سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(139) نغمہ یا گانا سننا

  • 23891
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2178

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علماء کرام کی ایک جماعت ہر قسم کاگانا سننے کو حرام قراردیتی ہے خواہ وہ کیسا ہی گانا ہو۔ ان کی دلیل ہے:

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا...﴿٦﴾... سورةلقمان

"اور کچھ لوگ ہیں جو لغو اور بے کارباتوں کو خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو گمراہ کریں بغیر کسی علم کے اور اللہ کی راہ کو مذاق کی چیز بنا لیں ۔"

اس آیت میں ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے لہو الحدیث سے مراد گانا بتایا ہے۔ ان کی دلیل یہ آیت ہے۔

﴿وَإِذا سَمِعُوا اللَّغوَ أَعرَضوا عَنهُ...﴿٥٥﴾... سورةالقصص

"اور جب لغو باتوں کو سنتے ہیں تو اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

گانا سننے اور بلا شبہ گانا بجانا لغو میں شامل ہے۔ کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ امید ہے کہ آپ تشفی بخش جواب عنایت کریں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گانا چاہیے موسیقی کے ساتھ ہو یا بغیر موسیقی کے قرون اولیٰ سے فقہائے اسلام کے درمیان موضوع بحث رہا ہے ۔ اس سلسلے میں بعض باتوں پر تمام فقہاء کا اتفاق پایا جاتا ہے جب کہ بعض نکتوں میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ جس بات پر تمام اہل علم و فقہ متفق ہیں وہ یہ ہے کہ ہر وہ گانا یا نغمہ جو فحش ، فسق وفجور اور گناہ کی باتوں پر مشتمل ہو اس کا سننا حرام ہے ۔ کیونکہ گانا چند الفاظ کے مجموعے کا نام ہے۔ اگر یہ الفاظ فحش اور برے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا سننا بھی فحش اور برا کام شمار کیا جائے گا۔ اگر ان الفاظ کو مرتب کر کے شعر کی صورت دے دی جائے۔ اور ان میں موسیقی شامل کر لی جائے تو ان کی تاثیر دو بالا ہو جا تی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی حرمت میں بھی اضافہ ہو جا تا ہے۔

اسی طرح ان کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ شادی بیاہ یا عید اور خوشی کے موقعوں پر ایسے گانے جائز ہیں جو گندے، فحش اور نازیبا باتوں سے خالی ہوں۔متعدد احادیث ہیں۔اس قسم کے گانوں کے جواز کی دلیل دی جا سکتی ہے۔

اب میں اس موضوع سے متعلق جن باتوں میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے ان کا تذکرہ کرتا ہوں۔بعض علماء کے نزدیک ہر گانا چاہیے موسیقی کے ساتھ ہو یا بغیر موسیقی کے جائز ہے بلکہ وہ اسے مستحب قراردیتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک صرف وہی گانا جائز ہے جو بغیر موسیقی کے ہو۔ اور بعض علماء کے نزدیک ہر قسم کا گانا حرام ہے چاہے موسیقی کے ساتھ ہو یا بغیر موسیقی کے۔

میری اپنی رائے یہ ہے کہ گانا یانغمہ بذات خود حلال ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصلیت یہ ہے کہ وہ حلال ہے۔ الایہ کہ اس کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی واضح دلیل ہو۔ گانے کی حرمت کے سلسلہ میں جتنی بھی دلیلیں دی جاتی ہیں یا تو وہ صحیح ہیں لیکن واضح اور قطعی دلیل نہیں ہیں یا پھر واضح ہیں لیکن صحیح نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر گانوں کی حرمت کے لیے آپ نے اپنے سوال میں جن دو آیتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ گانوں کی حرمت کے سلسلہ میں واضح دلیل نہیں ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے لہو الحدیث سے مراد گانا بتایا ہے۔لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا نہیں فرمایا ہے۔ اسی طرح اس آیت میں لغو سے مراد گانا بجانا نہیں ہو سکتا کیونکہ اس آیت میں لغو سے مراد گالم گلوج ، طعن تشنیع اور احمقانہ باتیں ہیں آپ پوری آیت کو سیاق و سباق کے حوالہ سے پڑھیں تو یہی مفہوم آپ بھی اخذ کریں گے۔

اسی مفہوم کی ایک دوسری آیت ہے:

﴿وَإِذا خاطَبَهُمُ الجـٰهِلونَ قالوا سَلـٰمًا ﴿٦٣﴾... سورة الفرقان

"اور جب جاہل ان کے منہ آتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔

اگر مذکورہ آیت میں لغو سے مراد گانا لیا جائے تو آیت یوں نہ ہوتی کہ اسے سننے کے بعد وہ اس سے دامن بچاتے ہیں بلکہ آیت یوں ہوتی کہ اس کے سننے سے دامن بچاتے ہیں۔ حالانکہ آیت میں ایسی کوئی بات نہیں کہ اللہ کے نیک بندے اسے سننے سے پرہیز کرتے ہوں یا دامن بچاتے ہوں۔

اگر لغو سے مراد وہ باتیں لی جائیں جن میں کوئی فائدہ نہ ہو اور یہ کہا جائے کہ گانا بھی بے فائدہ چیز ہے اس لیے اس آیت کی روسے اس سے پرہیز کرنا چاہیے تو اس اعتراض کے جواب میں ،میں ابن جریج کا کلام نقل کروں گا۔کسی نے ان سے دریافت کیا کہ گانا سننا آپ کی نیکیوں کے باب میں شمار کیا جائے گا یا برائیوں کے کھاتے میں لکھا جائے گا؟ ابن جریج نے جواب دیا کہ اس کا شمار نہ نیکیوں میں ہو گا اور نہ برائیوں میں بلکہ یہ تو ان لغو چیزوں میں سے ہے جن پر اللہ گرفت نہیں کرتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم...﴿٨٩﴾... سورةالمائدة

"تم لوگ جو مہمل اور لغو قسم کی قسمیں کھا لیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا۔‘‘

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ جب اللہ بندے کا اس بات پر مواخذہ نہیں کرے گا کہ اس نے یوں ہی اللہ کا نام لے کر قسم کھائی تو شعر و نغمہ پر کیوں کر گرفت کرے گا۔

اس پر مستزادیہ کہ ہر گانا یا نغمہ لغو باتوں پر مشتمل نہیں ہوتا۔ بعض نغمے اچھی اور مفید باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں بعض نغمے ایسے ہوتے ہیں جو نیک مقصد کے تحت گائے اور سنے جاتے ہیں۔ یہاں پر میں علامہ ابن حذم کا ایک قول نقل کروں گا جو ان کی کتاب "المعلی " میں موجود ہے۔ انھوں نے گانے کو حرام قراردینے والوں پر رد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ گانا سننا حق میں شمار ہو گا یا باطل میں ؟ حق اور باطل کے علاوہ کوئی تیسری چیز نہیں ہو سکتی ۔ ان کے لیے میرا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے کہ ہر عمل  کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے چنانچہ جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نیت سے گانا سنے گا وہ گناہگار ہے اور جو شخص اس نیت سے گانا سنتا ہے کہ اس سے بدن میں چستی اور پھر تی آئے گی اور یہ چستی اللہ کی عبادت میں معاون ثابت ہو گی تو یہ ایک نیک ارادہ ہے اور اس کا گانا سننا بھی نیک عمل میں شمار ہو گا۔ بہ شرطے کہ وہ گانا بذات خود بری اور فحش باتوں پر مشتمل نہ ہو۔

رہیں وہ حدیثیں جنہیں علماء کرام گانوں کی حرمت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے  ہیں تو یہ ساری حدیثیں ضعیف ہیں قاضی ابو بکر ابن عزل  کہتے ہیں کہ نغموں اور گانوں کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ گانوں کی حرمت کے سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ سب موضوع یعنی گھڑی ہوئی احادیث ہیں۔ امام غزالی نے بھی یہی بات کہی ہے۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ اس کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے تو اس کے جائز اور حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کیونکہ ہر چیز کی اصل یہ ہے کہ وہ جائز ہوتی ہے اس پر مزید یہ کہ اس کے جائز ہونے کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث موجود ہیں۔ میں یہاں پر اس صحیح حدیث کا تذکرہ کافی سمجھتا ہوں جو بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہے۔ حدیث یہ ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس دو لڑکیاں بیٹھی گانا گارہی تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان لڑکیوں کی سرزنش کی اور کہا :"

"أبمزمور الشيطان في بيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم"

کیا شیطان کی بانسری اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بجائی جا رہی ہے؟ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے فرمایا:‘‘

"دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ"

’’چھوڑدوانہیں اے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !(یعنی انہیں گانے دو) کیونکہ یہ خوشی کے دن ہیں۔اور کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خوشی کے علاوہ دنوں میں گانے سے منع فرمایا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوشی کے دن ہوں یا نہ ہوں گانا گانا اپنی اصلیت یعنی جواز پر برقرار رہے گا۔

اس فتوی کے آخر میں میں یہ بتانا چاہوں گا کہ اس جواز کے ساتھ چند شرطیں بھی ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔

1۔ یہ ضروری ہے کہ گانے میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔ مثلاً شراب و شباب کا تذکرہ  نہ ہو یا للہ کی شان میں گستاخی نہ ہو یا عورتوں کی بے حیائی کا تذکرہ دل فریب انداز میں نہ ہو۔ کہ یہ ساری باتیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔

2۔ بسا اوقات گانے کے بول تو اچھے ہوتے ہیں اور ان میں کوئی قابل مواخذہ بات نہیں ہوتی ہے لیکن گانے کا انداز ہیجان انگیز اور اسلامی آداب کے خلاف ہو تا ہے۔مثلاً ہاتھوں یا کمر کو دل فریب انداز میں حرکت دینا ہو ہا وغیرہ جیسی آوازیں نکالنا۔ اس لیے ضروری ہے کہ گانے کا انداز اسلامی آداب کے خلاف نہ ہو۔

3۔اسلام نے ہر بات میں اسراف کو ناپسند کیا ہے حتی کہ عبادت میں بھی اسراف پسندیدہ نہیں ہے۔ چنانچہ گانے بجانے میں اسراف اور غلو بدرجہ اولیٰ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اگر گانے بجانے میں انہماک کچھ زیادہ ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرائض کی ادائی میں کوتاہی ہو رہی ہے اور زیادہ وقت غیر مفید کام میں صرف ہو رہا ہے۔عبد اللہ ابن المقفع کا ایک مشہور قول ہے:

"ما رأيت إسرافا إلا وبجانبه حق مضيع"

’’میں نے جو اسراف اور غلو دیکھا اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا حق بھی دیکھا جو ضائع کر دیا گیا۔‘‘

4۔ان سب توضیحات کے بعد ہر شخص خود اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ گانا اگر فحش ہے اور ہیجان انگریزی پیدا کرتا ہے تو اس سے اسے پرہیز کرنا چاہیے اور ایسے دروازہ کو بند کردینا چاہیے جہاں سے گمراہی اور فتنے کی ہوائیں اس کے دل و دماغ کو متاثر کر رہی ہوں۔

اس دور میں جو گانے خاص و عام زبانوں پر رہتے ہیں ان میں شاذو نادر ہی ایسے گانے ہوں گے جو مذکورہ بالا شرطوں پر پورے اترتے ہوں۔ یہ گانے ان لوگوں کی طرف سے آتے ہیں۔ جو ہر زاویہ سے اسلامی زندگی سے دور ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ گانوں سے پرہیز کیا جائے۔ مبادا نادانستہ طور پر کسی ناجائز بات کا ارتکاب نہ ہو جائے۔

البتہ جو شخص اس بنیاد پر گانا سننے کا خواہش مند ہے کہ یہ شرعاً جائز ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان گانوں کا انتخاب کرے جن میں گناہ کی آمیزش نہ ہو۔ اگر یہ احتیاط محض گانا سننے میں لازمی ہے تو گانے کو پیشہ بنانے میں حدرجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بلکہ یہ پیشہ کسی صحت مند اسلامی معاشرے کے لیے کس قدر خطرناک ہے اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں اور کسی عورت کا یہ پیشہ اختیار کرنا تو کسی طور پر جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس پیشہ کی بنیاد پر اس کی عزت شرافت اور شرم و حیا سب کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے اور اجنبیوں سے اختلاط الگ حصے میں آتا ہے ظاہر ہے کہ اسلامی شریعت کبھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:355

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ