سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) کسی غیر اسلامی ملک میں متعدد ٹیکس کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی

  • 23882
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1312

سوال

(130) کسی غیر اسلامی ملک میں متعدد ٹیکس کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک غیر اسلامی ملک میں رہتا ہوں۔اس ملک میں مسلمان بھی بستے ہیں ۔ایک تاجر  پیشہ شخص ہوں۔غیر مسلم ملک میں ایک مسلمان تاجر کو بعض اوقات ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کا حل اس کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔چونکہ فقہی امور میں  آپ کی نظر کافی گہری ہے۔اس لیے میں آپ کے سامنے بعض مسائل پیش کرتا ہوں اور ان کا حل معلوم کرنا چاہتا ہوں"

1۔کیا سامان تجارت کا انشورنس جائز ہے؟واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے ان کا انشورنس کرانا لازمی ہوتا ہے اور ہمارے لیے حکومت کے اس قانون پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

2۔کیا تجارت کوفروغ دینے کے لیے بینک سےقرض لیا جاسکتا ہے؟

ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں کی حکومت ہم سے اس قدر ٹیکس لیتی ہے کہ اس کا ادا کرنا ہمارے لیے وبال جان ہے۔مثلاً اگر ہماری سالانہ آمدنی چالیس ہزار ڈالر ہے تو حکومت ٹیکس کے نام پر بارہ ہزار ڈالر لے لیتی ہے۔اسی طرح اگر ہماری سالانہ آمدنی ایک لاکھ ڈالر ہے تو حکومت پچھتر ہزار ڈالر ٹیکس لے لیتی ہے۔واضح رہے کہ ان ٹیکسوں کے علاوہ ہمیں زکوٰۃ بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ جو کچھ ہم ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں اسے زکوٰۃ سمجھ کر اداکریں تاکہ الگ سے زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہ رہے۔اگریہ صورت جائز ہوجائے تو ہماری پریشانیوں میں کمی ہوسکتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ نے جن مسائل اور پریشانیوں کاتذکرہ کیا ہے وہ پیدا ہی نہ ہوں اگر معاشرے میں اسلامی قوانین اور اسلامی نظام حیات رائج ہو۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے مغربی تہذیب اور مغربی قوانین کو اپنا رکھا ہے خاص کر معاشی معاملات میں جن کی بنیاد اسلامی بنیادوں سے بالکل مختلف ہے۔چنانچہ مغربی نظام معیشت کاسارا دارومدار سود پر ہوتا ہے جبکہ اسلامی نقطہ نظر سےسود اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے۔

مغربی قوانین کو اپنانے کی وجہ سے بعض ایسی پریشانیاں اور مسائل جنم لیتے ہیں جن کی وجہ سے فرد مسلم حیران وپریشان ہوجاتا ہے اور دین اسلام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان مسائل کا حل پیش کرے ۔ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم دین اسلام سے ان مسائل کا  حل مانگتے ہیں جنہیں اسلام نے نہیں بلکہ مغربی تہذیب نے جنم دیا ہے۔پہلے ہم مکمل مغربی نظام معیشت اور سودی بینک کے سسٹم کو اپنا لیتے ہیں اور اس کے بعد دین اسلام سے امید کرتے ہیں کہ اس سسٹم کی وجہ سے جو مسائل  پیدا ہوتے ہیں اسلام ان کاحل پیش کرے۔

اگر آپ واقعی اسلام سے ان کا حل مانگتے ہیں تو اسلام کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ آپ ان مغربی قوانین کے بجائے اسلامی قوانین کی طرف پیش قدمی کریں۔مغربی طرز کے بینکوں کو الوداع کہیں اور ان کی جگہ اسلامی قوانین کی بنیاد پر اسلامی بینک کی داغ بیل ڈالیں۔اگر یقین محکم اور مضبوط ارادہ ہوتو یہ کوئی مشکل اور ناممکن کام نہیں ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد کی کیا غلطی ہے اگر پورا معاشرہ اور پورا حکومتی ڈھانچہ اسلام سے منحرف ہو۔اکیلا شخص کیا کرسکتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ افراد ہی سے معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔اگر فرد واحد ان مغربی قوانین پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے اور ان قوانین کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین پر راضی ہے۔بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ان قوانین کو زندہ رکھنے میں شریک کار ہے۔ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان مغربی قوانین پر کبھی مطمئن ہوکر نہ بیٹھ رہے ۔ضروری ہے کہ اس کا شعور بیداررہے کہ یہ سارے قوانین باطل اور غیر اسلامی ہیں اور انہیں تبدیل ہونا چاہیے۔اور جب بھی اسے موقع میسر ہوانہیں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرے۔اگرکوئی مسلمان ان مغربی قوانین کے تحت محکوم ہوکر زندگی گزاررہا ہے تو ضروری ہے کہ اسے گھٹن اورگناہ کاشدید احسااس ہو۔اگر اس کے پاس یہ احساس بھی نہیں ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس کا ایمان مردہ ہوچکا ہے۔

اس موقعے پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ان جیسے مسائل کے حل کے لیے ایسا فتویٰ دینا جس میں مغربی قوانین اور مغربی تہذیب سے مصالحت اور(Compromise) کی بوآتی ہو ایک زبردست غلطی ہے۔یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ ہم نے ان مغربی قوانین کے مقابلے میں فکری اور روحانی شکست تسلیم کرلی ہے۔ایسی زندگی سے کیا حاصل جس میں ہماری اپنی عقل اور مرضی کا عمل دخل نہ ہو بلکہ اسلام کے دشمنوں کی مرضی کے مطابق تشکیل پائی ہوئی زندگی ہو؟جس میں ہمارے قوانین رائج نہ ہو بلکہ زندگی گزارنے کے لیے ہم اپنے دشمنوں سے قوانین اُدھارلیں۔آزادی اور بالادستی کا تقاضا ہے کہ ہم ان اُدھار کے قوانین سے نجات حاصل کریں اور مصمم ارادے کے ساتھ تہیہ کریں کہ ان غیر اسلامی قوانین کو کسی قیمت پر بھی اختیار نہیں کرنا ہے۔

اس تمہید کے بعد میں آپ کے سوالوں کی طرف آتا ہوں:

جہاں تک سامان تجارت کے انشورنس کا تعلق ہے تو یہ چیز جائز ہوسکتی ہے اگر اس میں سود کی ملاوٹ نہ ہو۔لیکن صورت حال یہ ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت سود سے پاک انشورنس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس لیے میری رائے میں سامان تجارت کا انشورنس صرف مجبوری اور اضطراری حالت ہی میں جائز ہوسکتا ہے۔البتہ لائف انشورنس تو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔

تجارت میں توسیع کی خاطر بینک سے قرض لینا قطعاً حرام ہے۔کیونکہ ایسی صورت میں انسان سود دینے کا مرتکب ہوگا اور سود لینا یا دینا دونوں ہی حرام ہیں۔بینک سے قرض لینا انتہائی مجبوری کی حالت میں جائز ہوسکتا ہے۔مثلاً بال بچوں کے پیٹ بھرنے کا مسئلہ ہویا کسی مریض کی جان پر بنی ہو اور اس کے علاج کا مسئلہ ہو اور مالی مشکلات درپیش ہوں۔ان صورتوں میں بقدر ضرورت بینک سے قرض لیا جاسکتا ہے۔تجارت کو  فروغ دینا ایسی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے لیے حرام چیز جائز قراردیا جائے۔میں کہتا ہوں کہ آپ  تھوڑا ہی کھائیں لیکن حلال کھائیں۔تھوڑے سے حلال پر قناعت کرنا اس بات سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ آپ زیادہ کھائیں اور حرام کھائیں۔

آپ نے سوال کیا ہے کہ آپ حکومت کو کافی مقدار میں ٹیکس ادا کرتے ہیں تو کیا اس ٹیکس کو زکوٰۃ سمجھ کر ادا کیا جاسکتاہے؟میرا جواب نفی میں ہوگا ۔کیونکہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے اور تمام عبادتوں کی طرح اس عبادت کے بھی چند شرائط ہیں:

1۔پہلی شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کے نام پر نکالی جائے اور اس مقدار میں نکالی جائے جو مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے۔

2۔دوسری شرط یہ ہے زکوٰۃ کی رقم ان مصارف میں خرچ کی جائے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں اشارہ کیا ہے۔

3۔تیسری شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کی نیت سے ادا کی جائے۔کیونکہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے اور عبادتوں میں نیت شرط ہے۔

آپ جو حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اسے آپ زکوٰۃ کی نیت کرکے تو ادا کرسکتے ہیں لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حکومت اس رقم کو ان مصارف میں خرچ کرے گی جن کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔اس بات کی ضمانت اسلامی حکومت سے نہیں لی جاسکتی چہ جائے کہ حکومت کافروں کے ہاتھ میں ہو۔

اس لیے آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے ایمان کو مضبوط تر کریں۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ ٹیکس کے علاوہ زکوٰۃ کی رقم بھی نکالی جائے۔خواہ تنگ دستی اور مالی پریشانی کا ڈر کیوں نہ ہو۔آپ اس دنیا میں تھوڑا نقصان برداشت کرلیں یہ بہتر ہے اس بات سے کہ آخرت میں آپ کو نقصان برداشت کرنا پڑے۔بلاشبہ غیر مسلموں کے مقابلے میں آپ پر اس ٹیکس اور زکوٰۃ کی وجہ سے مالی بوجھ زیادہ ہوگا لیکن آپ کے لیے باعث سکون یہ بات ہونی چاہیے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ پر مالی بوجھ زیادہ ہے۔اسی وجہ سے حدیث میں ہے کہ فتنوں اور مصیبتوں کا ایک ایسا دور آئے  گا جب مسلمان ہونا اتنا ہی تکلیف دہ ہوگا جیسا کہ ہاتھوں میں انگارالینا۔حدیث ہے:

"زَمَانٌ الْقَابِضُ عَلَى دِينِهِ كالقابض الجمر"

’’اس دور میں اپنے دین کو مضبوطی سے پکڑنے والا ایسا ہوگا جیسا انگارے کو پکڑنے والا‘‘

اور اسی لیے علماء کہتے ہیں کہ اس دور میں مضبوطی کے ساتھ دین پر قائم رہنے والا بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے مقابلے پچاس گنا زیادہ اجر وثواب کا مستحق ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:321

محدث فتویٰ

تبصرے