے یہاں اولاد ہوئی تو اسے یہودی بنائیں گی۔ اور اس پر ان کا عمل رہا جب اسلام آیا تو اوس و خزرج کے لوگ بھی اسلام میں داخل ہوئے تو ان عورتوں کے شوہروں نے اپنے یہودی بچوں کو دوبارہ اسلام میں آنے کے لیے مجبور کیا۔ اسلام اور یہودیت میں معرکہ آرائی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس بات سے منع کیا کہ وہ کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں۔ یہ ہے عقیدہ اور دین کی آزادی جس کا اسلام قائل ہے دوسری طرف آپ تاریخ کی کتابوں میں عیسائیوں کے واقعات پڑھ لیں۔وہ کہا کرتے تھے کہ یا تو مسحیت قبول کرو یا مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔(4)

یہ ہے عقیدہ کی آزادی جو اسلام کی نظر میں ہر شخص کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یہ آزادی بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے تاکہ یہ آزادی  لوگوں کے ہاتھوں میں کھلواڑنہ بن جائے کہ جب چاہیں اسلام قبول کر لیں اور تھوڑے دنوں کے بعد جب منہ کا مزہ بدلنا ہو تو مسحیت اختیار کر لی اور پھر یہودی بن گئے یا پھر دوبار اسلام قبول کر لیا۔یہ آزادی کا غلط استعمال ہے۔ آزادی یہ ہے کہ جو دین بھی اختیار کیا جائے خوب سوچ سمجھ کر اختیار کیا جائے۔ اگر کوئی شخص  اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ خوب غور و فکر کے بعد اسلام قبول کرے اس کے بعد اس پر لازم ہے کہ وہ اسلام کو نہ ترک کرے ورنہ اسے ارتداد کی سزا بھگتنی ہوگی۔

دوسری آزادی جس کا اسلام قائل ہے۔ وہ ہے فکر کی آزادی متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ مثلاً:

﴿ قُلِ انظُروا ماذا فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ ...﴿١٠١﴾... سورة يونس

’’ان سے کہو زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔‘‘

دوسری آیت ہے:

﴿قُل إِنَّما أَعِظُكُم بِو‌ٰحِدَةٍ أَن تَقوموا لِلَّهِ مَثنىٰ وَفُر‌ٰدىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّروا ... ﴿٤٦﴾... سورة سبا

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو میں تمھیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ۔ خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دودو مل کراپنا دماغ لڑاؤ پھر غور کرو۔‘‘

اسلام نے لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی کہ لوگ اوہام وخرافات پر یقین نہ کریں اور نہ باپ دادا ہی کے کہنے پر بلکہ خود ہی غور و فکر کریں اپنی عقل استعمال کریں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ کون سا دین حق پر ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے توحید و رسالت و آخرت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے عقلی دلائل دئیے ہیں تاکہ عقل والے غور کریں اور غور کرنے کے بعد اسے حق سمجھ کر قبول کریں۔

اسی فکری آزادی کے نتیجہ میں علمی آزادی میسر آئی ۔ اسی علمی آزادی کی بنیاد پر علماء کرام متعدد احکام میں ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں ہر عالم اس بات کے لیے آزاد ہے کہ دلیل کی بنیاد پر کوئی بھی رائے قائم کرے۔اور یہ اختلاف اسلام کی نظر میں ہر گز معیوب نہیں ہے۔ یہ علمی آزادی ہی ہے کہ جس کی وجہ سے علماء میں رایوں کا اختلاف ظاہر ہوا اور اس اختلاف کے باوجود ہر عالم دوسرے سے استفادہ کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ چنانچہ امام زخشری جو کہ معتزلی تھے اہل سنت و جماعت ان کی تفسیر الکشاف سے ہمیشہ استفادہ کرتے آئے ہیں۔

اسی طرح اسلام کچھ کہنے اور تنقید کرنے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ بلکہ بعض موقعوں پر جہاں معاملہ عوامی مصلحتوں سے متعلق ہو کچھ کہنا اور تنقید کرنا ضروری ہوتا ہے۔اسی لیے اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت کے کاندھوں پر ڈالا ہے۔ چنانچہ جب کوئی برائی ظاہر ہو یا معاشرے میں عام فساد کاا ندیشہ ہو تو تنقید کا حق استعمال کرتے ہوئے اس فساد کا سد باب کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں جو مصیبتیں پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَأمُر بِالمَعروفِ وَانهَ عَنِ المُنكَرِ وَاصبِر عَلىٰ ما أَصابَكَ ...﴿١٧﴾... سورة لقمان

’’بھلائی کا حکم دو۔ برائی سے روکو اور جو مصیبت آئے اس پر صبر کرو‘‘

یہ ہیں اسلام کی تعلیمات ایک نظر ان تعلیمات پر ڈالیے اور ان کا مقابلہ غیر اسلامی حکومتوں سے کیجیے جہاں کچھ کہنے کی آزادی نہیں ہے۔ وہی کہنے کی اجازت ہے جو حکومت کہتی ہے ورنہ قید و بند کی مصیبتیں جھیلنے کے لیے تیار ہو جائیے اسلام اس نظریےکے خلاف ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ غور و فکر کرنے کے بعد اپنی مرضی سے جو دین چاہے اختیار کرے اور اس راہ میں اگر حکومت حائل ہوتی ہے تو اس حکومت سے جہاد کیا جائے-جہاد کی فرضیت کے لیے جو سب سے پہلی آیت نازل ہوئی ہے اس جہاد کی مصلحت بتائی گئی ہے:

﴿أُذِنَ لِلَّذينَ يُقـٰتَلونَ بِأَنَّهُم ظُلِموا ...﴿٣٩﴾... سورة الحج

’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔‘‘

یہ ہیں وہ آزادیاں جن کا اسلام نہ صرف قائل ہے بلکہ محافظ بھی ہے یہ حقوق و مصالح کی آزادیاں ہیں کفرو معصیت کی نہیں ۔ یہ وہ آزادیاں نہیں ہیں جن کا اہل مغرب دم بھراکرتے ہیں اور ان آزادیوں کو شخصی آزادی یا PrivateLifeسے تعبیر کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان شخصی طور پر مکمل آزاد ہے چاہے زنا کرے، شراب پیے یا کوئی اور گناہ کاکام کرے۔ اسلام اس کفرو فسق کی آزادی کا قائل نہیں ہے۔ اسلام حقوق و مصالح کی آزادی کا قائل ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر واضح کیا ۔ اسلام اس آزادی کا قائل نہیں ہے

جس میں اپنا یا دوسروں کا نقصان پوشیدہ ہو یا جو آزادی تباہی و ہلاکت کی طرف لے جاتی ہو۔آپ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسروں کا نقصان شروع ہوتا ہے۔ آپ کو سڑک پر کار چلانے کی مکمل آزادی ہے لیکن اس آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایکسیڈنٹ کرتے پھر یں آپ کے قوانین کی پابندی ہر حالت میں کرنی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:365

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ