سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) سفید جھوٹ

  • 23885
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 2066

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی سہیلی سے وعدہ کیا کہ میں اس کے پاس فلاں دن آؤں گی لیکن گھر کی بعض مصروفیات کی وجہ سے میں اس کے پاس اس دن نہ جا سکی ۔ جب بعد میں اس سے ملاقات ہوئی تو مجھے شر مندگی ہوئی کہ میں اپنا وعدہ پورا نہ کر سکی۔ چنانچہ میں نے بہانہ بنادیا کہ گھر میں عین وقت پر مہمان آگئے تھے اس لیے میں نہ آسکی۔ کیا اس طرح کی بہانہ بازی جھوٹ کہلائے گی؟ حالانکہ میں نے یہ بہانہ محض اس لیے کیا کہ میری سہیلی مجھ سے ناراض نہ ہو اور ہمارے تعلقات متاثر نہ ہوں ۔یہ ایسا جھوٹ ہر گز نہیں جیسا کہ لوگ خریدو فرخت میں دھوکہ دینے کے لیے یا کسی کا حق مارنے کے لیے بولتے ہیں۔ میرا جھوٹ بولنا محض اس لیے تھا کہ میں آسانی سے اپنی سہیلی کو منا سکوں ۔ کیا ایسا جھوٹ بولنا شریعت کی نظر میں جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی جید اور معتبر عالم سے اس مقصد کے لیے سوال کرنا کہ کہیں سے کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے شرعاً جائز ہے۔ اسی لیے سفیان الثوری نے فرمایا ہے۔

"إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَنَا الرُّخْصَةُ مِنْ ثِقَةٍ ، فَأَمَّا التَّشْدِيدُ فَيُحْسِنُهُ كُلُّ أَحَدٍ "

علم یہ ہے کہ کسی معتبر عالم سے رخصت اور جھوٹ کا پہلو نکل آئے رہی سختی اور تشد تو یہ کام تو ہر کوئی بخوبی کر سکتا ہے۔

لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں رخصت کا پہلو نکالا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹ بولنے کی رخصت نہیں دی جا سکتی الایہ کہ انتہائی ناگزیر حالت ہو۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا اسلامی شریعت کی نگاہ میں گناہ کبیرہ ہے۔ متعدد قرآنی آیات اور صحیح احادیث (پہلے سوال میں ان کا تذکرہ ہو چکا ہے) ہیں جن میں جھوٹ بولنے کی صریح ممانعت ہے۔ذیل میں مزید دو حدیثیں پیش کر رہا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

 "يطبع المؤمن على كل خلة غير الخيانة والكذب "(برازاوریعلی)

مومن ہر بات کا عادی ہو سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

دوسری حدیث ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔

"مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْكَذِبِ "(مسند احمد ،بزار اور حاکم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی ناپسندیدہ  عادت نہیں تھی۔

یہ تمام قرآنی آیات اور صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دین اسلام کس شدت کے ساتھ جھوٹ کو ناپسند کرتا ہے۔ تاہم اسلام جہاں اعلیٰ قدروں اور بہترین اخلاق کی تعلیم دیتا ہے وہیں ایک عملی اور (practicai)مذہب ہے۔ عملی زندگی میں بعض ایسے ناگزیر حالات پیش آجاتے ہیں جہاں جھوٹ کا سہارا لینا ضروری ہو جاتا ہے اور اسلام نے اس کی رعایت بھی کی ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب"احیاء علوم الدین" میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان ناگزیر حالات کی نشاندہی کی ہے جہاں جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔ میں اختصار کے ساتھ ان کے کلام کا مفہوم پیش کر رہا ہوں۔

’’میں جانتا ہوں کہ جھوٹ بولنا فی نفسہ حرام نہیں ہے بلکہ اس کی حرمت اس عظیم نقصان اور دھوکہ کی وجہ سے ہے جو جھوٹ میں پوشیدہ ہے۔ جھوٹ یا تو کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے بولا جا تا ہے یا دھوکہ دینے کے لیے یا اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے ہیں یا کم از کم اس کامقصود یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کو اصل حقیقت سے غافل رکھا جائے۔

انسان کا ہر کلام کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے۔ اس مقصد تک جھوٹ اور سچ دونوں ذریعے سے پہنچا جاسکتا ہے۔ اگر انسان کا مقصد جائز ہے اور جھوٹ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس کا حصول ممکن نہیں تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا جائز ہوگا اور اگر انسان کا مقصد نیک ہے اور اس کا حصول ضروری ہے اور جھوٹ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس کا حصول ممکن نہیں تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا واجب ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کی جان لینا چاہتا ہو اور جان کے ڈر سے وہ شخص آپ کے گھر میں روپوش ہو جائے۔ تھوڑی دیر میں جان لینے والا شخص آپ کے گھر آکر اس شخص کا پتہ پوچھے تو آپ کیا جواب دیں گے؟کیا یہ کہیں گے کہ ہاں وہ شخص میرے گھر میں روپوش ہے آؤ اور اسے مار ڈالو۔ اس کی جان بچانے کے لیے آپ جھوٹ بولیں گے ۔ یقینا ایسی صورت میں جھوٹ بولنا واجب ہے۔

میری ان باتوں کی بنیاد وہ حدیث ہے جو بعض حالات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتی ہے۔ حدیث ہے۔

"عن أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ رضي الله عنها ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ : ( لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا ) . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَيْءٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ : الْحَرْبُ ، وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ ، وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا " (مسلم)

’’میں نے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کو کسی جھوٹ کی رخصت دیتے نہیں سنا مگر تین موقعوں پر، کوئی شخص صلح صفائی کی خاطر جھوٹ بولے یا جنگ کے موقع پر جھوٹ بولے یا شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے جھوٹ بولے (جھگڑا ختم کرنے کے لیے)۔   

 دوسری حدیث ہے:

"ليس بكذاب من أصلح بين اثنين فقال خيراً أو أنمى خيراً" (بخاری ، مسلم)

وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو دو بندوں کے درمیان صلح صفائی کرانا چاہتا ہو چنانچہ وہ بھلا بات کہتا ہے یا بھلی بات کی چغلی کرتا ہے۔

امام غزالی آگے لکھتے ہیں کہ ان احادیث میں ان تین حالات کا ذکر ہے جہاں جھوٹ بولا جا سکتا ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ ان ہی کے زمرہ میں ہر وہ حالت ہو گی جب جھوٹ بولنے سے کسی انجام نیک کی امید ہو اور سچ بولنے سے کسی مصیبت میں پڑنے کا امکان ہو۔ بہ شرطے کہ یہ نیک انجام شریعت کی نظر میں نیک ہو۔ چنانچہ مال و دولت کی حفاظت اور عزت و آبرو کی حفاظت کی غرض سے بھی جھوٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کے پاس مال ہے اور کوئی شخص زبردستی اسے چھیننا چاہتا ہے تو آپ اس کی حفاظت کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں کہ آپ کے پاس مال نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آپ سے کسی فحش کام کا ارتکاب ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے پوشیدہ  رکھا تو آپ پر بھی یہ لازم ہے کہ آپ اسے پوشیدہ رکھیں اور کسی کو اس کے بارے میں نہ بتائیں ۔ اگر آپ سے کوئی اس کے بارے میں دریافت کرے تو آپ جھوٹ بول کر اس کا انکار بھی کر سکتے ہیں۔‘‘

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  کے اس بیان کے بعد میں آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں۔ آپ نے اپنی سہلی کے سامنے شرمندگی سے بچنے اور اس کی ناراضی ختم کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا۔ دراصل آپ نے دو غلطیاں کیں۔ پہلی غلطی تو یہ تھی کہ آپ نے وعدہ خلافی کی۔ دوسری غلطی یہ تھی کہ آپ نے اپنی پہلی غلطی کا اثر کم کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا۔ حالانکہ اگر آپ نے اپنی سہیلی کو حقیقت سے آگاہ کر دیا ہوتا کہ فلاں مجبوری کی وجہ سے آپ اس کے پاس نہ آسکی تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔اس میں بہانہ بازی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔واضح کرنے کے لیے آپ نرم سے نرم لہجہ اختیار کر سکتی تھیں تاکہ آپ کی سہیلی کی ناراضگی دور ہو جائے۔ اس کے باوجود اگر آپ کو یقین ہو کہ بہانہ بازی نہ کرنے کی صورت میں آپ دونوں کے تعلقات ختم ہو سکتے ہیں تو ایسی صورت میں آپ بہ قدر ضرورت جھوٹ بول سکتی ہیں بہ شرطے کہ آپ اسے عادت نہ بنا لیں۔

میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ آپ کا جھوٹ بولنا اس قدر بھیانک نہیں ہے جیسا کہ لوگ خریدو فروخت کے وقت جھوٹ بولتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں یا کسی کا حق مارتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے بھی کئی مراتب ہوتے ہیں۔ جھوٹ کا انجام جس قدر نقصان دہ اور ضرر رساں ہوگا جھوٹ کا گناہ بھی اسی قدر زیادہ ہو گا۔ واللہ اعلم۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:328

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ