سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) تصویریں کھنچوانا

  • 23893
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 819

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے پاس ایک کیمرا ہے جس سے میں کسی پرو گرام یا سیرو سیاحت کے موقع پر تصویر لیتا ہوں ۔کیا یہ ناجائز ہے؟ اسی طرح میں نے اپنے کمرے میں بعض فلمی اداکاروں کی تصویریں دیواروں پر لٹکا رکھی ہیں اور میرے پاس ایسے میگزین بھی ہوتے ہیں۔جن میں عورتوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔کیا ان تصویروں کامیرے کمرے میں ہونا اسلامی شریعت کے خلاف ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کیمرے سے تصویر لینے کے سلسلے میں مصر کے سابق مفتی علامہ الشیخ محمد نجیت المطعی نے فتوی دیا ہے کہ یہ جائز ہے۔ اسی سلسلے میں انھوں نے ایک کتابچہ بعنوان "الجواب الكافي في إباحة التصوير الفوتوغرافي"بھی تصنیف کی ہے جس میں انھوں نے مدلل طریقے سے واضح کیا ہے کہ کیمرے سے تصویر لینا جائز اور مباح ہے۔ کیونکہ در حقیقت کسی کی تصویر لینا تخلیق نہیں ہوتا جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے بلکہ یہ تو انسان کے عکس کو کاغذ کے ٹکڑے میں محفوظ کرنے کا عمل ہے۔ اس لیے عربی زبان میں اسے ،عکس، بھی کہتے ہیں اور تصویر لینے والے کو،عکاس، کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ انسان یا کسی بھی شے کے عکس کو محفوظ کرتا ہے ویسے ہی جیسے یہ کام آئینہ انجام دیتا ہے یہ وہ کام نہیں ہےجیسا کہ فن کار پتھروں کو تراش کراسٹیچو بناتے ہیں اور خدا کی تخلیق سے مشابہت اختیار کرتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے"يَخلق كخَلْقي" یعنی خدا اس فن کار کے بارے میں کہے گا۔

ہوگا،شیخ محمد نجیت کے اس فتوے سے متعدد علماءکرام متفق ہیں اور میرا رجحان بھی اسی فتوے کی طرف ہے۔ چنانچہ میری رائے یہ ہے کہ تصویر لینے میں کوئی حرمت نہیں ہے۔بہ شرطے کہ وہ تصویر بہ ذات خود حلال ہو۔ یعنی کسی برہنہ یا نیم  برہنہ عورت کی تصویر نہ ہو یا ایسے مناظر کی تصویر نہ ہو جو شرعاً جائز نہیں  ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی یا اپنی اولاد کی دوستوں کی ،فطری مناظر کی یا کسی تقریب کی تصویر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔بعض ایسے ناگزیر حالات ہیں جن میں متفقہ طور پر تمام علماء نے تصویر لینے کو جائز قراردیا ہے۔ مثلاً پاسپورٹ وغیرکے لیے۔

رہی فنکاروں اور اداکاروں کی تصویریں لٹکانے کی بات تو یہ چیز کسی مسلمان شخص کو زیب نہیں دیتی۔یہ ان لوگوں کاکام ہے جو ان اداکاروں کے گرویدہ ہیں اور ان کی دلچسپی انہی چیزوں میں ہے۔ البتہ کسی میگزین میں عورتوں کی تصویریں ہوں اور کوئی شخص اس میگزین کو اپنے گھر علمی استفادے کی خاطر لاتا ہے ان عورتوں کی تصویروں کی وجہ سے نہیں تو ایسی صورت میں اس میگزین کو گھر لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہ شرطے کہ میگزین کو کچھ اس طرح رکھا جائے۔ کہ تصویر کا صفحہ پوشیدہ رہے۔ بلکہ بہتر یہ ہو گا کہ تصویرکا صفحہ پھاڑ دیا جائے۔

رہا سوال تصویروں کے دیوار پر لٹکانے کا تو یہ کسی طور جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے لٹکانے کا مطلب ہے ان کو تعظیم و تکریم سے نوازنا جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اسلامی شریعت میں یہ بات ہر گز جائز نہیں کہ کسی بندے کو اس طرح کی تعظیم و تکریم سے نوازا جائے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:362

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ