سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(131) مجرم کو جیل سے رہا کرانے کے لیے رشوت دینا

  • 23883
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 504

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص ہیروین اسمگللنگ کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ اسے پندرہ سال کی سزا ہوئی۔ اس کا چچا لوگوں سے مالی مدد طلب کرتا پھر رہا ہے تاکہ رشوت دے کر اپنے بھتیجے کو جیل سے رہا کرا سکے۔ چچا اپنے بھتیجے کی مجرمانہ حرکت کی حمایت نہیں کرتا تاہم وہ اسے جیل سے اس لیے رہا کرانا چاہتا ہے کہ اس کے چھوٹے ،چھوٹے بچے ہیں اور سزا کی مدت بہت زیادہ ہے۔ کیا ایسی صورت میں رشوت دینا جائز ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہیروین ایسی چیزوں کی اسمگلنگ کرنا ایسا بھیانک جرم ہے کہ ایسے مجرم کو اس کے کیے کی سزاملنی چاہیے ۔ حقیقت  یہ ہے کہ منشیات سے بڑھ کر معاشرے کو تباہ و برباد کرنے والی کوئی دوسری چیزنہیں ہے۔ یہ شراب کی طرح ہے بلکہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے کیوں کہ ان منشیات کا استعمال کرنے والا ہمیشہ تصورات کی دنیا میں مگن رہتا ہے اور منشیات نہ ملنے کی صورت میں پاگل ہو جاتا ہے۔ایسے افراد سے ہر گز وہ معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا جو کسی کام کے لائق ہو۔ ایسا معاشرہ ناکارہ اورنا اہل افراد پر مشتمل ہو گا۔چنانچہ جو لوگ ان منشیات کی اسمگلنگ کر کے معاشرے کو تباہ و برباد کرتے ہیں وہ سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں۔ اگر حکومت نے اسے پندرہ سال قید کی سزا دی ہے۔ تو اب اسے یہ سزا بھگتنی چاہیے۔

ایسے شخص کو سزا سے بچانا بہ ذات خود ایک جرم ہے۔ کیوں کہ اس طرح مجرم کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور اسے سزا سے بچانے کے لیے رشوت دینا دوہرا جرم ہوا۔کیوں کہ یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے۔

"لَعَنَ اللهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ وَالرَّائِشَ"  (ترمذی ، حاکم، ابن حبان ، احمد)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے رشوت دینے والے ، لینے والے اور اس کام میں دلال بننے والے سب پر لعنت فرمائی ہے‘‘

چچا کو چاہیے کہ لوگوں سے جو مالی مساعدہ ملتا ہے اسے بھتیجے کے بال بچوں کی کفالت پر خرچ کرے نہ کہ رشوت دے کر ایک مجرم کو سزا سے بچانے کے لیے یہ رقم خرچ کرے۔ یہ بچےبچارےاپنے باپ کے جرم میں شریک نہیں ہیں۔ یہ لوگوں کی مدد کے محتاج ہیں۔ ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔

ویسے یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ جن افراد کو وہ قید کرتی ہے ان کے اہل وعیال کی کفالت وہ خود کرے۔ کیوں کہ بال بچوں کو بے سہارا چھوڑ دینا ان کو تباہ وبرباد کرنے کے لیے کافی ہے اور کیا پتا کہ بے سہارا ہونے کی وجہ سے یہ بچے بڑے ہو کر خود مجرم بن جائیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:325

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ