سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) سگریٹ نوشی حرام ہے

  • 23888
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 4619

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سگریٹ نوشی کا کیا حکم ہے؟ یہ حلال ہے یا حرام؟ آپ نے اپنی کتاب "الحلال والحرام فی الاسلام "میں اسے حرام قراردیا ہے۔ جب کہ بعض علماء اسے جائز اور بعض اسے مکروہ قراردیتے ہیں۔ عملاًہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے دیندار حضرات اور علماء کرام سگریٹ کا استعمال کرتے ہیں ۔مغربی ممالک میں تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہر سال لاکھوں افراد محض سگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور یہ کہ سگریٹ نوشی سے کینسر کا قوی امکان ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کی روشنی میں سگریٹ نوشی کا قطعی حکم بتائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سگریٹ یا تمباکو دسویں صدی ہجری کے آخر میں دریافت ہوا۔ اس کے بعد سے یہ مسلسل عام اور مقبول ہوتا چلا گیا۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے میں اس کا وجود نہیں تھا اس لیے علماء کرام اس کے حکم کے سلسلہ میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ بعض اسے حرام قراردیتے ہیں بعض کے نزدیک یہ مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک مباح اور بعض علماء اس سلسلہ میں خاموش ہیں اور کوئی رائے نہیں رکھتے۔ ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ تمام فریقوں کے دلائل پیش کرتے ہیں۔

حرمت کے دلائل:

1۔ اس میں نشہ کا پایا جانا۔ اگرچہ نشہ بہت قلیل مقدار میں ہو تا ہے اور اس کا احساس اس شخص کو کم ازکم ضرور ہوتا ہے جس نے ابھی سگریٹ پینے کی ابتدا کی ہو۔ اور یہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔اس قاعدہ کی بنیاد پر سگریٹ بھی حرام ہے کیوں کہ اس میں قلیل مقدار میں نشہ موجود ہوتا ہے۔ یا کم ازکم اس میں ذہن کو مد ہوش کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

2۔اس میں مالی اور جسمانی دونوں قسم کے نقصان کا پایا جانا۔ اس بات سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ سگریٹ  انسانی صحت کے لیے کس قدر مہلک ہے۔ اس کے نقصان کا اندازہ ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتا جو وقتاً فوقتاً مغربی ممالک کے محققین نشر کرتے ہیں۔کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے کتنے لوگ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے اور کتنے لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ اسلامی شریعت کا یہ اصول ہے کہ ہر وہ چیز جس میں انسانی جسم و جان کے لیے نقصان کا عنصر نمایاں ہو وہ چیز حرام ہوتی ہےشراب کو جب اللہ نے حرام کیا تواس کی حرمت کی وجہ یہی بتائی کہ اس میں نقصان کا عنصر اس کے فائدے کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ اسی طرح اس میں مالی نقصان بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سگریٹ نوشی سراسر فضول خرچی ہے سگریٹ پینے والا ہر دن نہ جانے کتنے روپے کا سگریٹ  پھونک ڈالتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی سے منع فرمایا ہے۔ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قراردیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَلا تُبَذِّر تَبذيرًا ﴿٢٦ إِنَّ المُبَذِّرينَ كانوا إِخو‌ٰنَ الشَّيـٰطينِ...﴿٢٧﴾... سورة الإسراء

"فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘

کراہت کے دلائل:

1۔ سگریٹ نوشی جسم انسانی کے لیے مضر بھی ہے اور مہلک بھی۔

2۔ اگر یہ فضول خرچی نہیں ہے تو کم ازکم مال کی بربادی ضرورہے۔ اس مال کو کسی اچھے کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے:

3۔اس کی بو ان لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے جو سگریٹ  نہیں پیتے۔

4۔ سگریٹ نوشی بہر حال شرافت اور اخلاق حمیدہ کے خلاف ہے۔

5۔ سگریٹ نوشی بہتر عبادات کی ادائیگی میں مانع ہے۔

6۔ سگریٹ کے عادی کو کچھ دنوں کے لیے سگریٹ نہ ملے تو وہ ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو جا تا ہے۔

ایک حنفی عالم دین الشیخ ابو سہل محمد بن الواعظ فرماتے ہیں کہ ان سب دلیلوں کی بنیاد پر سگریٹ نوشی کو حرام قراردیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگریہ حرام نہ بھی ہو تو اس کے مکروہ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

جواز کے دلائل:

جن لوگوں نے اسے جائز قراردیا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی شریعت کی روسے دنیا کی ہر شئی کی اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہے سوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت یا کراہت کی دلیل قرآن و سنت میں موجود ہو۔ اس قاعدے کی روسے سگریٹ نوشی بھی جائز ہے کیوں کہ اس کی حرمت کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جہاں تک نشے کا سوال ہے تو یہ کہنا سراسر غلط ہو گا کہ سگریٹ میں نشہ ہوتا ہے کیوں کہ نشہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں عقل کام کرنا چھوڑ دے۔ ظاہر ہے کہ سگریٹ نوشی سے ایسی کیفیت نہیں پیدا ہوتی۔اسی طرح فضول خرچی کا دعوی کرنا بھی غلط ہے کیوں کہ اس طرح مال خرچ کرنا صرف سگریٹ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت ساری ضرورتوں پر اسی طرح مال خرچ کرتا ہے۔

بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر سگریٹ نوشی کی وجہ سے کسی کو نقصان ہو رہا ہو تو اس کے لیے سگریٹ حرام ہے۔ لیکن اگر کسی کو اس سے نقصان نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے۔ اگر اس سے کسی بیماری کا علاج مقصود ہو تو اس کا استعمال واجب ہے۔

علمائےکرام کی مختلف رایوں اور ان کی دلیلوں کو سننے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر وہ چیز جس میں جسمانی یا مالی نقصانات ہوں وہ شرعاً ناجائز ہے۔ البتہ ان علماء کے درمیان اختلاف اس بات پر ہے کہ سگریٹ  کے اندر جسمانی اور مالی نقصانات ہیں یا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحقیق و جستجو کے بعد اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ سگریٹ کے اندر جسمانی اور مالی نقصانات موجود ہیں تو تمام علماء اس پر متفق ہو جائیں گے کہ سگریٹ شرعاً جائز نہیں ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سگریٹ کے نقصانات کو ثابت کرنے کا مجاز کو ن ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہاء اور علماء دین اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ وہ سگریٹ نقصانات کو ثابت کریں۔یہ ان کا میدان نہیں ہے۔ان نقصانات کو ثابت کرنا ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کاکام ہے۔ اور یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ مختلف طبی تحقیق کے نتیجہ میں تمام علماء طب اس بات پر متفق ہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے تباہ کن ہے۔ خاص  طور پر پھیپھڑوں کے لیے یہ انتہائی خطرناک ہے۔ سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کا کینسر اس قدر عام ہو گیا ہے کہ ساری دنیا اس پر پابندی لگانے کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ ان نقصانات کے علاوہ کچھ ایسے نقصانات ہیں جن کا اندازہ ہر خاص و عام لگا سکتا ہے۔ مثلاً منہ میں بدبو کا پیدا ہونا۔ اس کے دھویں سے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف کھانسی کے مرض میں مبتلا ہونا۔ وغیرہ و غیرہ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ وہ ہر جو فوری اثر کر جائے اور انسان کی جان لے لے اور زہر جو رفتہ رفتہ اور بتدریج انسان کی جان لے جسے ہم (Slow Poisi0n)بھی کہتے ہیں دونوں کا ایک ہی حکم ہے دونوں شریعت کی نظرمیں حرام ہیں۔ بے شبہ سگریٹ کا شمار اس زمرے میں کیا جا سکتا ہے بتدریج انسان کی جان لیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ سگریٹ کی ہلاکت خیزی سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص جان بوجھ کر خود کو ہلاک کرے۔

﴿وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَحيمًا ﴿٢٩﴾... سورةالنساء

’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین کرو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔‘‘

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب الروضہ میں فرماتے ہیں کہ"ہر چیز جس کا کھانا ضرر رساں ہواس کا کھانا حرام ہے۔ اور ہر وہ پاک چیز جس میں ضرر نہیں ہے اس کاکھانا جائز ہے۔"

سگریٹ  میں اس جسمانی نقصانی کے علاوہ مالی نقصان بھی ہے ایک ایسی چیز میں مال خرچ کرنا جس میں نہ دین کا فائدہ ہے اور نہ دنیا کا جو جسم کے لیے مضر ہے اسراف نہیں تو اور کیا ہے؟ اللہ فرماتا ہے۔

﴿وَلا تُسرِفوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُسرِفينَ ﴿٣١﴾... سورةالاعراف

’’اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک اللہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

سگریٹ  میں جسمانی اور مالی نقصان کے علاہ ایک اور نقصان بھی ہے اور وہ ہےنفسیاتی نقصان ۔ یعنی سگریٹ پینے والا رفتہ رفتہ اس قدر سگریٹ کا عادی ہو جا تا ہے کہ وہ اس کا غلام بن کر رہ جا تا ہے۔ اب وہ چھوڑنا بھی چاہے تو چھوڑ نہیں سکتا اگر سگریٹ نہ ملے تو اس کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ وہ پا گلوں کی سی حرکتیں کرتا ہے اور انتہائی نقاہت اور پر مرد گی  کا شکار ہو جاتا ہے۔ بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سگریٹ کو پانے کے لیے ایک عادی شخص اپنی بیوی بال بچوں پر مالی خرچ کرنے کے بجائے سگریٹ خرید کر پھونک دیتا ہے اور اس کے بچے بھوکے رہ جاتے ہیں یا ان کی لازمی ضروریات پوری نہیں ہو پاتی ہیں۔

ان سب نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے سگریٹ نوشی کو جائز قرار دینا کسی طور پر درست معلوم نہیں ہوتا۔ ان نقصانات کی بنا پر اسے حرام نہیں تو کم ازکم مکروہ ضرور قراردینا چاہیے۔ تاہم مذکورہ دلائل کی روشنی میں میری رائے یہ ہے کہ سگریٹ نوشی حرام ہے۔کیوں کہ اس میں ایک دو نہیں بلکہ تین تین نقصانات ہیں یعنی جسمانی مالی اور نفسیاتی اور ان کے مقابلہ میں فائدہ کچھ بھی نہیں ہے۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس کے پینے سے راحت ملتی ہے۔ذہنی سکون ملتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ راحت اسے ملتی ہے جو اس کا عادی ہو گیا ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص منشیات کا عادی ہو گیا ہو۔ منشیات کے استعمال سے اسے راحت نصیب ہوگی اور نہ ملنے کی صورت میں بے حد تکلیف ہو گی۔

سگریٹ نوشی پر اس فتوی کے ساتھ ساتھ میں چند باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔

1۔ بعض حضرات سگریٹ کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ سگریٹ ترک کرنا ان کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ ایسے شخص کو بشرط کوشش معذور سمجھا جائےگا۔ یہ اس کی نیت پر منحصر ہے کہ وہ سگریٹ چھوڑنے کے لیےواقعی کس قدر کوشش کررہا ہے اور سگریٹ چھوڑنے کے معاملہ میں کس قدرمخلص ہے۔

2۔ سگریٹ کے حرام ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شراب اور زنا جیسی حرام چیزوں کے برابر حرام ہے۔ اسلامی شریعت میں حرام چیزوں کے بھی کئی درجے ہیں۔

3۔وہ حرام چیز جس کی حرمت میں اختلاف ہو اس حرام چیز کے برابر نہیں ہو سکتی جس کی حرمت پر اتفاق ہو۔ اس لیے سگریٹ پینے والے کو فاسق کہنا یا اس کی گواہی کو کالعدم قراردینا اسے امامت کے حق سے محروم کرنا صحیح نہیں ہے۔

سائل کو اس بات پر حیرت ہے کہ بعض علماء کرام بھی سگریٹ نوشی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ میں ان سے کہوں گا کہ علمائے کرام گناہوں سے پاک مخلوق نہیں ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہو سکتی ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ڈاکٹر حضرات سگریٹ کے خلاف طبہ تقریریں کرتے ہیں اور پھر خود بھی سگریٹ پیتے ہیں ایسا اس لیے ہے کہ وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں اور اب وہ اسے چھوڑ نہیں سکتے۔

سگریٹ پینا اگر مردوں کے حق میں ایک قابل مذمت فعل ہے تو عورتوں کے لیے کہیں زیادہ قابل مذمت ہے۔ کیوں کہ یہ نسوانی حسن اور وقار کے خلاف ہے۔

ہر سگریٹ پینے والے کو میری یہ نصیحت ہے کہ مضبوط ارادہ کے ساتھ یکبار گی سگریٹ پینا بند کر دیں۔ رفتہ رفتہ ترک کرنے کی کوشش اکثر بار آور ثابت نہیں ہوتی ،جس کے پاس ارادہ کی مضبوطی  نہ ہو اسے چاہیے کہ بہت قلیل مقدار میں سگریٹ نوشی کرے۔دوسروں کے سامنے اس کی برائی بیان کرے۔ دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دے۔ کسی کو سگریٹ پیش نہ کرے اور اللہ سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے اس آفت سے نجات دے دے۔

نوجوان نسل سے میری اپیل ہے کہ وہ اس آفت کی طرف رخ بھی نہ کریں ۔ اکثر بچے محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اب وہ بڑے ہوگئے ہیں سگریٹ  پینا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ زبردست غلطی ہے۔ نوجوانوں کا سگریٹ چھوڑنا قدرے آسان ہے۔ کیوں کہ ابھی وہ اس کے عادی نہیں ہوئے ہیں۔

حکومت سے میری اپیل ہے کہ وہ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کو اس مصیبت سے پاک کرنے کی کوشش کرے چاہے اس کی راہ میں کتنی ہی دولت کیوں نہ خرچ کرنی پڑے۔ انسانی صحت  بہ ہر حال دولت سے زیادہ قیمتی شے ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:336

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ