سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) چھوت چھات کے ذریعے بیماری پھیلنے کا مسئلہ

  • 23890
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4692

سوال

(138) چھوت چھات کے ذریعے بیماری پھیلنے کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ صحیح ہے کہ اسلام چھوت چھات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ کہ تمام باتیں اللہ کے لکھے ہوئے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے چھوت چھات سے نہیں ڈرنا چاہیے؟ اس طرح کی باتیں اگر عوام کے ذہن میں بیٹھ جائیں تو انہیں یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ متعدی امراض سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ کہ ایسے مواقع پر احتیاط لازم ہے۔

جہاں تک میں سمجھتا ہوں دین اسلام نے صحت عامہ پرکا فی زور دیا ہے۔بیماریوں سے قبل پرہیز اور احتیاط کی تاکید کی ہے اور بیماریوں کے بعد علاج کا حکم دیا ہے۔ مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ اسلام نے متعدی امراض سے محتاط رہنے کی بھی تاکید کی ہے۔امید کہ اس مسئلے کا تسلی بخش جواب عنایت کریں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حقیقت یہ ہے کہ صحت عامہ صفائی ستھرائی اور احتیاط سے متعلق اسلام کا جو موقف ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دین اسلام میں صفائی ایک عبادت اور تقرب الی اللہ کا درجہ رکھتی ہے۔ شریعت کی ساری کتابیں اپنی ابتدا طہارت کے باب ہی سے کرتی ہیں۔

کیوں کہ شریعت کی نظر میں عبادت سے قبل صفائی اور نظافت کا اختیار کرنا ضروری ہے۔

چنانچہ یہ لازم ہے کہ نماز سے قبل وضو کیا جائے۔ وہ تمام اعضاء دھوئے جائیں جہاں گندگی ، مٹی  دھول اور پسینہ کا گمان ہوتا ہےعبادت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کپڑے اور بدن پاک صاف ہوں اور وہ جگہ بھی پاک صاف ہو جہاں عبادت کی جا رہی ہو۔ صٖفائی اختیارکرنے والوں کے متعلق اللہ فرماتا ہے۔

﴿فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ ﴿١٠٨﴾... سورة التوبة

’’اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة

"اللہ ان کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔‘‘

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

"طَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ" (مسلم)

صفائی نصف ایمان ہے۔

ایک دوسری حدیث ہے:

"وَالنَّظَافَةُ تَدْعُو إِلَى الإِيمَانِ ، وَالإِيمَانُ مَعَ صَاحِبِهِ فِي الْجَنَّةِ" (طبرانی)

’’صفائی ایمان کی طرف بلاتی ہے اور ایمان مع اپنے مومن کے جنت میں جائے گا۔‘‘

ایک اور حدیث ہے:

"تنظفـوا فإن الإسلام نظيـف"

’’صفائی اختیار کرو کیوں کہ اسلام بھی صاف ستھرا ہے۔‘‘

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نظافت کا بطور خاص اہتمام فرمایا اور اپنی امت کو بھی حکم دیا کہ ہفتہ میں کم ازکم ایک دفعہ جمعہ کے دن غسل کر لیا کریں(بخاری مسلم) دانتوں کی صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ ہمیشہ فرماتے تھے کہ اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہو کہ میرا حکم امت کے لیے باعث مشقت بن جائے گا۔ تو میں انہیں ہر نماز سے قبل مسواک کرنے کا حکم دیتا،(بخاری) بالوں کے  بارےمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْهُ " (ابو داؤد)

’’جس کے پاس بال ہواسے چاہیے کہ وہ اس کی عزت کرے۔‘‘

اسی طرح جسم کے فالتوں بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے کا حکم دیا۔ گھر کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے اور لوگوں کو اس بات کا حکم دیتے تھے۔ فرمایا:

"إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ"

"إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ......." (مسلم)

’’بے شبہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ اچھا ہے اور اچھائی کو پسند کرتا ہے۔ صاف ستھرا ہے اور صاف ستھرائی کو پسند کرتا ہے۔ تم لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھا کرو۔‘‘

اسی طرح راستوں اور سڑکوں کی صفائی کا حکم دیا ہے اور ان لوگوں کو وعید فرمائی جو سڑکوں پر غلاظت پھیلاتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کو زبردست وعید فرمائی جو گندگیاں پھیلانے کاکام کرتے ہیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ رکے ہوئے پانی میں یا حمام میں پیشاب کیا جائے یا راستوں کے کنارے پر قضائے حاجت کیا جائے۔

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے جسم کو تندرست و توانا رکھنے کی خاطر ورزش کھیل کود، گھوڑاسواری ، تیر اندازی اور تیراکی وغیرہ کی ترغیب دی ہے اور سستی وکاہلی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے پناہ مانگی ہے۔ اسی تندرستی و توانائی کی خاطر اسلام نے ہر قسم کی نشہ آور مشروبات اور منشایات کو حرام قراردیا ہے اور اسی فرض سے اللہ نے ان لوگوں کی سخت سرزنش کی ہے۔ جو اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قراردیتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿قُل مَن حَرَّمَ زينَةَ اللَّهِ الَّتى أَخرَجَ لِعِبادِهِ وَالطَّيِّبـٰتِ مِنَ الرِّزقِ ...﴿٣٢﴾... سورة الاعراف

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کہو!کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں۔؟‘‘

اسی تندرستی کی خاطر اللہ نے کھانے پینے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی اس میں اسراف سے منع فرمایا ہے:

﴿وَكُلوا وَاشرَبوا وَلا تُسرِفوا ... ﴿٣١﴾... سورةالاعراف

’’اورکھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مسلمان اپنی وسعت اور استطاعت سے زیادہ اپنے جسم کو کسی کام کا مکلف کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی سخت سرزنش کی جنہوں نے ارادہ کیا تھا کہ رات رات بھر عبادت کریں گے اور سوئیں گے نہیں۔ یا سال کے تمام دنوں روزہ رکھیں گے۔ یا عورتوں سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لیں گے اور شادی نہیں کریں گے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو ایسا کرنے سے منع فرمایا:

اسلام انسانی جسم کا اس قدر خیال کرتا ہے کہ اس جسم کو اگر کوئی مرض یا آفت لاحق ہو جائے تو اسلامی شریعت حتی لامکان اسے رخصت اور چھوٹ عطا کرتی ہے۔چنانچہ کوئی شخص وضو نہیں کر سکتا تو تیمم کرلے۔ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر یا لیٹ کر پڑھ لے۔

اسلام نے جس طرح جسمانی صحت کا خیال رکھا ہے اسی طرح مرض کے وقت علاج کا بھی حکم دیا ہے۔ چاہے یہ علاج دواؤں کے ذریعہ سے ہو یا پھر پرہیز اور احتیاطی تدابیر کے ذریعہ سے، طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  سے متعلق احادیث کو مجموعہ کی شکل دے کر شائع کیا جا چکا ہے۔زمانہ جاہلیت میں علاج و معالجہ کے لیے متعدد خرافاتی اور تو ہماتی طریقے اختیار کیے جاتے تھے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہو تا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان خرافات اور توہمات پر کاری ضرب لگائی اور علاج و معالجہ کے لیے ان طریقوں کو اختیار کرنے کی تلقین کی جو علاج کے مروجہ طریقے ہیں اور علم پر مبنی ہیں۔ ذیل میں طب نبوی کے چند اصول بیان کرتا ہوں۔

1۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو انسانی جسم کی قدرو قیمت سے روشناس کرایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔

"إن لبدنك عليك حقا"

’’تم پر تمھارے بدن کا بھی حق ہے۔‘‘

وہ حق یہ ہے کہ بھوک کے وقت کھانا کھایا جائے۔ تھکاوٹ کے وقت اسے آرام دیا جائے ۔ گندگی کی صورت میں اسے پاک و صاف کیا جائے ۔ بیمار ہونے کی صورت میں اس کا علاج کرایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ حق ہے کہ اسلام اس میں سستی و کاہلی کی اجازت نہیں دیتا۔

2۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کی روسے یہ بات غلط ہے کہ بیماریوں کو تقدیر سمجھ کر آدمی رہے اور ان کا علاج نہ کرائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:کہ جس طرح بیماری ایک تقدیر ہے اسی طرح اس کا علاج کرانا بھی تقدیر ہے۔ ایک بدو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ:"يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلا نَتَدَاوَى" یعنی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیا ہم علاج کرایا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"نَعَمْ ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً""یعنی ہاں! کیوں کہ اللہ نے ہر بیماری کا لازماً علاج بھی پیدا کیا ہے۔ یہ روایت مسند احمد کی ہے۔

مسند احمد اور ترمذی کی ایک اور روایت ہے کہ ابو خزامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضورر صلی اللہ علیہ وسلم  سے علاج و معالجہ کے متعلق دریافت کیا کہ کیا علاج اللہ کی تقدیر کو بدل سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ""یعنی یہ علاج بھی تو اللہ کی تقدیر میں سے ہے۔ یہی اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سبب اور مسیب دونوں چیزیں تقدیر میں لکھ دی ہیں اس لیے بیماریوں کو تقدیر سمجھ کر بیٹھ رہنا اور علاج نہ کرانا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

تاریخ میں ہے۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ملک شام جا رہے تھے راستہ میں معلوم ہوا کہ وہاں طاعون پھیلاہوا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے مشورہ کرنے کے بعد وہاں جانے کا پروگرام ملتوی کردیا۔ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اعتراض کیا کہ امیر المومنین !آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جواب دیا کہ ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔یعنی اگر طاعون کا پھیلنا اللہ کی تقدیر ہے تو اس سے بھاگنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی اللہ کی تقدیرمیں سے ہے۔

3۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے چھوت چھات کے ذریعہ سے پھیلنے والے امراض یعنی متعدی امراض کا اعتراف کیا ہے اور ان سے احتیاط اور پرہیزکی تاکید کی ہے۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث وارد ہیں۔

مسلم شریف کی روایت ہے کہ کوڑھی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیعت کی خاطر آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دورہی سےکہا کہ میں نے تم سے بیعت کر لی ہے۔ تم واپس جا سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرمایا کرتے تھے(8) کہ کوڑھیوں کی طرف زیادہ دیر تک مت دیکھا کرواور ان سے اس طرح بات کرو کہ تمھارے اور ان کے درمیان ایک یا دو نیزے کا فاصلہ رہے۔ طاعون کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جب کسی جگہ طاعون پھیل جائے تو وہاں ہر گز نہ جاؤں اگر تم اس جگہ ہو جہاں طاعون پھیل گیا ہے تو وہاں سے نہ نکلو۔ کیوں کہ اس طرح نکل بھاگنے سے دوسرے جگہوں پر طاعون کے پھیلنے کا امکان قوی ہوتا ہے۔

صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ جانوروں میں بھی چھوت چھات سے بیمار یاں پھیلتی ہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

"لا يُورَدُ مُمْرِضٌ على مُصِحٍّ"  (بخاری)

یعنی مریض اونٹوں کو صحت مند اونٹوں کے ساتھ نہ باندھو۔

اب رہی وہ حدیث جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت کیا ہے یعنی "لاعدوی تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ یہ بخاری کی صحیح حدیث ہے تاہم اس حدیث کا مفہوم نہیں ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعدی امراض کی نفی کی ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ متعدی مرض اپنی طبیعت اور مرضی سے نہیں پھیلتا بلکہ یہ وصف اللہ نے اس کے اندررکھدی ہے اور وہ اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق پھیلتا ہے۔

4۔ان تمام خرافاتی اور توہماتی طریقہ علاج کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے باطل قراردیا جو زمانے جاہلیت میں عام تھے اور جن کی بنیاد علم اور تجربہ پر نہیں تھی بلکہ بسااوقات ان کی بنیاد شرک پر تھی۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے گنڈے ، تعویز اور ٹوٹکوں وغیرہ کو حرام قراردیا ہے۔اور علاج کے ان طریقوں کو اپنانے کی ہدایت کی جن کی بنیاد علم اور تجربہ پر ہوتی ہے اور جو علاج مروجہ اور حقیقی طریقے ہوتے ہیں۔

البتہ پھونک کے ذریعے سے علاج کرانا جائز ہے یہ شرطے کہ پھونک قرآنی آیا کی ہو یا اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مریض کو شفا عطا کرے۔

5۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے مریض کو مایوس ہونے سے منع فرمایا ہے چاہے مرض کتنا ہی مہلک اور طویل کیوں نہ ہو۔ مریض کو ہمیشہ پر امید ہونا چاہیے کہ ایک نہ ایک دن وہ صحت یاب ہو جائے گا۔حدیث شریف ہے:

"لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أَصَابَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ" (مسند احمد)

’’ہر مرض کی دوا ہوتی ہے ۔ جب مرضی میں صحیح دوا مل جاتی ہے تو مریض اللہ کی مرضی سے اچھا ہو جاتا ہے۔‘‘

کوئی ایسا مرض نہیں جس کی دوا اللہ نے نہیں بنائی۔ جیسا کہ بخاری شریف کی ایک دوسری حدیث میں ہے۔ جب بھی مریض کو صحیح دوا ملتی ہے وہ اللہ کی مرضی سے صحت یاب ہو جاتا ہے اس لیے اسے ہمیشہ پر امید رہنا چاہیے۔

6۔اسلام نے جسمانی صحت کے ساتھ نفسیاتی صحت پر بھی پورا زور دیا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ نفسیات کا انسانی جسم پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ اگر انسان نفسیاتی طور پر صحت مند اور قوی ہے تو بہت ساری بیماریاں خود ہی بھاگ کھڑی ہوتی ہیں۔ جب کہ نفسیاتی مریض جسمانی طور پر بھی مریض ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نفسیاتی قوت کی طرف اس وقت اشارہ کیا جب مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعمیر ہو رہی تھی۔ سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ایک ایک پتھر اٹھارہے تھے لیکن حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  دو دو پتھر اٹھا رہے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:

"إن عمارا ملئ إيمانأ من قرنه إلى قدمه"

’’بے شبہ عمار سر سے پیر تک ایمانی قوت سے بھرے ہوئے ہیں۔‘‘

یہ ایمانی اور روحانی یا نفسیاتی قوت تھی کہ جس کی وجہ سے عمار کی جسمانی قوت عروج پر تھی۔

یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان تمام عادتوں سے منع کیا ہے جو نفسیاتی طور پر انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں مثلاًحسد کینہ ،غرور تکبر وغیرہ اس کے بر عکس مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ ان کا دل اللہ کے بندوں کے لیے محبت اور خلوص سے لبریز رہے۔اس میں کوئی شک نہیں حسد اور کینہ ایسی خصلتیں ہیں جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں جب کہ محبت اور خلوص کی فضا انسانی جسم کے لیے اکیسرسے کم نہیں۔

یہ ہیں وہ قواعد اور اصول جن کی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دی ہے اور بے شبہ ان اصولوں پر ایک ایسا صحت مند معاشرہ قائم ہو سکتا ہے جس سے باطل قوتیں ہمیشہ لرزہ براندام رہیں۔      

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:347

محدث فتویٰ

تبصرے